Column

چور اور سیاسی چور ۔۔۔۔۔۔ کاشف بشیر خان 

 

کاشف بشیر خان

چور اور سیاسی چور میں فرق بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا۔چور کی تعریف تو بہت سادہ ہے کہ وہ اپنے شکار کو ڈھونڈتا اور پھر اس پر وار کرتا ہے لیکن شکار کو ڈھونڈنے کے لیے اسے بہت سے عوامل کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔اول تو وہ اپنے شکار کی مالی حیثیت کا اندازہ لگانے کے بعد یہ پلاننگ کرتا ہے کہ چوری کب اور کیسے کرنی ہے اوراس دوران اپنی حفاظت کیسے کرنی ہے۔چور ہمیشہ کمزور پر آسانی سے حملہ آور ہوتا ہے کہ اس کی جانب سے مزاحمت کی امید کم کم ہوتی ہے۔جسے ہم ڈکیتی کہتے ہیں وہ بھی دراصل چوری ہی ہوتی ہے فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ اس چوری میں اسلحہ استعمال کیا جاتا ہے اور مزاحمت کی صورت میں یہ اسلحہ شکار پر استعمال بھی کر دیا جاتا ہے۔ چور کا مقصد جان سے مارنا نہیں ہوتا لیکن مزاحمت کی صورت میں اِسے اپنی جان بچانے کے لیے اسلحے کا استعمال کرنا پڑتا ہے اِسی لیے اکثر یہ خبر سننے اور پڑھنے کو ملتی ہے کہ ڈکیتی میں مزاحمت پر کوئی شخص زخمی یا ہلاک ہو گیا۔ کمزور ریاستوں میں اسی لیے یہ بیانیہ پھیلایا جاتا ہے کہ اگر کوئی آپ کو لوٹنے کی کوشش کرتا ہے تو اس سے مزاحمت نہ کی جائے۔ یہی بیانیہ پاکستان میں بھی عام کیا جا چکا ہے کہ اگر کوئی آپ کو لوٹ رہا ہے تو اسے اپنا مال و زر چپ چاپ دے دیں اور مزاحمت بالکل نہ کی جائے۔ یہ بیانیہ دراصل ریاست کا انتظام چلانے والے اداروں کی نااہلی اور انصاف کی فراہمی میں ناکامی کے حامل انتظامی ڈھانچوں کے کرتا دھرتاو ¿ں کی جانب سے اپنی مجرمانہ غفلت چھپانے کے لیے مقبول عام بنایا جاتا رہا ہے۔ چوری دراصل معاشروں میں موجود قوانین کے عدم رائج ہونے یا پھر عدم مساوات کی وجہ سے ہوا کرتی ہیں۔
دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور ریاست کے باشندوں کو ان کے جائز حقوق کی عدم فراہمی بھی چوری جیسے فعل کی وجہ بنتے ہیں۔ وہ دن گئے جب معاشرے میں چوری کرنے والے شخص کو نہایت برا سمجھا جاتا ،چور اور اس کے خاندان کا معاشرے میں رہنا نہایت مشکل ہوا کرتا تھا، تب ہمارا معاشرہ اور ماحول خالص ہوا کرتا تھا ۔ منافقت و جھوٹ نے ہمارے روز و شب میں بری طرح سے سرائیت نہیں کیا تھا۔ دنیا کے تمام مذاہب چوری کو بڑا جرم قرار دیتے ہیں ، اسلام میں تو چور کے لیے بہت سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیںلیکن جس اسلام نے چوری کی سزا ہاتھ کاٹنے کی رکھی وہی ریاست پر فرض کرتا ہے کہ وہ اپنے باشندوں کے جان ومال، روزگار کے مساوی مواقعے اور زکوة و عشر کے نظام کو سختی سے رائج کرے تاکہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نہ ہو اور دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز روکا جائے ، اس طرح ایک متوازن معاشرے کی تشکیل ہو سکے گی۔اگر اس اسلامی نظام ریاست کا بغور جائزہ لیا جائے تو بہت آسانی سے معلوم پڑتا ہے کہ اس نظام ریاست کہ جس میں دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی اگر بھوک سے مر جائے تو اس کا ذمہ دار مقتدر اعلیٰ یعنی امیر المومنین یا موجودہ زمانے کا وزیر اعظم یا صدر ہو گا تو پھر اسلامی ریاست کے قیام سے معاشرے سے چوری کا نام و نشان مٹ سکتا ہے۔مغرب کے کچھ ممالک آج بھی عمرز لاءپرچلتے ہوئے فلاحی ریاستیں کہلواتے ہیں ۔ ڈنمارک ان سب ممالک میں سے اول نمبر پر ہے کیوں کہ وہاں پر عوام کو ریاست کی کارکردگی کے ثمرات ملنے کا تناسب قریباً 100فیصد ہے۔
نوے کی دہائی میں محترمہ بینظیر بھٹو کے ایک بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا کہ ہاتھ پاو ¿ں کاٹنا ظالمانہ سزائیں ہیںجبکہ محترمہ بینظیر بھٹو نے کہا تھا کہ ”جب تک ریاست عوام کے حقوق پورے نہ کرے تب تک ان کو ایسی سزائیں دینا ظالمانہ ہی کہلائے گا“۔آج ہی جب میں اپنی آنے والی کتاب میں شامل کرنے کے لیے پرانے لکھے کالم دیکھ رہا تھا تو میری نظر سے 2012 میں لکھاایک کالم گزرا۔اس کالم میں میں نے ایک الم ناک شخص کی کہانی لکھی تھی۔ڈیرہ غازی خان میں اللہ بخش نامی شخص اپنے گھر کے آٹھ افراد کی بھوک سے مجبور ہو کر گندم کے ایک گودام میں گھس گیا تاکہ چند کلو گندم چوری کر کے اپنے بیوی بچوں کی بھوک مٹا سکے لیکن وہ اس گودام میں اپنے اوپر گندم کی بھاری بوری گرنے سے جاں بحق ہو گیا ۔ میرا اس وقت بھی یہی سوال تھا اور آج بھی ارباب اختیار سے یہ ہی سوال ہے کہ اللہ بخش چور تھایا مظلوم؟کیا اس نہ ہونے والی گندم چوری کی ذمہ دار حکومت اور گوداموں میں گندم ذخیرہ کرنے والے نہیں تھے؟میرے لیے عرب سمیت یورپ کے تمام ممالک میں ہر سپر سٹور اور سڑکوں پر سامان کھلا پڑا ہونے کے باوجود چوری نہ ہونا بھی شروع شروع میں حیران کن تھا لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہاں کے ریاستی ادارے اور حکومتیں عوام کے حقوق کے تناظر میں اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی نہیں کرتیں اور وہاں سیاسی چوروں کی گنجائش بالکل بھی نہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں ہم جانتے بوجھتے ہوئے بھی انہی شخصیات کو انتخابات میں چنتے ہیں جن کے سینوں پر ماضی میں ملک و قوم کے وسائل لوٹنے کے بدترین داغ میڈلز کی طرح جگمگاتے نظر آتے ہیں۔
قارئین کو بتانے کی ضرورت ہے کہ چور اور سیاسی چور میں ایک فرق بہت واضع ہوتا ہے۔چور کو اپنا شکار خود ڈھونڈنا پڑتا ہے جبکہ سیاسی چور کو ہم عوام خود ڈھونڈ کر لاتے ہیں کہ آﺅ اور ہمیں لوٹو۔ کچھ ایسا ہی معاملہ آج ہماری ریاست کے انصاف فراہمی کے اداروں اور سیاسی چوروں کے درمیان ” خاموش مفاداتی معاہدہ“ کی شکل میں سامنے ہے۔ پاکستان میں افسوسناک صورتحال تو یہ ہے کہ بھوکا پیاسا چور تو کئی کئی ماہ تھانوں اور جیلوں میں سڑتے نظر آتاہے جبکہ سیاسی چور نظام کی بدصورتی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دندناتے پھر رہے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال اس لیے نہایت خطرناک ہے کہ پچھلے 40سال کے بعد پہلی مرتبہ ریاستی ادارے اور موجودہ حکومت آمنے سامنے کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ ریاستی ادارے آج بھی سیاسی چوروں کے پیچھے کھڑے ہیں جبکہ حکومت سیاسی چوروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوشش کرتی ہے تو وہ انہی ریاستی اداروں کی مدد سے گرفت میں آنے کی بجائے انصاف کا مذاق اڑاتے ہوئے وکٹری کا نشان بنا کر تاریخوں پر تاریخیں ڈلوا کر عوام کے لوٹے ہو سرمائے سے بنے محلوں میں پہنچ جاتے ہیں۔
آج بھوکا ننگا چور ذلیل و خوار ہے جبکہ سیاسی چور دندناتا پھر رہا ہے۔پاکستانی قوم کو بطور خاص سوچنا ہے کہ ویسے تو پاکستان میں ہر قسم کے چوروں کی بہتات ہے لیکن سیاسی چوروں کو اتنا طاقتور کس نے بنایا کہ آج حکومت، ادارے اور عدالتیں بھی ان کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ آج ہی لاہور میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری پگڑیاں اچھالنے والوں کے خلاف حکومت کی جانب سے لائے جانے والے بل کو ایک محترم منصف کی جانب سے روکنے پر کہہ رہے تھے کہ پارلیمنٹ یا صدر مملکت کے بنائے ہوئے قانون کو سایڈ لائن کرنے کا اختیار فرد واحد کو نہیں دیا جاسکتا۔ کالم کا آغاز تو چور سے ہوا تھا لیکن اس کا اختتام سیاسی چوروں پر کرنے کا مقصد صرف اور صرف عوام کو آگاہی دینا ہے کہ سیاسی چوروں کو ہم لوٹنے کے لیے خود ہی لاتے ہیں اور پاکستان کے کرپٹ ترین نظام میں اب ان کا اتنا اثرورسوخ ہو چکا کہ ان کو سزا دینے کی سوچ بھی مشکل لگتی ہے لیکن عوام پھر عوام ہیں اور سیاسی چوروں کو گریبان سے وہی پکڑ کر بھوکے ننگے چوروں کو ان کا حق دلوا سکتے ہیں۔دیکھیں کب ایسا ہوتا ہے کہ ایسا کرنا ہی اصل تبدیلی اور اصل احتساب کا نکتہ آغاز ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button