Column

آپ سیٹی بجایا کریں …. احمد نوید

احمد نوید
اپنے سرکادرد ٹھیک نہ ہونے پر میں بہت پریشان تھا۔ ڈاکٹراحمد نے مجھے مشور ہ دیا کہ ایک سیٹی لیں جس میں کنکر یا کسی چھوٹے بیر کی گٹھلی ہوتی ہے ۔ وہ سیٹی آپ بجایا کریں ۔ واک کرتے ہوئے ، بازاروں میں گزرتے ہوئے ، حتیٰ کہ سیٹی بجا کر لوگوں کو تنگ کیا کریں ۔ ہسپتالوں ، شفاخانوں میں بیٹھے عام ڈاکٹرز اس طرح کے مشورے نہیں دیتے ۔ کیونکہ اس سے قبل بھی جب مجھے مختلف نوعیت کے امراض کا سامنا رہا ہے ، تو ڈاکٹر ز نے ہمیشہ یا تو ادویات کی لمبی چوڑی فہرست تھما ئی یا مہنگے مہنگے ٹیسٹ لکھ دئیے۔
میں ڈاکٹر احمد کی شرارت سمجھ گیا تھا ۔ وہ مجھ جیسے اپنی عمر میں دفن لوگوں کو روز مرہ کی تکالیف دہ سوچوں سے باہر نکالنا چاہتے تھے۔ خاص طورپرعمر کے اُس حصے میں جب بالوں میں چاندی اُتر آئے۔ جب ہم خواہ مخواہ کے تہذیب یافتہ ہو جائیں تو کبھی کبھارفضول حرکتیں اور بونگیاں مارنا بھی ضروری ہوتا ہے ورنہ آپ مارے جائیں گے۔
میں ڈاکٹر احمد کی سازش سمجھ چکا تھا ، وہ چاہتے تھے کہ میں یہ حقیقت جاننے کی کوشش کروں کہ صحت ہمیشہ دوائیوں سے نہیں ملتی بلکہ بعض اوقات صحت کے لیے ذہنی سکون بھی ضروری ہے ۔ میری اور مجھ سے دس پندرہ سال بڑی عمر کی جنریشن وہ جنریشن ہے جس نے زندگی میں بہت تبدیلیاں دیکھی ہیں ۔ ہمارے بچے جو شاید سوئی گیس کا چولہا جلا کر بھی انڈا فرائی نہیں کر سکتے۔ اُنہیں نہیں معلوم پھوکنی کِسے کہتے ہیں ۔ اُنہیں نہیں پتہ کہ چِلم اور حقہ کیا سنگت رکھتے تھے۔ ہمارے بچوں نے گاﺅں کے تندور نہیں دیکھے ،جہاں گاﺅں کی تمام عورتیں اکٹھی ہو کر روٹیاں لگاتی تھیں ۔ ہمارے بچے نہیں جانتے کہ گاﺅں کی گلی سے گزرتے ہوئے میاں جی کی کھنگ محلے کی خواتین کے لیے کتنی رعب رکھتی تھی۔
ڈاکٹر احمد کا اشارہ یہی تھا کہ میں سیٹی بجاتا ہوا اپنے بچپن کے بے مثال دنوں میں لوٹ جاﺅں۔
یقین جانئے کہ ہم اپنے بچوں سے کہیں زیادہ خوش نصیب ہیں ۔ اگرچہ ہم نے اُن سے زیادہ غربت دیکھی ہے ۔ وہ آسائش اور سہولیات جو آج اُنہیں میسر ہیں ہمیں دور دورتک دکھائی نہیں دیتی تھیں۔ لیکن جو بچپن ہم نے دیکھا ہے اُس کا تصور بھی اب محال ہے ۔ وہ دن بھی عجیب تھے ۔ دوست پیسے ملا کر وی سی آر کرائے پر لاتے اور رات بھر پریم روگ، بے تاب اور دیش پریمی جیسی فلمیں دیکھتے اور صبح ہوتے ہی اس ڈر سے جان نکلی جاتی کہ وی سی آر لوٹانے میں ذرا سی بھی دیر ہو گئی تو دکاندار اور پیسے مانگے گا۔
واہ ڈاکٹر احمد صاحب !آپ نے بڑا ظلم کیا ۔ کیسا زمانہ یاد کروا دیا!
وہ زمانہ جب ہم ہاتھ سے گیڑنے والے نلکے سے پانی پیا کرتے تھے۔ نیسلے کا تو شاید نام تک نہیں تھا۔ یہ ہاتھ والا نلکا سڑک کنارے اکثر دیہات کو جانے والی سڑکوں پر کسی درخت کی چھاﺅں تلے نصب ہوتا تھا۔ مسافر بسوں ، تانگوں ، ٹرالیوںسے اُترتے اور بے دھڑک منہ لگا کر پانی پیتے۔
اُس زمانے میں یہ خبر شاید ہی کبھی سننے کو ملتی ہو کہ فلاں رشتے دار ہارٹ اٹیک سے مر گیا، یا کوئی فالج کے بعد بستر پر پڑا ہے۔ آج نوجوانوں کو ہارٹ اٹیک ہو جاتے ہیں ۔ چھوٹے اور کم عمر بچوں بچیوں میں دل کے امراض اور مختلف نوعیت کی بیماریاں گھر کر چکی ہیں۔
قصور وار کون ہے ؟وقت ، زمانہ یا ہم خود!
ماڈرن ازم یا جدیدیت ! ہماری خوش مزاجی ، گرم جوشی ، ہمارا کلچر، ہماری روایات ، ہمارے تہوار اور سب سے بڑھ کر ہماری سادگی سب کچھ بدل گیا۔ ہم مہنگے پیسوں میں بھی سب سٹینڈرڈ مصنوعات یعنی غیر معیاری چیزیں خریدنے کو تیار ہیں ، وجہ صرف یہ ہے کہ اُن پر کسی مشہور برانڈ کا نام لکھا ہوتا ہے ۔ ہم اپنے بچوں کو مٹی میں (جو قوت مدافعت بڑھاتی ہے ) کھیلنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ۔ ہمارے بچے اب موبائلز پر یا کمپیوٹر ز پر گیمز کھیلتے ہیں لیکن سائیکل نہیں چلاتے ۔ کتنی مصنوعی زندگیاں گزار رہے ہیں آج ہم!
ملبوسات مہنگے اور برانڈز کے ہونے چاہیے ۔ مسالے ، مکھن ، گھی جتنے بڑے برانڈ کا ہوگا ، اتنی ہی ہمارے دل کو تسلی ہوگی۔آج ہمیں خوش ہونے کے لیے بھی جدید رجحانات اور فیشن کی پیروی کرنا پڑ رہی ہے ۔ معمولی لباس، معمولی خوشیاں ، حتیٰ کہ ہم تو اپنے بچوں سے اپنی سادہ سی مادری زبان بھی بولنے سے کترانے لگے ہیں۔ میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جو بیس سال پہلے ایک چھوٹے اور معمولی سے کھانے کے ڈھابے پر سالن کے بڑ ے بڑے پتیلے دھویا کرتا تھا، آج وہ ایک ریسٹورنٹ چلا رہا ہے ۔ مگر سادگی ، طرز زندگی اور احترام آدمیت نہ بدلا۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے ۔
ویکھ نجومی ہتھ دیاں لیکاں
بختاں والی گل تے دس
ہن تے ساہ وی مُکدے جاندے
جیون دا کوئی وَل تے دس
ڈاکٹر احمد نے مجھے سا دہ زندگی گزارنے کا طرےقہ دیا تھا کہ میاں کن جھمیلوں میں پڑے ہوئے ہو۔ مصنوعی زندگی کی اپنے اردگرد کھڑی دیواروں کو توڑو۔ زندگی کو ڈیزائن کر کے گزارنے کی حماقت چھوڑو۔ سائنس اور ٹیکنالوجی جب نہیں تھی ، زندگی تب بھی رواں دواں تھی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی مزید ترقی کر جائے گی زندگی تب بھی رُکنے والی نہیں۔
میں سمجھ گیا تھا اور ڈاکٹر احمد نے مجھے لائف ٹائم سبق دیا تھا کہ مجھ سمیت سب مصنوعی زندگی کے متاثرین اور بیماروں کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اپنا موازنہ کبھی دوسروں سے مت کریں ، جو ہے جتنا ہے اُس میں خوشی محسوس کریں ، امیر وہ نہیں جس کے پاس دولت زیادہ ہے بلکہ وہ ہے جس کے پاس خوشیاں زیادہ ہیں۔کسی کی مدد کریں تو بھول جائیں ، کم استعمال کریں دوسروں کو زیادہ بانٹ دیں۔ چمکتے اور زرق برق لباس میں کوئی شخص اندر سے بہت بد صورت بھی ہو سکتا ہے ۔ دینے والا کبھی غریب نہیں ہو سکتا اور لینے والا کبھی امیر نہیں۔ جو کچھ ہے اُس پر مطمئن ہونا سیکھیں ۔ جو نہیں ملا اُس پر کُڑنے سے اجتناب کریں ۔
شکر گزار رہیں اور بچوں کی طرح سیٹی بجایا کریں۔ کیونکہ خوشی کی کرنیں باہر سے نہیں پھوٹتیں بلکہ یہ انسان کے اندر سے پھولوں کی طرح کِھلتی ہیں ،بچوں کی طرح سیٹی بجا کر!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button