Columnمحمد مبشر انوار

مقابله اقتدار ۔۔۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار
پاکستان میں سیاسی گہما گہمی انتہا کو چھوتی نظر آ رہی ہے کہ کیا حکومت اور کیا اپوزیشن،دونوں کی سیاسی میل ملاقاتیں عروج پر ہیں،ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر جوڑ توڑ ہو رہے ہیں۔ حکومتی اتحادیوں کی مانگ میں شدید اضافہ ہو چکا اور اپوزیشن اپنی بھرپور توانائیاں حکومتی اتحادیوں کی حمایت حاصل کرنے میں صرف کر رہی ہے،وعدے وعید ،سبزباغ اور تعاون کی یقین دہانیاں کروائی جا رہی ہیں اور مقصد صرف اتنا ہے کہ کسی طرح عمران حکومت سے جان چھوٹ جائے۔ سوال صرف اتنا سا ہے کہ اس تمام مشق میں کہیں عوامی مفادات کا عمل دخل نظر آتا ہے؟حکومتیں گرانے اور حکومتیں بنانے میں عوامی شمولیت کا کہیں کوئی احساس ہی موجود نہیں ،عہدوں کی بندر بانٹ ہے،جو سیاسی اکابرین بند کمروں میں بیٹھ کر کرتے نظر آتے ہیں۔میاں نواز شریف کی خواہش ہے کہ فوری انتخابات ہو جائیں جبکہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کی مدت پوری کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے اور کیوں نہ رکھے کہ اگر پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کرتی ہے تو یہ زرداری صاحب کے لیے بہرطور فائدہ مند ہے کہ وہ اس میں حصہ دار ہیں۔ اس مشق میں بہرطور تضادات بھی موجود ہیں کہ اپوزیشن ،ایک طرف متحد دکھائی دیتی ہے تو اندرونی طور پر کئی ایسے معاملات بھی ہیں،جن پر اپوزیشن کے شدید تر اختلافات ہیںاور عمران خان سے نجات کے لیے ان کا طریقہ کار پر ہنوز اتفاق نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی شدید خواہش ہے کہ اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں مشترکہ جدوجہد کریں لیکن بد قسمتی سے ان کی یہ خواہش بر نہیں آتی اور گذشتہ مارچ کی طرح اس مرتبہ بھی پیپلز پارٹی اپنا الگ لائحہ عمل لئے،اس پر عمل پیرا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے 23مارچ کو لانگ مارچ کی کال دی تھی لیکن اس وقت پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی قیادت میںسندھ سے مارچ کی ابتداءکر چکی اور تا دم تحریر پیپلز پارٹی کا مارچ وسطی پنجاب میں داخل ہو چکا ہے۔ شنید یہی ہے کہ پیپلز پارٹی ایک بڑے جلوس کی صورت پنجاب میں داخل ہوئی ہے اور پیپلز پارٹی کے رہنما یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کا مارچ تیس کلومیٹر طویل ہے،ہزارہا گاڑیوں کی موجودگی میں جلوس کی لمبائی کا تیس کلومیٹر طویل ہونا کوئی بڑی بات قطعی نہیں ،اصل مسئلہ عوام کا ہے کہ اس مارچ میں عوام کی کتنی تعداد شریک ہے۔ بالفرض یہ بھی تسلیم کر لیں کہ اس مارچ میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا ہجوم بھی موجود ہے،تو کیا یہ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ اس جلوس میں شامل تمام افراد پیپلز پارٹی کے کارکنان ہی ہیں؟یہ سوال ٹیڑھا سا ہے اور اسے تسلیم کرنے میں کئی امر مانع ہیں کہ سب سے پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور تمام سرکاری مشینری بہر طور سندھ حکومت کے ماتحت ہے اور یہ بھی سنا گیا ہے کہ اس مارچ میں شریک بہت سے افراد سرکاری مشینری سے تعلق رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں! پیپلز پارٹی کے گذشتہ مارچ کے بعد بھی اخبار نویس ایسی ایسی کہانیاں سامنے لائے تھے کہ مارچ میں شریک افراد کو جس دیہاڑی کا جھانسہ دیا گیا تھا،وہ اس دیہاڑی کو وصول کرنے میں دربدر ہو گئے تھے لیکن پیپلز پارٹی کے اکابرین نے ان دیہاڑی داروں کو مارچ میں شامل ہونے کی اُجرت نہیں دی تھی۔
پیپلز پارٹی ایک نظریاتی جماعت کی دعویددار رہی ہے لیکن موجودہ لائحہ عمل اور پالیسیاں اسے کسی بھی حوالے سے نظریاتی جماعت ثابت نہیں کر رہی،یہ غریبوں کی جماعت تصور ہوتی رہی ہے لیکن اس نے سندھ کے غریبوں کی بہتری کے لیے کوئی انقلابی اقدامات نہیں کئے کہ سندھی عوام آج بھی پسماندگی کی زندگی گذار رہے ہیں،عدلیہ کی جانب سے لاڑکانہ میں نوے ارب کا ترقیاتی بجٹ اور لاڑکانہ کی حالت زارپر جو رائے دی گئی،وہ دنیا جانتی ہے۔ عوامی سیاست کی دعویدار یہ جماعت ،آج ڈرائنگ روم کی سیاست میں مخالفین کو اس طرح پچھاڑ رہی ہے کہ اس کے مخالفین عدالتی کارروائیوں سے گھبرا کر بیرون ملک جا بسے ہیں جبکہ زرداری صاحب کی ڈرائنگ روم کی سیاست اتنی پر اثر ہو چکی ہے کہ نہ صرف زرداری صاحب خود،ان کی بہن اور پارٹی کے اسیران بھی ایک ایک کر کے سب زندان سے باہر کھلی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔بقول زرداری صاحب”مجال ہے“کہ کوئی ان کے خلاف ایک بھی الزام ثابت ہو سکے کہ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے ببانگ دہل کہا تھا کہ مجھ پر کرپشن کے سب الزامات بے بنیاد ہیں اور انہیں عدالت میں کوئی ثابت نہیں کر سکتا،انہوں نے اپنا دعویٰ اب تک نہ صرف سچ کر دکھایا ہے بلکہ مخالفین کو شدید زک بھی پہنچائی ہے۔
کیا زرداری صاحب کا دعویٰ صرف اپنی بے گناہی ثابت کرنے تک تھایا وہ پیپلز پارٹی کو پنجاب میں دوبارہ زندہ کرنے کے دعویٰ کو بھی حقیقت میں بدل سکتے ہیں؟وہ پنجاب جو بھٹو کے دور میں پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا،بے نظیر نے جسے اپنی جان دے کر بھی خود سے جدا نہیں کیا تھا،وہ پنجاب جسے پیپلز پارٹی سے متنفر کرنے کے لیے،پیپلز پارٹی کو دہائیوں تک یہاں حکومت سے بیدخل رکھا گیا،اس پنجاب کو حاصل کرنے میں زرداری کی کیا حکمت عملی ہو گی؟کیا بلاول کا موجودہ مارچ اس میں مددگار ہو گا یا کسی ان دیکھی قوت کے سہارے ہی پنجاب میں واپسی ہو گی؟بہرکیف معاملات جو بھی ہیں،اس حقیقت سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ زرداری صاحب ہی ہیں،جنہوں نے پاکستانی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے گو کہ یہ ہلچل موجودہ حالات میں انتخابی مہم کی شکل اختیار کر رہی ہے اور پارلیمنٹ کے اندر سے کسی قسم کی تبدیلی اضافی ہی تصور ہو گی۔ اس وقت زرداری ڈاکٹرائن نے حکومتی حلقوں میں زبردست پریشانی پیدا کر رکھی ہے اور حکمران جو ساڑھے تین سال تک اپنے اتحادیوں کو ملنے سے کتراتے رہے،آج ان کے گھروں میں حاضری دینے پر مجبور ہیںاور انہیں ہر طرح کی یقین دہانی بھی کروا رہے ہیں۔ صرف حکومت ہی کیا،شریف خاندان جو (ق) لیگ کے چودھریوں کو اپنے گھر تعزیت کے لیے بھی خوش آمدید کہنے پر تیار نہیں تھے بلکہ انہیں دروازے سے واپس بھیج دیا تھا،چل کر ان کے در دولت پر حاضر ہو رہے ہیںتا کہ حکومت کے خلاف ان کی حمایت حاصل کی جا سکے،اس کے لیے (ق) لیگ کو وزارت اعلیٰ کی پیشکش بھی کی جا چکی ہے اور حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے حکومت بھی چودھری پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کی پیشکش دے چکی ہے اور شنید یہ بھی ہے کہ اگلے چند دنوں میںاس کا باقاعدہ اعلان بھی ہو جائے گا۔ اصولی طور پر دیکھا جائے تو چودھری پرویز الٰہی کو بطور اتحادی پہلے دن ہی وزارت اعلیٰ پیش کر دی جاتی تو معاملات آج اس نہج تک نہ پہنچتے لیکن حکمرانی کے اپنی ترجیحات ہوتی ہیں اورحکمران ان کے اسیر ہوتے ہیں۔
اس ساری صورتحال میں ایک حقیقت واضح ہے کہ جہاں حکمرانوں کی ناقص کارکردگی یا یوں کہہ لیں کہ عوامی ریلیف کی بجائے ملکی معاملات کو سنوارنے کی خاطر سخت مگر غیر معروف فیصلوں نے حکومت کو غیر مقبول کیا وہاں حکومت کی گورننس بالخصوص سوالیہ نشان رہی کہ کرپشن کے خلاف واویلا کرنےوالی حکومت کرپٹ عناصر سے کچھ بھی نکلوانے میں کامیاب نہیں ہو سکی،یوں اس کارکردگی کی بنیاد پر مردہ جاں اپوزیشن ڈٹ کر کھڑی ہو گئی اور اس کے تن مردہ میں جان ڈالنے کی تمام تر ذمہ دار خود حکومت بن گئی۔ اپوزیشن نے حکومتی غلطیوں کو بھرپور طریقے سے اپنے حق میں استعمال کیا لیکن مکرر عرض ہے کہ اس میں نہ تو عوام کو پیش نظر رکھا گیا اور نہ ہی ملکی مفادات کسی کے سامنے رہے،سامنے رہے تو بس اپنے مقدمات یا اقتدار کی خواہش اور اس خواہش کے حصول میں نہ صرف اپوزیشن بلکہ حکومتی اتحادی جماعتیں بھی شامل ہیں ۔ مقابلہ ہے تو بس اتنا کہ اقتدار میں کس کا کتنا حصہ ہے،اب تو نوبت یہاں تک آ چکی ہے کہ حصہ بقدر جثہ بھی کسی کھاتے میں نہیں آتا بلکہ جو جتنا حالات سے کشید کر سکتا ہے،وہ کرنے سے نہیں چوکتااور مقابلہ اقتدار سے باہر بھی نہیں ہوتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button