Column

مراد سعید نمبر ون کیوں؟ …… روشن لعل

روشن لعل

یہ کالم اگرچہ وزیر مواصلات مراد سعید سے متعلق ہے مگر اِس میں وہ باتیں ہر گز نہیں دہرائی جائیں گی جو اِن کے بارے میں میڈیا پر کی جارہی ہیں۔مراد سعید کی کارکردگی سے متعلق وہ اہم سوال اٹھائے جائیں گے جنہیں نہ جانے کیوں یہاں بُری طرح نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اِن سوالوں کا تعلق کسی کی نجی زندگی سے نہیں بلکہ عوام کی آگاہی سے ہے۔یہ سوال اصل میں ایک ایسا تعلق دریافت کرنے کی کوشش ہیں جو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور موجودہ وفاقی وزیر مواصلات میں زیادہ ہے۔ یہ سوال مراد سعید اور شہباز شریف کے درمیان جس تعلق کی نشاندہی کرتے ہیں اِس کا ذکر بہت ضروری ہے مگر اِس سے پہلے یہاں اِس جواز کے درست یا غلط ہونے پر بات کی جائے گی جس کے تحت مراد سعید کو نمبر ون وزیر قرار دیا گیا ہے۔

مراد سعید کو کارکردگی کے حوالے سے عمران خان کابینہ کا نمبر ون وزیر اِس جواز کے تحت قرار دیا گیا کہ مبینہ طور پر انہوں نے وزیر اعظم کے سامنے اپنی وزارت کے لیے جو ہدف مقرر کیے تھے انہیں کما حقہ تو پورا نہ کیا جاسکا مگر پھر بھی  سو میں سے 95.20  فیصد تک اہداف حاصل کر لیے گئے۔ مراد سعید کی وزارت کی یہ کارکردگی مبینہ طور پر کیونکہ دیگر تمام وزارتوں سے بہتر رہی اِس لیے اِنہیں نمبر ون وزیر قرار دیا گیا۔ بہت سے مبصروں نے مراد سعید کو نمبر ون وزیر قرار دیئے جانے پراپنے اُلٹے سیدھے تبصروں کے ساتھ اِس طرح کے سوال بھی اٹھائے کہ آخر عمران خان کو کیا ضرورت پیش آئی کہ انہوں اپنے وزیروں کو ایسے پرکھا جیسے سکولوں میں چھوٹے چھوٹے بچوں کے کام کی جانچ کی جاتی ہے۔ آخر اِس طرح کی جانچ کا ماڈل اُنہوں نے کہاں سے اخذ کیا او ر پھر وہ کون لوگ تھے جو اِتنے ماہر ہیں کہ وزیروں تک کی کارکردگی کو پرکھ سکیں۔ عمران خان کے ترجمانوں کی طرف سے اِس طرح کے سوالوں کی تسلی بخش وضاحت ابھی تک سامنے نہیں آسکی۔ اِس حوالے سے اپنے طور پر جو کچھ جاننے کی کوشش کی اِس سے یہ پتہ چلا ہے کہ عمران خان کی کابینہ اراکین نے 22 ستمبر 2021کو منعقدہ ایک تقریب میں رسمی معاہدے کے تحت اپنے لیے کچھ ایسے اہداف مقرر کیے جو انہوں نے 2021 سے 2023 کے دوران حاصل کرنے تھے۔ اب یہ بات حیران کن ہے کہ جو اہداف آئندہ دو سال کے عرصہ میں پورے کیے جانے تھے اِن کے نتیجے کا اعلان صر ف چار ماہ بعد ہی کیوں کر دیا گیا۔ ایک اطلاع کے مطابق مراد سعید کی وزارت کو تو 95.20 فیصد اہداف حاصل کرنے پر نمبر ون قرار دیا گیا مگر جو وزارتیں پہلے دس نمبر وں میں جگہ نہیں بنا سکیں اِن کی اکثریت کی کارکردگی بھی 80 فیصد سے زیادہ رہی۔ اب یہ بات صرف حیران کن ہی نہیں بلکہ تشویشناک بھی ہے کہ جس حکومت کے لیے اِس کے وزیروں کی اوسط کارکردگی 80 فیصد سے زیادہ تسلی بخش ہے اِس حکومت کی اپنی مجموعی کارکردگی سے عوام شدید غیر مطمئن ہیں۔ اِن وزارتوں کی ذمہ داری کسی نہ کسی شعبے یا ادارے کو چلانا یا کنٹرول کرنا ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بین الاقوامی ریٹنگ میں ہمارے اداروں کی کارکردگی شرمناک حد تک نچلے نمبروں پر آتی ہے۔ اب نہ جانے یہ کیا سائنس ہے کہ جو وزارتیں 80 فیصد سے بھی زیادہ اپنے اہداف حاصل کر رہی ہیں اِن کے ماتحت ادارے بین الاقوامی ریٹنگ میں نچلے ترین نمبروں پر نظر آتے ہیں۔
خیر ہمیں انٹرنیشنل ریٹنگ سے کچھ لینا دینا نہیں،ہمارا موضوع تو یہ ہے کہ مراد سعید کی وزارت کوکن زریں اصولوں کے تحت نمبر ون قراردیا گہا۔ مراد سعید کی کارکردگی کو نمبر ون قرار دینے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بحیثیت وزیر دیگر کئی کارہائے نمایاں سرانجام دینے کے ساتھ وزارت مواصلات کے ریونیو میں 108 ارب روپے کا اضافہ کیا اور پھر اِن کی وزارت نے جو سڑکیں تعمیر کیں اِن کی لاگت کو صرف 17کروڑ روپے فی کلومیٹر تک محدود رہنے دیا جبکہ مسلم لیگ (ن)کے دور میں جو سڑکیں بنائی گئیں اُن کی لاگت 41 کروڑ روپے فی کلومیٹر تھی۔ وزارت مواصلات کے ریونیو میں اضافہ کو تو یوں آسانی سے  سمجھا جاسکتا ہے کہ ملک میں ہوش ربا مہنگائی کے ساتھ جب ٹال ٹیکس کے ریٹ میں بھی بے پناہ اضافہ کیا گیا تو پھر اِسی تناسب سے ریونیو میں بھی اضافہ گیا۔ جہاں تک سڑکوں کی فی کلومیٹر لاگت میں 24کروڑ کا فرق ہے تو یہ بات آسانی سے ہضم ہونے والی نہیں ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ سڑکوں سمیت کسی بھی تعمیراتی کام (Work to be done)کا تخمینہ حکومت کے منظور شدہ شیڈول آف ریٹ کے مطابق لگایا جاتا ہے جبکہ ٹھیکیداروں کو ادائیگی تکمیل شدہ کام (Work done) کی پیمائش کے مطابق کی جاتی ہے۔ اِس کام میں سیاستدانوں یا حکمرانوں کا کردار بہت کم ہوتا ہے، کام کا تخمینہ لگانے سے کام کی تکمیل کے بعد ادائیگیوں تک سینکڑوں سرکاری اہلکار تمام عمل میں شریک ہوتے ہیں۔ جب اِتنے لوگ کسی کام میں شریک ہوں تو فی کلومیٹر 24 کروڑ کا فرق نکال کر صرف اترانا کافی نہیں بلکہ یہ بتانابھی ضروری ہو جاتا ہے کہ خرابی کہا ں ہے۔ اِس خرابی کو صرف مسلم لیگ (ن) کے کھاتے میں ڈالنا بھی کافی نہیں کیونکہ فی کلومیٹر 24کروڑ کے فرق سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نہ شیڈول آف ریٹ درست ہے اور نہ ہی وہ سینکڑوں لوگ قابل اعتماد ہیں جو تخمینہ لگانے سے ادائیگیوں تک کا کام کر رہے ہیں۔
اب جس کام کو جواز بنا کر مراد سعید کو نمبر ون وزیر قرار دیا گیا ہے اِس طرح کے کام کا دعویٰ تو شہباز شریف نے بھی کوئی تفصیل بتائے بغیر یہ کہتے ہوئے کیا تھا کہ اُنہوں نے مختلف تعمیراتی کام تخمینے سے کم لاگت میں مکمل کروا کر قومی خزانے کو 682 بلین روپے کا فائدہ پہنچایا ہے۔ مراد سعید اور شہباز شریف میں یہی تعلق ہے کہ جس کارکردگی پر مراد سعید کو نمبر ون وزیر قرار دیا گیا ہے اِس قسم کی کارکردگی کا دعویٰ کر کے شہباز شریف اپنے سینے پر نمبر ون وزیر اعلیٰ ہونے کا تمغہ سجاتے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button