Column

انسانی غلامی کی بدترین شکل ….. ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

جن مسائل کو ہماری قومی و مذہبی سیاست ،میڈیا ، مسجد مدرسہ اور تعلیمی اداروں میں موضوع بحث ہونا چاہیے ان پر ہم بات کرتے ہوئے شرماتے ہیں یا ہماری ترجیحات میں یہ موضوع شامل ہی نہیں ۔ ویسے ایک سوال سیاسی و مذہبی اشرافیہ سے پوچھا جانا چاہیے کہ اگر عوام نہ ہو ں تو آپ لوگوں کی اجارہ داری اور حکومت کس پر قائم ہو گی؟ کیا اس عوام کے ادنیٰ حقوق کی فراہمی کے لیے بھی آپ کے ذہنوں میں کوئی منصوبہ ہے؟ مسائل کے بڑھتے ہوئے انبار سے تو لگتا ہے کہ ایسی سوچنا بھی یہ لوگ گناہ سمجھتے ہیں۔آئے روز سڑکیں اور چوک بلاک کرنے والے عوام کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ سیاست کے نام پر فساد فی لارض پھیلایا جارہا ہے۔ ایسے حالات میں ان موضوعات پر کون سوچے گا جن پر میں اکثر و بیشتر لکھتا رہتا ہوں، تکریم آدمیت دنیا بھر کے منشور کا پہلا تقاضا قرار پاتا ہے جبکہ اسلامی تعلیمات کی تو بنیاد ہی احترام انسانیت پر ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں صبح و شام اسی انسان کے حقوق پاﺅں تلے روندھے جاتے اور جگہ جگہ تذلیل کے مظاہرے نظر آتے ہیں، یہاں جس کے پاس زرا سا بھی اختیار ہے وہ کسی نہ کسی روپ میں چھوٹا فرعون بنا نظر آتا ہے۔

اس ملک کی اکثریتی آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہی ہے اور جو غربت کی لکیر سے اوپر ہے اس کا حال بھی کچھ اچھا نہیں، انسان اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے اور کنبے کی راحتوں کے لئے ”غلامی“ کرنے پر مجبور ہو چکا ہے جس کے مظاہرے ہمیں گھروں ،بھٹوں اور ورکشاپوں پر کام کرتے ہوئے انسان نماﺅں کو دیکھنے سے ملتے ہیں ۔ شادی بیاہ کی تقریب ہو، ہوٹلنگ ہویاپھر شاپنگ، مال دار فیملیوں کے ساتھ ان کے گھریلو ملازم چھوٹی عمر کے لڑکے اور لڑکیاں ضرور ہوتے ہیں ان کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ” میم اینڈ صاحب“کو بچوں کے اٹھانے کی مشقت نہ اٹھانی پڑے اور وہ اطمینان سے رومانوی ماحول میں کھانا کھا سکیں ، شاپنگ کر سکیں اور تقریبات میں گپ شپ کر سکیں، یہ ”غلام“ تھوڑا فاصلہ رکھ کر میم اور صاحب کو کھانا کھاتے اور شاپنگ کرتے حسرت بھری نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں۔ ان کے نصیب میں ہوٹلوں اورگھروں کا بچاکچھا ہوا کھانا اور اُترن ہی ہوتی ہے۔اگر توہین انسانیت کی کوئی بدترین شکل ہو سکتی ہے تو بچہ غلامی کی شکل میں ہمارے معاشرے کے کھاتے پیتے متمول گھروں اور درمیانے طبقوں کے گھروں میں بچے اور بچیوں کوکام کرتے دیکھیں۔ ان بچوں کی زندگی کی خوشی و غمی، سکھ اور آرام ان کے ”مالکان“ کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے ”بچہ غلامی“ کی وہ شکل تو اور بھی زیادہ ہولناک ہے جس میں بچہ یا بچی مالکان کے گھر میں ہی سکونت رکھتے ہوں، ایسے بچے چوبیس گھنٹے کے غلام ہوتے ہیں جن کی انسانی حیثیت کا تعین بھی ان کے مالکان کا مرہون منت ہوتا ہے۔ بچہ غلاموں کی نہ صبح راحت لے کر آتی ہے اور نہ رات خوش کن خواب ان کی آنکھوں میں اترتے ہیں، عجیب بے بسی حسرت کی تصویر بنے یہ بچہ غلام اپنی ساری عمر ایک ہی گھر میں گزار دیتے ہیں جن مالکان نے گھریلو ملازمین کو رہائش کی صورت میں سرونٹ کوارٹر دیا ہوتا ہے ان گھروں میں سارا خاندان ان کا ملازم ہوتا ہے۔

جس طرح ہم دیگر برائیوں میں خودکفیل ہیں ”بچہ غلامی“ میں بھی ہم کسی سے کم نہیں ۔ گھریلو غلامی کے خلاف بات کرنے والوں کے اپنے گھروں میں”بچے غلامی“ کی شکل میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ حقوق نام کی کوئی شے سے ان کا واسطہ نہیں ہوتا۔!بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں میں کیا اتنی اخلا قی جرا ¿ت ہے کہ وہ ہر گھر بچہ غلامی فری کی کمپین چلائیں۔میں خود بچوں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتا ہوں اس لیے سب سے پہلے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں اس گھر سے کچھ نہیں کھاوں پیوں گا جس گھر میں”بچہ“ غلام ہو گا۔

پاکستان حاصل کرنے کا ایک بڑا اور واضع مقصد دوسروں کی غلامی سے نجات اور معاشی استحکام تھا۔ ایک ایسا ملک جس میں بسنے والا کوئی بھی فرد بھوکا اور بے گھر نہ رہے ساری جد و جہد اسی آرزو کی تکمیل کے لیے تھی،، آج سات دہائیوں بعد بھی نہ یہاں سے بھوک ختم ہو سکی اور نہ ہی اپنے گھر بار چھوڑ کر آنے والوں کی اکثریت کو گھر نصیب ہوئے۔جبکہ غلامی کی بدترین شکلیں معاشرے میں موجود ہیں ، گھریلو بچہ غلامی، فیکٹریوں میں غلامی ،اینٹوں کے بھٹوں پر بدترین غلامی اور اس طرح کی اطلاعات بھی ہیں کہ لاہور کی بڑی تجارتی مارکیٹوں میں ”لیزنگ غلامی“ بھی موجود ہے۔عالمی سطح پر پاکستان غلامی کی بدترین شکل والے ممالک کی فہرست میں 167 نمبر پر ہے اور 20 لاکھ سے زائد لوگ جبری غلای کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔پنجاب اور سندھ میں سب سے زیادہ غلام اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرتے ہیں۔ توہین انساینت کی اس بد ترین صورت حال پر ملک کی تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں خاموش رہ کر ” اشرافی جمہور“ کی خدمت کر رہی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ انسانی تاریخ میں وہ دن سب سے زیادہ منحوس تھا جب کسی غلام نے اپنے آقا کو اتنا کما کر لا دیا جو اس سے زیادہ تھا جتنا اس کا آقا اس کی مزدوری دیتا تھا۔اس عمل سے ایک انسان دوسرے انسان کے لیے آمدنی کا ذریعہ بن گیا،یہیں سے نظام سر مایہ داری کی ابتدا ہوئی۔وہ صنعتی دور نہیں تھاکہ غلاموں کے مالک ان سے کچھ چیزیں بنوا کر اپنے لیے آمدنی حاصل کرتے،وہ زرعی معیشت کا دور تھا اس لیے وہ اپنے غلاموں سے زمین ہی کاشت کرا سکتے تھے۔ اس مقصد کے لیے طاقت ور لوگوں نے زمین پر لکیریں کھینچ کر ”میری زمین اور تیری زمین“ کا انسانیت کش تصور وضع کیا اس تصور سے ”خدا کی زمین“ خدا کے بندوں کے لیے عام نہ رہی،انسانوں کی ملکیت بن گئی۔ اصولی طور پرزمین پر انفرادی ملکیت نہیں ہو نی چاہیے اسے مملکت کی تحویل میں رہنا چاہیے تا کہ وہ اس کا انتظام اس طریقے سے کرے جس سے تمام افراد معاشرہ کو سامان زیست مہیا ہوتا رہے لیکن یہاںریاست بھی اپنی وہ ذمہ داری پوری نہیں کررہی جوبطور ریاست اس کی ذمہ داری ہے اس لیے کمزور پاکستانی شہری یتیموں کی صورت زندگی گزار رہے ہیں جن کا کوئی پرسان حال ہی نہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ گھریلو ملازمین سے متعلق قانون سازی میں ایک بڑی رکاوٹ ملک میں جاگیردارانہ نظام بھی ہے جس میں دو وقت کھانے کے عوض پورے خاندان سے کام لیا جاتا ہے۔پاکستان میں گھریلو ملازمین کے مسائل میں طویل اوقاتِ کار، بدسلوکی، اجرت کی عدم ادائیگی اور کم عمر کے بچوں سے زبردستی کام کروانا جیسے مسائل ہیں۔ طویل اوقات کار، ملازمت کا عدم تحفظ، کم عمر بچوں سے جبراً مشقت لینا اور ان کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات، جو عام طور پر تو رپورٹ نہیں ہوتے، شامل ہیں۔ سول سوسائٹی کا حکومت سے مطالبہ بجا ہے کہ وہ گھریلو ملازمین کو بھی انسان جانتے ہوئے ان کے لیے قانون سازی کرے تا کہ ان کے حقوق کا بھی تحفظ ہو سکے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button