Column

پاکستان کا نیا سفارتی محاذ اور چین کا کردار

پاکستان کا نیا سفارتی محاذ اور چین کا کردار !
کالم نگار : امجد آفتاب
مستقل عنوان: عام آدمی
اسلامی جمہوریہ پاکستان پوری دنیا میں ایک بڑا سفارتی نیٹ ورک برقرار رکھتا ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دوسرا سب سے بڑا مسلم اکثریتی ملک ہے اور جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کرنے والا صرف مسلمان اکثریتی ملک ہے۔
پاکستان کی معیشت یورپی یونین کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات اور متعدد ایشیائی ممالک کے ساتھ معاشی اتحاد اور معاہدوں کے ساتھ دنیا میں مربوط ہے۔
پاکستان ایک جغرافیائی سیاسی لحاظ سے اہم مقام رکھتا ہے ، افغانستان ، چین ، بھارت اور ایران اس کے ہمسائے میں ہیں ، دنیا کی سمندری تیل کی سپلائی لائنوں کی راہداری پر ہے ، گیس اور تیل سے مالا مال مشرق وسطی اور دنیا کے آبادی کے مراکز کے درمیان واقع ہے. پاکستان ہمسایہ عوامی جمہوریہ چین اور عرب ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہی۔ پاکستان اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی) کا ایک رکن ہے۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی اور جنگی محاذ پر بھارت کو ملنے والی شرمناک ہار نے جہاں دنیا کو حیران کر دیا وہاں مودی کی نیندیں بھی اُڑی ہوئی ہیں، اس لیے جنگی محاذ پر اچھا بھلا سبق ملنے کے بعد اب بھارت نے دنیا بھر میں پراپیگنڈا کرنا شروع کر دیا ہے ۔ پاکستان نے بھی بھارتی پراپیگنڈے اور اس کی مذموم سازشوں کو بے نقاب کرنے کیلئے عالمی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کیلئے وزیراعظم شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جسے سفارتی محاذ پر اہم ٹاسک سونپا گیا ہے۔ ارکان میں چار سابق وزرائے خارجہ اور ماہر سفارت کار شامل ہیں جو بھارتی جارحیت سے پیدا شدہ خطرناک صورتحال اور عالمی امن کیلئے سنگین خطرات کے بارے میں آگاہی دینے کیلئے آئندہ ہفتے روانہ ہوں گے۔ وفد سندھ طاس معاہدے پر پاکستان کے موقف اور امن کے لیے کوششوں کو بھی اجاگر کرے گا۔ وفد اقوام متحدہ بھی جائے گا۔ جنگی محاذ پر عبرت ناک شکست اور آپریشن سندور کی ناکامی کی کلنک مودی سرکار پر ایک بد نما داغ بن گئی ہے جس کو مٹانے کی ناکام کوشش میں اس نے سفارتی مہم جوئی کا آغاز کر دیا ہے اور 70ملکوں کے اتاشیوں کے سامنے اپنی صفائیاں پیش کر دی ہے جس کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے پاکستان کے لیے وار ڈپلومیسی ناگزیر ہو گئی ہے۔ پہلگام واقعہ پر بھارتی میڈیا نے اتنا جھوٹ بولا کہ اب ان کی بات کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ بھارت کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا جبکہ پاکستان نے تحمل اور بردباری دکھائی جسے دنیا نے سراہا۔ بھارت پاکستان کو خطے میں تنہا کرتے کرتے خود تنہا ہو گیا ہے اور پاکستان نے اسے مزید تنہائی میں دھکیلنے کے لیے موثر سفارتی حکمت عملی اپنائی ہے۔ پاکستان اور بھارت کی حالیہ کشیدگی کے دوران چین، ترکیہ اور آذربائیجان پاکستان کے لیے بھرپور سفارتی حمایت کا اظہار کر چکے ہیں تاہم اس کشیدگی میں بھارت کا ساتھ دینے والا واحد ملک اسرائیل تھا۔ بلاول بھٹو اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھانے کے لیے پر عزم ہیں۔ جنگ میں شکست کا شکار مودی سرکار کو اس محاذ پر بھی ناکامی ہوگی۔
ہمارے ہمسایے اور پاکستان کے دیرینہ ساتھی چین نے پاکستان کی ترقی ، معیشت اور سلامتی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے ، تعلقات 1950ء میں اس وقت شروع ہوئے جب پاکستان جمہوریہ چین کے ساتھ تائیوان کے ساتھ سرکاری سفارتی تعلقات میں داخل ہونے والے پہلے ممالک میں شامل تھا۔ اور سرزمین چین پر عوامی جمہوریہ چین (PRC)حکومت کو تسلیم کریں۔ تب سے ، دونوں ممالک نے انتہائی قریبی اور معاون کی دیکھ بھال پر کافی اہمیت دی ہے ۔
پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کو دنیا بھر میں ایک مثالی سٹریٹجک شراکت داری کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اسی تناظر میں نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا حالیہ دورہ چین نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس دورے کی خاص بات یہ ہے کہ پاک بھارت حالیہ کشیدگی کے تناظر میں چینی قیادت کے ساتھ مشاورت ہے۔ اس وقت جب جنوبی ایشیا ایک بار پھر تنائو کا شکار ہے، چین کا پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونا ایک مضبوط پیغام دیتا ہے۔ چینی وزیر خارجہ وانگ ای کی دعوت پر اسحاق ڈار کا دورہ ایک بار پھر اس دوستی کو عملی شکل دے رہا ہے، جس میں باہمی اعتماد، تعاون اور خطے میں استحکام کے مشترکہ مقاصد شامل ہیں۔ بیجنگ میں ہونے والے تین ملکی اجلاس میں افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کی شمولیت بھی نہایت اہم ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے بعد خطے میں ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی تھی جس کے اثرات پاکستان اور چین دونوں پر مرتب ہوئے۔ اس اجلاس کے ذریعے تینوں ممالک کے درمیان اعتماد کی بحالی، اقتصادی راہداریوں کی بحالی اور مشترکہ سکیورٹی اقدامات پر اتفاق رائے ممکن ہو سکتا ہے۔ پاک چین تعلقات میں حالیہ سرگرمیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ دونوں ممالک صرف سٹریجٹک شراکت دار ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے حقیقی سفارتی حمایتی بھی ہیں۔ آخر میں، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اسحاق ڈار کا دورہ چین اور بلاول بھٹو زرداری کی عالمی سطح پر سفارتی سرگرمیاں پاکستان کے اس پیغام کو واضح کرتی ہیں کہ پاکستان خطے میں امن، ترقی اور باہمی احترام پر مبنی تعلقات کا حامی ہے۔ عالمی برادری کو بھی اس مثبت کردار کو سراہتے ہوئے پاکستان کے ساتھ تعاون کو فروغ دینا چاہئے تاکہ جنوبی ایشیا میں مستقل بنیادوں پر امن کا قیام ممکن ہو سکے۔

جواب دیں

Back to top button