Column

مودی کا بھارتی معاشی طاقت پر حملہ

تحریر : روشن لعل
پہلگام ، دہشت گرد حملہ کے بعد ایک سینئر دوست نے بھارتی حکومت اور میڈیا کے تیور دیکھتے ہوئے پیشگوئی کی کہ آئندہ چند گھنٹے کے دوران بھارت کسی بھی وقت پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے۔ راقم نے اس خیال سے اختلاف کرتے ہوئے فوراً یہ کہا کہ ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔ اپریل 22سے 6مئی تک ایک دوسرے کے خلاف دیئے گئے سخت بیانات کے باوجود پاکستان میں پی ایس ایل اور بھارت میں آئی پی ایل کو شیڈول کے مطابق جاری دیکھ کر اکثر لوگوں نے سوچنا شروع کر دیا کہ دونوں ملک ایک دوسرے پر حملہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ بھارت نے 6اور7 مئی کی درمیانی شب پاکستان کے مختلف شہروں میں مخصوص مقامات پر حملہ کر کے یہ خیال غلط ثابت کر دیا ۔ راقم نے 22اپریل کے سانحہ پہلگام کے بعد جب پاک بھارت جنگ کے امکان کو رد کیا تھا تو مد نظر دونوں ملکوں میں جاری کرکٹ لیگز کے میچ نہیں بلکہ جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم کے بعد ظاہر ہونے والے وہ اثرات تھے جن کی وجہ سے دنیا کی بڑی بڑی معاشی طاقتیں اپنا مقام و مرتبہ گنوا بیٹھی تھیں۔ ماضی میں دہائیوں تک معاشی طاقت تسلیم کیے گئے ملکوں کی جگہ جب جنگ عظیم دوئم کے بعد امریکہ اور سوویت یونین دنیا کی دو نئی معاشی طاقتیں بن کر سامنے آئے تو دانشوروں نے یہ تجزیہ پیش کیا تھا کہ جنگ لڑنے والے ملکوں پر تباہی کے نزول کے ساتھ جو مختلف قسم کے دیگر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کی وجہ سے یہ ملک یقینی معاشی ابتری اور سماجی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ، بھارت کی حکومت جب پاکستان پر حملہ کرنے کی دھمکیاں دے رہی تھی اس وقت راقم کا یہ خیال تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ مودی کو یہ علم نہ ہو کہ جنگی جنون ماضی میں کیسی کیسی معاشی طاقتوں کو دگرگوں کر چکا ہے لہذا اس کی طرف سے جنگ کی دھمکیاں صرف بڑھکیں ہیں جن پر عمل کرنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ مودی نے 6اور7مئی کی درمیانی شب پاکستان پر حملہ کر کے راقم کے سابقہ خیال کو خام ثابت کرتے ہوئے اپنے متعلق یہ نیا احساس اجاگر کیا کہ وہ ایک ایسی غلط فہمی کا شکار ہے جو آنے والے دنوں میں اس کی لیے کسی بڑے سیاسی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔مودی جس بھارت کا پردھان منتری ہے اسے دنیا کی 5ویں بڑی معیشت بنانے کی بنیاد اس نے خود نہیں بلکہ سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اس وقت رکھی تھی جب وہ وزیر خزانہ تھا۔ وزیر خزانہ کی حیثیت سے رکھی گئی بنیادوں پر من موہن سنگھ نے بھارت کی معاشی ترقی کی عمارت اس وقت تعمیر کی جب وہ سال 2004ء سے2014ء تک اپنے ملک میں وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔ اس دوران من موہن سنگھ کی پالیسیوں پر اعتماد کرتے ہوئے اندرونی و بیرونی سرمایہ کاروں نے بھارت میں سرمایہ کاری کر کے نہ صرف خود منافع کمایا بلکہ اسے دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بنانے کی رہ بھی ہموار کی ۔ من موہن سنگھ بہترین پالیسی ساز تو تھے لیکن وہ اپنے عہدے کے لیے کانگریسی قیادت کے مرہون منت ہونے کی وجہ سے نہ تو اپنی پالیسیاں نافذ کرنے میں مکمل آزاد تھے اور نہ ہی انہیں اسمبلی میں اس قدر اکثریت حاصل تھی کہ اپنی پالیسیوں کے نفاذ کو ممکن بنانے کے لیے ضروری قانون سازی کر سکیں۔ من موہن سنگھ جب سرمایہ کاروں کی وابستہ توقعات پر پورا نہ اتر سکے تو ان نظر انتخاب اس مودی پر پڑی جس کی وجہ شہرت صرف گجرات کی خونریزی نہیں بلکہ یہ بھی تھی کہ اس نے اپنے صوبے میں سرمایہ کاروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے ان کی خواہشوں سے بھی زیادہ کر کے دکھا یا تھا۔ سرمایہ کاروں نے مودی کے مذکورہ کردار کو دیکھتے ہوئے اسے بھارت کا وزیر اعظم بنانے کے لیے جو کچھ ممکن تھا وہ کیا۔
بھارت نے جب معاشی ترقی کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کیں تو صرف بھارتی ہی نہیں بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے بھی سرمایہ کاری کے لیے اس کا انتخاب کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت 4.19ٹریلین امریکی ڈالر کی بھارتی معیشت میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کا حصہ تقریباً ایک ٹریلین امریکی ڈالر ہے۔ بھارت میں ، خدمات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، تجارت، ٹیلی کمیونیکیشن، آٹو موبیل انڈسٹری، کنسٹرکشن، فارماسوٹیکل، کیمیکل اور توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے والے ملکوں میں ماریشس، سنگاپور، امریکہ، ہالینڈ، جاپان ، برطانیہ، متحدہ عرب امارات، کیمین آئی لینڈ اور سائپرس کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ گو کہ سعودی عرب اس وقت بھارت میں سرمایہ کاری کرنے والے دس بڑے ملکوں میں شامل نہیں ہے لیکن فی الحال 10بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے والے سعودی عرب نے وہاں اپنی سرمایہ کاری کو 100بلین ڈالر تک لے جانے کے لیے کئی معاہدے کیے ہوئے ہیں۔
بھارت میں سرمایہ کرنے والے ملک بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان کا شمار اگرچہ بھارت کی طرح دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں نہیں ہوتا لیکن اسے کئی ماہرین دنیا کی دس بڑی عسکری قوتوں میں شمار کرتے ہیں۔ اس بات سے صاف ظاہر ہے کہ ایٹم بم رکھنے والے پاکستان کی عسکری حیثیت نہ تو ایسی ہے جیسی اسرائیل کے سامنے کسی عرب ملک کی اور نہ ہی ایسی جیسے روس کے سامنے یوکرین ہے۔ اپنے اوپر جنگ مسلط کرنے کی مودی کی دھمکیوں کے جواب میں جب پاکستان نے اسے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے اپنے دفاع میں ایٹمی اسلحہ تک استعمال کرنے کا عندیہ دیا تو بھارت میں سرمایہ کاری کرنے والے بڑے سرمایہ کاروں کے کان کھڑے ہو گئے۔ جن سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری کی وجہ سے بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بنا، انہوں نے مودی حکومت کو بڑھک بازی سے آگے بڑھ کر کوئی بڑا ایڈونچر کرنے سے روکا لیکن جب مودی نے ان کے روکنے کے باوجود ایڈونچر کر گزرا اور پاکستان نے اسے کئی گنا سود سمیت جواب دیا تو پھر انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعے مودی حکومت کو باور کرایا کہ جنگ زدہ بھارت ، مزید سرمایہ کاری کے لیے ان کی ترجیح نہیں رہے گا۔ بیرونی سرمایہ کاروں نے مودی کو جنگ بندی پر تو آمادہ کر لیا لیکن ان کے منع کرنے کے باوجود پاکستان پر حملہ کرنے اور متوقع نتائج کے برعکس شکست خوردہ ہونے کے بعد اس کے حملے کو بھارتی معیشت پر حملہ تصور کیا جانے لگا ہے ۔ مودی نے خود اپنے ہاتھوں سے ملک کی معیشت پر جو حملہ کیا اس سے بھارتی معیشت کا اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا نقصان اس کی سیاسی حیثیت کو پہنچا ہے۔

جواب دیں

Back to top button