
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے انکم ٹیکس (ترمیمی) بل 2024 کو منظوری کے لیے پیش کرنے کی تحریک پر 67 کے مقابلے میں 32 ووٹوں سے شکست کے بعد تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن ارکان کو اندازہ ہوا کہ ان کی عدم موجودگی حکومت کے لیے ایوان کا کورم پورا رکھنا مشکل بنا سکتی ہے، 336 رکنی ایوان میں کورم کے لیے کم از کم 84 ارکان کی موجودگی ضروری ہوتی ہے۔
ڈپٹی اسپیکر غلام مصطفیٰ شاہ نے جیسے ہی تحریک پر گنتی کے نتائج کا اعلان کرنا چاہا، تحریکِ انصاف کے ارکان نے حکمتِ عملی کے تحت ایوان سے واک آؤٹ کر دیا جبکہ ان کے ساتھی رکن عامر ڈوگر ایوان میں موجود رہے تاکہ کورم کی نشاندہی کی جا سکے، اس وقت تک ڈپٹی چیئرمین 3 شقوں پر مشتمل بل کی 2 شقوں کی منظوری آواز کے ذریعے کرواچکے تھے۔
ڈپٹی اسپیکر نے فوری طور پر گنتی کا حکم دیا اور کورم مکمل ہونے تک اجلاس ملتوی کر دیا، تاہم حکومت نہ صرف مزید 17 ارکان کی موجودگی سے کورم مکمل کرنے میں ناکام رہی، بلکہ جو ارکان ایوان میں موجود تھے، انہیں بھی برقرار نہ رکھ سکی، جس کے باعث حاضری کی تعداد 67 سے بھی کم ہو گئی۔آدھے گھنٹے بعد جب اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو چیئر کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ ایوان کی کارروائی کو بغیر ایجنڈا مکمل کیے جمعہ کی صبح (آج) تک کے لیے ملتوی کر دے، حالانکہ ایجنڈے میں 5 بلوں کی منظوری شامل تھی۔
انکم ٹیکس (ترمیمی) بل 2024 پہلے ہی نافذ العمل ہے کیونکہ حکومت نے اسے گزشتہ سال صدارتی آرڈیننس کی صورت میں متعارف کرایا تھا۔
تاہم، اب چونکہ یہ آرڈیننس اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے قریب ہے، اس لیے حکومت کے لیے لازم ہو گیا ہے کہ اس بل کو قومی اسمبلی سے باقاعدہ منظوری دلوا کر اس کے نفاذ کو جاری رکھے۔
بل کے اغراض و مقاصد کے بیان کے مطابق، اس کا مقصد وفاقی حکومت کے سیکیورٹیز پر حاصل ہونے والی آمدنی پر زیادہ شرحِ ٹیکس کے نفاذ میں ٹیکس دہندگان کو درپیش مشکلات کا ازالہ کرنا ہے، نیز بینکنگ کمپنیوں کی مجموعی کاروباری آمدنی پر لاگو معیاری ٹیکس شرح کو معقول بنانا بھی اس کا اہم جزو ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت اس اجلاس میں پانچ بلوں کی منظوری کا ارادہ رکھتی تھی، لیکن اپوزیشن کی حکمت عملی کے باعث اسے ایوان کی کارروائی ملتوی کرنا پڑی۔
واضح رہے کہ انکم ٹیکس (ترمیمی) بل 2024 پہلے ہی آرڈیننس کی صورت میں نافذ ہے، تاہم چونکہ آرڈیننس اپنی آئینی مدت پوری کرنے والا ہے، اس لیے حکومت کے لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ اس بل کو باقاعدہ اسمبلی سے منظور کرایا جائے۔