Column

دیگ کا خیال رکھنا ….. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

پنجاب کے رہنے والے خوش خوراک مشہور ہیں۔ ایک خوش خوراک نے ہاتھ روکا تو میزبان نے پوچھا ، آپ رج گئے ہیں؟ جواب ملا نہیں تھک گیا ہوں۔ سندھ کے بسنے والے بھی کسی سے کم نہیں لیکن ان کا کھانے کا انداز نرالا ہے۔ وہ کھاتے تو خوب ہیں لیکن یوں لگتا ہے انہیں کھایا پیا لگتا نہیں۔ اسی سے ملتا جلتا حال صوبہ خیبر کے باسیوں کا ہے، خوب کھاتے ہیں لیکن سلم سمارٹ نظر آتے ہیں۔ ان کا نظام ہضم مثالی ہے۔ کچھ دوستوں کا کہنا ہے یہ کمال ان کا نہیں وہاں کا پانی ہی ایسا ہے جو قدرتی طور پر” منرل“ سے بھرا ہے، یوں لکڑ، پتھر سب ہضم ہوجاتا ہے۔ بلوچستان کے باسیوں کے بارے عام خیال یہی تھا کہ وہ نسبتاً کم خوراک ہیں البتہ بکرے یا دنبے کی بنی سجی ایک نشست میں چار افراد کے سامنے رکھ دی جائے تو پیچھے کچھ نہیں بچتا۔ کوئٹہ میں چند برس قبل ایک اہم شخصیت کے گھر سے کرنسی کے ذخائر برآمد ہوئے یہ ذخائر اتنے بڑے تھے کہ گنتے گنتے مشینیں تھک کر گرم ہو گئیں۔ اب یہ ذخائر کہاں ہیں کس کی ملکیت میں ہیں کوئی نہیں جانتا۔ وفاقی حکومت کے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک مشیر یار محمد رند نے مستعفی ہونے کے بعد فرمایا ہے کہ ایک منصب ساڑھے تین ارب میں فروخت کیا گیا، جس سے اندازہ ہوا کہ معاملات اب بکرے یا دنبے کی سجی تک محدود نہیں رہے۔ فی الحال تو یہ الزام ہے، معلوم نہیں ثابت ہو سکتا ہے کہ نہیں اور ثابت بھی ہو جائے تو پھر کیا ہوگا؟ کچھ بھی نہیں۔ بہت کچھ ثابت شدہ ہے ، ملک بھر کے سیاستدانوں کے بارے کہا جاتا ہے کہ سب خوش خوراک و خوش لباس ہیں سوائے چند پرہیزی کھانا کھانے والوں کے۔ بعض کے کھانے کے اور دکھانے کے دانت بہت مشہور ہیں۔ ملک بھر میں چھوٹے چھوٹے وقفوں کے ساتھ سیاسی پکوان تیار کئے جاتے ہیں، کھانے کے آداب کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ آدھے سے زیادہ پاکستان اس نکتے پر متفق ہے کہ کھاتے ہوئے خاموش رہنا چاہیے یعنی چپ چاپ کھاناچاہئے حتیٰ کہ کھاتے ہوئے اِدھر اُدھر بھی نہیں دیکھنا چاہیے مزید برآں کھاتے ہوئے دوسروں کے لقمے نہیں گننا چاہئیں، اس طرح کھانے سے انسان خود خسارے میں رہتا ہے۔

مغرب نے کھانے کے حوالے سے ورکنگ لنچ یا ورکنگ ڈنر کی اصطلاح پیش کی تھی جس سے تاثر ملتا ہے کہ کھانے کے ساتھ ساتھ کاروبار بھی کیا جاتا ہے۔ درحقیقت ایسا ہرگز نہیں ہوتا، ورکنگ لنچ یا ورکنگ ڈنر معاہدوں سے قبل ہوتے ہیں۔ کھانے کی میز پر دراصل یہ طے کیا جاتا ہے کہ کام میں کون کسے کتنی رشوت دے گا اور یہ کہاں اور کیسے ادا کی جائے گی۔ اصل کام یہی ہوتا ہے جو کھانے کے بہانے انجام دیا جاتا ہے۔ ملک بھر میں دیگ کے کھانے بہت پسند کیے جاتے ہیں، نامور سیاستدان چودھری پرویز الٰہی نے انکشاف کیا ہے کہ ایک بڑی دیگ چڑھائی گئی ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ ضرور نکلے گا، اب ہر شخص کی نظر اِس دیگ پر ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے ایسی ہی ایک دیگ گزشتہ برس بھی چڑھائی گئی تھی جس میں چیف شیف کا کردار مولانا فضل الرحمن ادا کر رہے تھے۔ مسلم لیگ (ن)اور پیپلزپارٹی کے ذمے وہی کچھ تھا جو چڑیا چڑے کی کہانی میں تھا یعنی ’چڑیا لائی دال کا دانہ اور چڑا لایا چاول کا دانہ“۔
مولانا فضل الرحمن کے ذمہ آگ کا بندوبست تھا انہوں نے ضرورت کے مطابق خاصی لکڑیاں اکٹھی کر لی تھیں، آگ جلا کر دیگ چڑھائی اور کڑچھا چلاتے رہے، شہبازشریف اور بلاول یکے بعد دیگرے پہنچے تو دونوں خالی ہاتھ تھے، وجہ وہ خود جانتے ہیں یا آصف زرداری یا نواز شریف جانتے ہوں گے لیکن مولانا کو شاید یہی بتا کر دلاسہ دیا کہ دال اور چاول مارکیٹ میں دستیاب نہیں لہٰذا پانی سے بھری دیگ اتار لیں۔ یوں مولانا نے بادل نخواستہ دیگ اتار لی، وہ خاصے ناامید ہوئے۔ اس دل شکنی کے بعد وہ کافی عرصہ سے خاموش رہے شاید پکی پکائی کھاتے رہے، خود کچھ پکانے کا تردد نہ کیا۔ ان کی طبیعت کچھ عرصہ بعد بحال ہوئی تو ایک مرتبہ نئے جوش و خروش سے میدان میں اترے ہیں اس مرتبہ انہوں نے دال اور چاول پہلے اکٹھے کیے ہیں دیگ بعد میں چڑھائی ہے۔ وہ پی ڈی ایم کے سربراہ ہیں لہٰذا عہدے کے مطابق کڑچھا ان کے ہی ہاتھ میں ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہ بریانی دم کرنے کا ”ارادہ“ رکھتے ہیں، یہ نہیں بتایاگیاکہ یہ چکن بریانی ہوگی یا مٹن بریانی۔ عین ممکن ہے آخری لمحات میں بجٹ دیکھ کر وہ فیصلہ کریں کہ اس مرتبہ کچھ سستا سستا ہو جائے یوں بیف بریانی بنا ڈالیں۔
بریانی تیز مصالحے والی ہوگی یا نمک مرچ ہلکا ہو گا، دیسی گھی کی ہو گی یا کوکنگ آئل استعمال ہوگا، تیزپات ڈالا جائے گا یا ثابت ہری مرچوں سے کام چلایا جائے گا۔ اس بارے میں علم صرف چار شخصیات کو ہے، دو کا تعلق حکومت سے اور دو کااپوزیشن سے ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے یہ علم نوازشریف اور زرداری کو جبکہ حکومتی شخصیات میں وزیراعظم عمران خان اور سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کے پاس اس بریانی دیگ کی مکمل ریسپی موجود ہے۔
چند روز قبل وزیراعظم عمران خان لاہور آئے تو چودھری برادران کے گھر گئے، دس روز میں یہ ان کی دوسری ملاقات تھی۔ ذرائع نے خبر دی کہ پہلی ملاقات تو عرصہ دراز سے مزاج پرسی کے سلسلے میں تھی جبکہ دوسری ملاقات میں انہوں نے چودھری برادران کو پیشکش کی کہ تمام لوازمات وہ مہیا کیے دیتے ہیں، دیگ پرویز الٰہی چڑھا لیں۔ انہوں نے حسب عادت کوئی واضح جواب نہ دیا۔ کچھ لوگوں کاکہنا ہے کہ اسے ان کی طرف سے جواب ہی سمجھنا چاہیے جبکہ بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ جب دیگ میں سب کچھ ڈل جائے گا اور وہ تیاری کے قریب ہو گی تو پھر وہ فیصلہ کریں گے کہ اپنی دیگ چڑھانی ہے یا اپوزیشن کی دیگ کا نمک مرچ چکھ کر اسے پاس یا فیل کرنا ہے۔
بتایا جا رہاہے کہ بلاول جس روز اسلام آباد پہنچیں گے اس روز دیگ کا ڈھکن اٹھایا جائے گا، اس سے قبل معاہدے کے تحت خالی دیگ کھڑکتی رہے گی۔
مولانا فضل الرحمن سیاسی بریانی دیگ کے معاملے میں یکسو ہیں، وہ خوب جانتے ہیںآنچ کم رہ جائے تو دیگ کچی یا تیز آنچ اس کا ستیاناس کر دیتی ہے۔ دیگ لگ جائے تو تمام محنت پر پانی پھر جاتا ہے، کبھی کبھار ”سوکنیں“ مٹھی بھر کے نمک ڈال جاتی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان خاصے مطمئن نظر آتے ہیں یوں لگتا ہے انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ دیگ کا ڈھکن اٹھنے سے پہلے یا بعد میں انہوں نے کیا کرنا ہے، وہ دیگ الٹا دینے کی حکمت عملی بھی بنا چکے ہیں۔
اب ایک ذاتی سی بات، میں نصف درجن بھائیوں کا لاڈلا بھائی ہوں، میری بھابیاں بھی میرا بہت خیال رکھتی ہیں۔ سب انتہائی خدمت گزار ہیں، ایک بھابی کے ہاتھ کی بریانی خاندان بھر میں مشہور ہے۔ ہم اکثر ان سے بریانی کی فرمائش کرتے ہیں۔ چند روز قبل بریانی کی دعوت تھی۔ دعوت رات کے کھانے کی تھی، سو میں نے بریانی کے شوق میں دوپہر کو بھی کچھ نہ کھایا تاکہ بریانی کا صحیح لطف اٹھایا جا سکے۔ رات کو کشاں کشاں بھائی کے گھر پہنچا، یوں لگا بھابی کی شکل پر بارہ بجے ہیں۔ پوچھا کیا ہوا؟ دُکھ بھرے لہجے میں بولیں بریانی کی دیگ میں کتا منہ مار گیا ہے۔ ہم سب کو بہت افسوس ہوا۔ بعض کتے دراصل بہت ہی کتے ہوتے ہیں۔ ہمیں خیال رکھنا چاہئے۔ خیال رکھنا ضروری ہوا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button