Column

روس، یوکرین جنگ ….. روشن لعل

روشن لعل

پاک ، بھارت 1965 کی جنگ کے دوران جب سرحد کے دونوں طرف جنگی ترانے لکھے جارہے تھے ، اس وقت ایک انسان دوست شاعر ساحر لدھیانوی کا قلم خاموش تھا۔ شاید اس وقت بھی ساحر لدھیانوی کا ذہن ساکت نہیں تھا بلکہ مسلسل سوچ وبچار کر رہا تھا۔شاید ساحر لدھیانوی کو علم تھا کہ اس جنگ کا فیصلہ بھی میدان جنگ میں نہیں بلکہ مذاکرات کی میز پر ہوگا ۔شاید اس لیے وہ یہ سوچ رہا تھا کہ جنگ کے بعد اس نے کیا پیغام دینا ہے۔شاید اسی لیے جب معاہدہ تاشقند ہوا تو ساحر لدھیانوی نے اپنی شہرہ آفاق نظم ” اے شریف انسانو“ لکھی جس کا حاصل مطالعہ یہ شعر ہے!

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

ساحر لدھیانوی کی یہ نظم لکھے جانے سے طویل عرصہ قبل روسی زمین پر پیدا ہونے والے لیو ٹالسٹائی جنگ کے متعلق یہ کہہ چکے تھے ”جنگوں کی منصوبہ بندی ہمیشہ حکومتیں کرتی ہیں،جنگوں کا عوامی مفاد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، جنگ ہمیشہ عوام کے لیے مہلک اور تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔ “لیو ٹالسٹائی اور ساحرلدھیانوی جیسے لوگوں کی جنگ کے متعلق بیان کی گئی کربناک حقیقتوں کو ہر زمانے میں سراہا تو بہت گیا مگر کسی حکومت یا ریاست نے اپنا نصب العین نہیں بنایا۔ جس روس میں کبھی جنگ سے نفرت کرنے والا ٹالسٹائی پیدا ہوا تھا آج وہی روس ، یوکرین پر حملہ آور ہے۔ اس وقت اگر کچھ ملک حملہ آور روس کی حمایت تو اکثریت حملہ کی مخالفت کر رہی ہے لیکن دونوں میں مشترک ان کے اپنے اپنے تزویراتی مفادات (strategic interests) ہیں۔ دوسری مشترکہ بات یہ ہے کہ ہر دوطرف موجود ممالک کسی طرح بھی جنگ کے مخالف نہیں ۔ جو ملک حملہ آور روس کے حمایتی ہیں ان پر تو حملہ روکنے کے حوالے سے کوئی سوال نہیں اٹھایا جاسکتا لیکن جو اس حملہ کی مخالفت میں پیش پیش ہیں کیاانہوں نے کوئی ایسا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ؟ طویل عرصہ تک ایک ہی ملک سوویت یونین میں ضم رہنے والے روس اور یوکرائن میں اختلافات تو ان کے علیحدہ ملکوں کے طور پر معرض وجود میں آنے کے بعد ہی شروع ہو گئے تھے مگر 2014 کے بعد یہ آہستہ آہستہ جنگ کے قریب آنا شروع ہوئے۔ اس دور کے حالات کا ذکر یہاں ممکن نہیں جس دور میں یہ دونوں ملک جنگ کی طر ف بڑھنا شروع ہوئے مگر ان گزشتہ چند مہینوں کی بات ضرور کی جاسکتی ہے جب ان کے درمیان جنگ کو یقینی سمجھا جانے لگا ۔ اس جنگ کے یقینی ہونے کی خبریں ان ملکوں کی طرف سے سامنے آئیں جو آج اس حملہ کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔

جنگ کے خاتمے کے لیے روس اور یوکرین کے نمائندوں کے درمیان بائلوروس میں مذاکرات کا پہلا دور ختم ہونے کے بعد دوسرا شروع ہو چکا ہے۔ جنگ کا اپنا فیصلہ تو یہی ہوتا ہے کہ اس میں اگرکمزور تباہ ہوتا ہے تو کچھ نہ کچھ نقصان طاقتور کا بھی ضرور ہوتا ہے مگر جنگوں کا اصل فیصلہ مذاکرات کی میز پر ہوتا ہے جس میں طاقتور ، کمزور پر اپنے فیصلے مسلط کرتا ہے۔ حملہ آور روس کے خلاف اس کے یوکرین پر حملہ کی مخالفت کرنے والے جس حد تک پابندیاں عائد کرنا چاہتے تھے، کر چکے مگر وہ ان پابندیوں کے باوجود روس کو جنگ بندی پر مجبورنہ کر سکے۔ جنگ بندی کے لیے روس اور یوکرین میں مذاکرات کے باوجود روس کی طرف سے فائربندی کی درخواست نہ ماننے سے صاف ظاہر ہے کہ وہ یوکرین سے اپنی ہر شرط منوا کر جنگ بند کرے گا۔ یہ جنگ اگر شروع نہ ہوتی تو یوکرین کے لیے یہ صورتحال پیدا ہی نہ ہوتی۔ جنگ شروع ہونے سے وہ ملک روک سکتے تھے جو روسی حملہ کے تو مخالف ہیں مگر ہر طرح سے یہ جنگ شروع ہونے کی راہ ہموار کرتے رہے ۔ واضح رہے کہ 10 نومبر 2021 کو امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ روس نے اپنے فوجی یوکرین کے بارڈر پر تعینات کرنا شروع کردیئے ہیں۔چند روز بعد امریکی میڈیا نے ہی خبر نشر کی کہ ایک لاکھ روسی فوج یوکرین کے بارڈر پر پہنچا دی گئی ہے۔ ان خبروں کے تسلسل میں یہ کہا گیا کہ روس کسی بھی وقت یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے۔ اس طرح کی خبروں کے دوران امریکی صدر بائیڈن کا یہ بیان سامنے آیا کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو اسے سخت ترین جواب دیا جائے گا۔ بائیڈن کے اس بیان کے بعد امریکی ایجنسیوں کے حوالے سے یہ خبریں سامنے آئیں کہ روس 16 فروری 2022 کو یوکرین پر حملہ کردے گا اس خبر کے غلط ہونے پر کسی طرف سے کوئی وضاحت تو سامنے نہ آسکی مگر یہ افواہ ضرور گردش کرتی رہی کہ چائنہ نے روس کو یوکرین پر 16 فروری کو حملہ کرنے سے روکا ۔ اس افواہ میں چائنہ کے اس کردار کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ چینی قیادت نہیں چاہتی تھی کہ بیجنگ اولمپک کے خاتمے سے پہلے دنیا میں کہیں بھی جنگ چھڑنے سے ان کے ملک میں جاری ایونٹ میں کوئی خلل پیدا ہو۔ گو کہ اس افواہ کی کہیں سے تصدیق نہیں ہو سکی مگر یہ بات عجیب ہے کہ 20 فروی کو بیجنگ اولمپک ختم ہوئے اور 21 فروری کو روسی صدر پیوٹن نے دو علیحدگی پسند یوکرینی علاقوں ڈونیٹسک(DONETSK) اور لوہانسک(LUHANSK ) کو آزاد ملکوں کی حیثیت سے تسلیم کرنے کا اعلان کردیااور پھر 24 فروری کو یوکرین پر باقاعدہ حملہ بھی کردیا۔

باخبر رہنے والے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ جو ممالک اس جنگ کی پیش بینی کر چکے تھے انہوں نے کسی ایک موقع پر بھی اس جنگ کا امکان ختم کرنے کی کوشش نہیں کی ، اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ کسی خاص ملک پر کسی خاص ملک کے حملہ کے مخالف تو ہو سکتے ہیں مگر جنگ کے مخالف ہر گز نہیں ہیں۔

جنگ کے لیے کوئی جواز قابل قبول نہیں ہوسکتا مگر ہر حملہ آور نے اپنے لیے کوئی نہ کوئی جواز ضرور تراشا ہوتا ہے۔ اس جنگ کے لیے روس کا ایک جواز امریکہ کے زیر سایہ فوجی اتحاد نیٹو کی توسیع بھی ہے۔روسی فوج کے یوکرین پر حملے کو روس کے پیش کردہ جواز کی روشنی میں نہیں بلکہ لیوٹالسٹائی کے اس مذکورہ قول کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے جو اس نے انیسویں صدی میںبیان کیاتھا ، اس کے ساتھ ساتھ یہ مد نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ نیٹو کو توسیع دینے والے کیا کررہے ہیں۔ اس وقت بنی نوع انسان کو کسی خاص ملک کے کسی دوسرے خاص ملک پر حملے کی مخالفت سے زیادہ جنگ کے ہرامکان کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا نیٹو کی موجودگی اور توسیع پسندی سے جنگ کے امکانات ختم ہوسکتے ہیں۔؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button