Column

سوت کی انٹی ….. قادر خان یوسف زئی

قادر خان یوسف زئی

پہلی جنگ عظیم کے بعد اقوام مغرب نے لیگ آف نیشنز کی بنیاد رکھی لیکن علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں ” کفن چوروں ‘ ‘ کی یہ جماعت جس بُری طرح ناکام ہوئی ، واقعات اس پر شاہد ہیں۔’لیگ آف نیشنز ‘ کی ناکامی کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ وہ بین الاقوامیت کے غلط تصور پر قائم تھی اور خیال تھا کہ دنیا کے مختلف قوموں کے نمائندوں کو یک جاکر کے باہمی بحث و تمحیص سے دنیا کا امن قائم رکھا جاسکتا ہے ۔ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد اقوام مغرب نے پھر اپنے ناکام تجربے کو دُہرایا اور سمجھ لیا کہ لیگ آف نیشنز کی طرح نام بدل لینے سے وہ کامیابی مل جائے گی۔ لیگ آف نیشنز کی آخری کارروائی روس کے خلاف تھی جب 11دسمبر1939کو فن لینڈ پر روسی حملے کی مذمت اور رکنیت ختم کی گئی تھی ۔ یہ آخری کارروائی ثابت ہوئی اور آخری اجلاس18اپریل1946 کو ہوا تو لیگ آف نیشنز کا خاتمہ ہوچکا تھا ۔

لیگ آف نیشنز کی نئی شکل یونائیٹڈ نیشن آرگنائزیشن ( اقوام متحدہ)کی صورت میں 24اکتوبر1945میں وجود میں آچکی تھی۔ لیگ آف نیشنز کا حلقہ چھوٹا اورتعداد 60کے قریب تھی ، 1935میں جاپان اور جرمنی بھی اس انجمن سے نکل گئے ، جمعیت اقوام کے پاس اختیارات نہیں تھے۔ اقوام متحدہ اپنے قیام سے اب تک ڈھائی سو کے قریب جنگیں اور لڑائیاں دیکھ چکا ۔ ارکان کی تعداد بھی193 اور چھ بنیادی ادارے جنرل اسمبلی، اکنامک اینڈ سوشل کونسل، سکیورٹی کونسل، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس، ٹرسٹی شپ کونسل اور سیکریٹریٹ ہیں۔ یوکرین کے خلاف جنگ روکنے کی قرارداد روس نے ویٹو کردی۔ جس پر یوکرین کے صدرولودیمیر زیلنسکی نے اقوام متحدہ کے صدر انتونیو گوتیرس سے مطالبہ کیا کہ روس کو سلامتی کونسل میں ووٹنگ کے حق سے محروم کیا جائے۔ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین میں فرانس ، روس ، برطانیہ ، چین اور امریکہ کو ویٹو پاور حاصل ہے ۔ اسرائیل کے خلاف قرار دادوں کو امریکہ ویٹو کرتا چلا آیا ، شام میں کیمیائی حملوں کی تحقیقات کی قرار داد کو 2017
میں روس نے ویٹو کیا تھا تاہم ویٹو پاور کسی مسلم ملک کے پاس نہیں۔
اقوام متحدہ و سلامتی کونسل کی موجودہ ہیت امن عالم کے خطرات کو روکنے کے لیے عالمی قوتوں کے مفادات کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔ اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ بھی مسلم اکثریتی ممالک نے فلسطین کے تنازع اور امت مسلمہ کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے قائم کی تھی ، لیکن اس کے بھی جو نتائج ہیں یہ بھی کسی سے کوئی ڈھکے چھپے نہیں ۔ ادوار ِ سابقہ کی طرح عصر حاضر کے انسان نے بھی یہی عبرت انگیز تماشا اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھا کہ وہی انسان اس عمارت کو خود اپنے ہاتھوں سے زمین پر گرا دیتا ہے جس میں اس کی آرزﺅں اور تمناﺅں کا وہ حسین مرقع خاک کے سوا کچھ نہیں رہتا ۔ جس کی ٹھیکریا ں اپنے مٹے ہوئے نقوش سے آنے والوں کو اپنی حدیث الم سے آگاہ کرنے کے لیے باقی رہ جاتی ہیں، بابل و نینوا ، مصر اور یونان ، چین اور ایران کے کھنڈرات کو چشم عبرت سے دیکھئے اور سوچئے کہ انسانوں نے اتنی محنت سے کاتے ہوئے سوت کو کس طرح بار بار خود اپنے ہی ہاتھوں سے بکھیر کر رکھ دیا ۔
اقوام ِ مغرب اور ان کی دیکھا دیکھی دیگر اقوام ِ عالم کی موجودہ سیاست کی بنیاد صرف اپنے فروعی مفادات کو پورا کرنے کے لیے ہی قائم ہے۔ جنگ اوّل نے بالعموم اور جنگ دوم کے اسباب و علل اور نتائج و عواقب نے بالخصوص اس حقیقت کو بے نقاب کردیا کہ جسے تریاق سمجھا جاتا تھا وہ انسانیت کے لیے زہر قاتل ہے ۔ چنانچہ اب دانایان ِ مغرب اپنی اس سوت کی انٹی کو خود اپنے ہاتھوں سے بکھیرنے کی فکر میں ہیں۔ انانیت اور تکبرنے نفرت کو بڑھاوا دیا اور جنگ کو نہ صرف ضروری بلکہ مقدس بھی ٹھہرایا گیا۔ آج دنیا کا یہ تماشا ہمارے سامنے ہے کہ ترکی جس نے اپنے دفاع کے لیے روس سے ائیر ڈیفنس سسٹم خریدا جو امریکہ کے لیے قابل قبول نہ تھا اور اس نے پابندیاں عائد کی تو بھارت کو یہی سسٹم لینے پر خاموشی کو ترجیح دی۔ نیٹو رکن ترکی نے امریکہ پر نہیں بلکہ اس دفاعی نظام کو ضروری خیال کیا جو ان کے نزدیک بہتر تھا ، روس نے ترکی و بھارت کو ایس 400ائیر ڈیفنس میزائل سسٹم دیا ۔ روس اور یوکرین جنگ کے بعد ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے بحیرہ اسود کے ساحلی اور غیر ساحلی تمام ممالک کے لیے ترک آبناﺅں سے جنگی بحری جہازوں کی آمدو رفت کے لیے بند کردی کہ1936 میں طے کردہ معاہدہ مونتریوکی شرائط نافذ العمل ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر ترکی اس جنگ میں شریک نہیں تو جنگ میں برسر پیکار ممالک کے بحری جہازوں کی آمدو رفت کو معطل کرنے کے اختیارات کا مالک ہے۔ اگر جنگی بحری جہاز اپنے بحیرہ اسود کے اڈے پر واپس آرہا ہے تو اس کے گزرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی ہم معاہدہ مونتریو کی شرائط پر عمل درآمد کررہے ہیں۔
ترکی نے اپنے مفادات کو مقدم رکھا ، چین نے سلامتی کونسل میں قرار داد پر محتاط رویہ اختیار کیا اور ووٹ کے عمل میں حصہ نہ لیا ۔ امریکہ نے اپنے فوجی بھیجنے سے انکار کیا، روس کی انسانی حقوق کونسل کی رکنیت کو ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ مغربی اتحادنے یوکرین کو ہتھیاروں سے لیس کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ یوکرین صدر نے مغربی اتحاد کی بے وفائی پرآنسو بہائے ۔ ہر ملک مفادات کو مقدم رکھتا اور وہ کرتا ہے جو ایسے بہتر لگے ۔ پاکستان نے غیر جانب دار رہنے کا فیصلہ اور اس کا اعلان بھی کیا لیکن یورپی ممالک کا یہ کہنا کہ وہ اپنی پوزیشن واضح کرے، تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کو کسی عالمی قوت کی ایما پر تنازع میں الجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یوکرین کو اپنے یورپی ممالک سے گلہ جاری رکھنا چاہیے جنہوں نے اسے ایٹمی طاقت کو رول بیک کرنے،نیٹو اور یورپی یونین میں شامل کرنے کا لالی پاپ دے کر روس پر دباﺅ بڑھایا اور اس کے ارد گرد فوجیں تعینات کیں، جس کی وجہ سے منسک معاہدہ ختم ہوا۔ اقوام متحدہ کے کردار پر بات کریں تو وہ صرف اس کے لیے ہی نہیں بلکہ فلسطین ، مقبوضہ کشمیر سمیت کئی عالمی دیرینہ تنازعات کو بھی حل کرائے۔ آج یورپ نے اپنی سرحدوں کو کھول دیں ، اچھا کیا ، کاش شام ،عراق اور فلسطین کے پناہ گزینوں کا بھی خیال کیا ہوتا۔ یورپ ، برطانیہ اور امریکہ کو یہ سوچنا ہوگا کہ ان کا رویہ موجودہ اقوام متحدہ کو لیگ آف نیشنز کی طرح خطرے میں تو نہیں ڈال رہا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button