کھلی، پوشیدہ تو کبھی آبی جارحیت

تحریر :عبد الحنان راجہ
لگ بھگ 2023ء کے اواخر میں اشوک کو بلوچستان میں ڈیجیٹل دہشت گردی کا اہم ٹاسک سونپا گیا۔ اس کی ترویج کے لیے کم و بیش 500سو سے زائد ایکس، فیس بک، اور ٹیلیگرام اکائونٹ بنائے گئے ہر اکائونٹ ایک الگ بلوچ نام، ایک الگ المیہ، ایک ہی مقصد: پاکستان دشمن پراپیگنڈا۔ روایتی اور جوہری ہتھیاروں کے بعد نئی جنگی حکمت عملی جسے ڈیجیٹل وار کہا جاتا ہے نے تیزی سے جڑیں پکڑیں یہ اس لحاظ سے اور بھی خطرناک کہ یہ پر سکون اور امن پسند دماغی جرثوموں کو ایسا مضطرب کرتی ہے کہ انسان اپنوں کا دشمن اور یہ جنگ اندر سے ایسی آگ سلگاتی ہے کہ جو گولہ بارود کی آگ سے زیادہ مہلک اور خطرناک کہ گولہ بارود کے زخموں کا علاج تو چند دنوں یا ہفتوں میں ممکن مگر ڈیجیٹل جنگ کے متاثرین کے زخم سالوں مندل نہیں ہوتے۔ اندرونی طور پر یہ آگ 2022ء کے اواخر میں لگائی جا چکی تھی اور پھر گزشتہ دو سال اسے خوب ہوا دی گئی جس نے پاکستان کی نظریاتی اور فکری اساس تک کو پراگندہ کر دیا۔ ان حالات کہ جس میں بعض طاقتیں بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کے منصوبہ پر پوری طرح گامزن اور محرومی کے نام پر نادان بلوچوں کو ورغلا رہی ہیں مختلف حیلے حربوں سے بلوچستان میں بے چینی پھیلانے کا کوئی موقع دشمن ضائع نہیں کرنا چاہتا تو یہاں کی کالی بھیڑیں بھی انہیں اس کا خوب ساماں فراہم کرنے میں پیچھے نہیں۔ دشمن ایجنسیوں نے بی وائی سی ( بلوچ یکجہتی کمیٹی) کے بعض ناراض ارکان تک رسائی حاصل کر کے اُنہیں خفیہ ’’ گیٹ وے فنڈ‘‘ سے چھوٹے چھوٹے کرپٹو والٹس بہم پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا بدقسمتی یہ کہ ان کا تبادلہ بلوچستان سے ملحقہ برادر ملک کے سرحدی علاقہ سے ہوتا۔ اس مہم کے تحت یہاں کے زر خریدوں نے پرتشدد احتجاج، دھرنے، یا ہیش ٹیگ ٹرینڈ میں FreeBalochistan لکھنا تھا۔
فروری 2025ئ کی ایک رات دو بجے، پاک، ایران سرحد کے قریب بند پیک اپ ٹرک نے کچے راستے پر بریک لگائی۔ سرحدی پوسٹ چاہ بہار، پنجگور لنک ٹریل پر پاکستانی کائونٹر انٹیلیجنس یونٹ نے خفیہ اطلاع پر Thermalsآن کر رکھی تھیں۔ اسے طے شدہ اشارہ ملتے ہی چاروں طرف سے گھیر لیا سیکیورٹی ایجنسی کی تفتیش پر ساتھیوں نے اسے Translator کے طور پر متعارف کرایا مگر جوانوں نے جلد ہی اس کی اصل شناخت اشوک تلاش کر لی۔ تحویل کے بعد جلد ہی اس نے ہتھیار ڈال دئیے اور اپنے اعتراف میں اُس نے BLAکو خودکش ویسٹس، بیس تھرڈ جنریشن نائٹ ویژن، اور ایک پورٹیبل ڈرون جَمَر فراہم کرنے کا اعتراف کر لیا۔ بھارتی نیٹ ورک صرف بلوچستان ہی نہیں بلکہ پاکستان کے شہری مراکز میں بھی اپنی جڑیں پھیلائے ہوئے تھا۔ جس کی ایک مثال کراچی میں ایک سوشل میڈیا ایجنسی کے دو ملازمین کہ جن کے ذمہ برانڈ مینجمنٹ تھی مگر وہ درپردہ BLAکے لیے انفلوینسرز ہائر کرتے تھے۔ اطلاعات ہیں کہ پاکستان کی طرف سے فراہم کردہ معلومات پر ایرانی تفتیشی بھی متحرک اور وہ ہینڈلرز تک پہنچ چکے ہیں۔
جعفر ایکسپریس واقعہ میں بھارتی مقاصد کا پورا نہ ہونا اس کی اشتعال انگیزی کا بڑا سبب جبکہ پاکستان میں ڈیجیٹل انتہا پسندی کے عفریت کو قابو کیا جانا اس کی برسوں کی محنت پر پانی تھا۔ موجودہ شر انگیزی اس جارحیت کا تسلسل کہ جو بھارت گزشتہ 20سال سے بڑی خاموشی، ڈھٹائی اور ہماری کوتاہی سے کرتا چلا آ رہا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ کی معطلی اگرچہ عالمی قوانین کے تحت ممکن نہیں مگر بھارت سے کچھ بعید نہیں کہ وہ پاکستان دشمنی میں کسی حد تک جا سکتا ہے جبکہ اسے درپردہ عالمی طاقتوں اور جماعت علی شاہ جیسے ناسوروں کی حمایت بھی حاصل۔ ہماری نااہلی کی وجہ سے ہی بھارت صرف دریائے سندھ پر چودہ چھوٹے ڈیم اور دو بڑے ڈیم مکمل کر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منگلا ڈیم بھی گزشتہ کئی سالوں سے اپنا پیٹ خالی کئے ہوئے ہے جبکہ تربیلا ڈیم بھی اس وقت بارش کا محتاج ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنے اس بیان کہ وہ پاکستان کو پانی کی بوند بوند کے لیے محتاج کر دے گا پر عمل بھی کر رہے ہیں۔ بھارت دریائے چناب پر سلال ڈیم اور بگلیہار ڈیم سمیت چھوٹے بڑے 11ڈیم مکمل کر چکا ہے۔ دریائے جہلم پر وولر بیراج اور ربڑ ڈیم سمیت 52ڈیم بنا رہا ہے دریائے چناب پر مزید 24ڈیموں کی تعمیر جاری ہے۔
ایک طرف پاکستان میں پوشیدہ و کھلی تو دوسری طرف آبی جارحیت کے ذریعے اس مملکت خداداد کو کمزور کرنے کی سازشیں جاری مگر یہ سازشیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتیں جب تک اسے جماعت علی اور ماہ رنگ لانگو جیسے غدار میسر نہ ہوں۔ کالا باغ ڈیم کے خلاف مہم کے لیے بھارت کی لسانی تنظیمات کو فنڈنگ اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کالا باغ ڈیم کی اہمیت و افادیت سے اگر ہمارے نادان آگاہ نہیں مگر بھارت خوب ہے یہی تو وجہ رہی کہ چار عشرے گزرنے کے بعد بھی اس پر اتفاق رائے پیدا نہ کیا جا سکا۔
یہ بات خوب ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ مسلح افواج فوجی جارحیت کا مقابلہ تو کر سکتی ہیں مگر بھارتی آبی جارحیت کو روکنا حکمرانوں اور ذمہ دار اداروں کا کام کہ جس میں وہ بری طرح ناکام رہے۔ یہ وقت سڑکوں اور موٹر ویز کے جال بچھانے کا نہیں بلکہ آنے والی کئی نسلوں کے مستقبل، زراعت اور ملک کے ہر شہری کی بقا کا ہے۔ ہنگامی بنیادوں پر ڈیمز کی تعمیر لازم کہ کالا باغ ڈیم دشمن کی چال نے اندرونی بدخواہوں سے ملکر روک ہی دیا۔ اس سے نہ صرف زراعت کا فروغ بلکہ سستی بجلی پیدا کرنا بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ تھرمل اور دیگر ذرائع سے مہنگی بجلی نے ہماری صنعت کا بھرکس نکال دیا ہے۔ بھارت یہ سب اپنے عوام کے لیے نہیں بلکہ اس سے زیادہ وہ پاکستان کو بنجر اور ویران بنانے کے عزم کے ساتھ کر رہا ہے۔ لازم ہے کہ بڑھکوں، نعروں اور خالی مکوں سے بھارت کو سبق سکھانے کی بجائے عملی اقدامات کر کے بھارتی ریشہ دوانیوں کو خاک میں ملایا جائے۔ بدقسمتی یہ دشمن کی ان سب سازشوں کے باوجود ہماری اجتماعی دانش ابھی تک خوابیدہ۔ اب جبکہ گوادر انگڑائی، سی پیک منصوبہ تکمیل کے آخری مراحل اور بلوچستان کی زمینیں خزانوں کے منہ کھولے ہیں۔ ہماری کوتاہیوں اور نااہلیوں کے باوجود قدرت کی ہم پر مہربانیاں دشمن کو چین نہیں لینے دے رہیں اس نے تو اپنے جال بننے ہیں مگر سوال یہ کہ ہم کب تک اس کی گہری سازشوں کا جواب انتہا پسندانہ رویوں اور خالی خولی نعروں سے دیتے رہیں گے۔ ملک کو اہل دیانت و با کردار، جرات مند اور صالح قیادت کی ضرورت جو 70سالوں سے زائد گمراہ کن ماحول سے عوام کو نکال کر حقیقی ترقی اور استحکام کی ضامن بن سکے، کہ بقول اقبالؒ
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
پاکستان پائندہ باد۔