پنجاب لاہور ہے؟

تحریر : امتیاز عاصی
جناب نواز شریف کی ہونہار بیٹی اور پنجاب کی وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز نے جب سے وزارت اعلیٰ کا قلمدان سنبھالا ہے وہ صوبے کی ترقی کے لئے شبانہ روز مصروف عمل ہیں۔ ہمیں توقع نہیں تھی وہ اپنے چچا ملک کے وزیراعظم میاں شہباز شریف سے زیادہ متحرک ہوں گی۔ پنجاب جو آبادی کے اعتبار سے تمام صوبوں سے بڑا ہے گویا اس لحاظ سے یہاں دیگر صوبوں کے مقابلے میں ترقیاتی فنڈز زیادہ دستیاب ہیں۔ ہمیں شریف خاندان کی سیاست سے لاکھ اختلاف ہو سکتا ہے مجھے اس بات کی خوشی ہے وزیراعلیٰ نے راولپنڈی جیسی شہر میں تجاوزات کے خاتمہ کے لئے خصوصی دل چسپی لی ہے جس سے کم از کم پید ل چلنے والے مجھ ایسے عمر رسیدہ لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ گزشتہ روز مجھے سٹیلائٹ ٹائون میں کمرشل مارکیٹ جو میرے گھر سے چند سو گز کی مسافت پر واقع ہے سے گزرنے کا اتفاق ہوا تو دل سے دعا نکلی مجھے کاروباری مراکز کے باہر لگے جمعہ بازار نظر نہیں آئے چنانچہ میں کسی حادثے کا خوف و خطر کئے بغیر پیدل چلتا رہا۔ راولپنڈی کا قدیمی راجا بازار جہاں شہریوں کا پیدل چلنا دشوار ہوتا تھا ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بند کر دیا گیا ہے جس سے شہر میں خریداری کی لئے آنے والوں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ وزیراعلیٰ کا تجاوزات مافیا کے خلاف آپرپشن معمولی بات نہیں مسلم لیگ نون تاجر برادر ی میں اچھا خاصا ووٹ بنک رکھتی ہے تاہم اس کے باوجود وزیراعلیٰ نے ووٹ کی پروا کئے بغیر عوام کی مشکلات کو اولیت دی جو غیر معمولی اقدام ہے۔ راولپنڈی کا راجا بازار جو شہر کا قدیمی بازار ہے جہاں تقسیم سے پہلے ہندووں اور سکھوں کی اکثریت کاروبار کرتی تھی جس کے گردو نواح میں ہندو اور سکھ رہتے تھے۔1955 میں ایوب خان نے سرکاری ملازمین کے لئے رہائشی منصوبہ بنایا جسے سٹیلائٹ ٹائون سے منسوب کیا گیا۔ قارئین کو جان کر حیرت ہو گی سرکاری ملازمین کو یہاں پچاس روپے کے عوض پلاٹ الاٹ کئے گئے۔ سٹیلائٹ ٹائون جو اب راولپنڈی کا پوش اور مہنگا ترین علاقہ ہے۔ اس کے ساتھ ایف بلاک ہے جہاں کشمیری برادری کو پلاٹ الاٹ کئے گئے تھے۔ آئی جے پی روڈ سے پہلے اور چاندنی چوک تک ایریا میں رہائشی علاقوں میں لوگوں نے بلدیاتی ملازمین کی مبینہ ملی بھگت سے بغیر نقشہ پاس کرائے بڑے بڑے پلازے تعمیر کر لئے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تیسری نسل یہاں قیام پذیر ہے جب کوئی اپنا رہائشی مکان فروخت کرتا ہے تو چند دنوں میں رئیل اسٹیٹ سے وابستہ حضرات کئی گنا زیادہ قیمت پر خرید کر پلازے تعمیر کر رہے ہیں۔ بی بلاک اور ڈی بلاک جو کمرشل مارکیٹ سے بالکل قریب واقع ہے رہائشی علاقوں میں لوگوں نے پلازے بنا لئے ہیں جن کا قانونی جواز نہیں۔ پنجاب حکومت نے سٹیلائٹ ٹائون کو کیٹگری اے میں رکھا ہے یہاں کے رہنے والے لوگوں کو بہت زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑا رہا ہے حالانکہ وہ نہ تو کاروباری ہیں سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد برسوں سے قیام پذیر ہیں۔ یہ بات درست ہے حکومت کو ٹیکس لگانا چاہیے ٹیکسوں کی وصولی بغیر کاروبار مملکت چل نہیں سکتا تاہم ان سرکاری ملازمین کی نسلیں جو کاروباری نہیں ہیں بلکہ اپنے باپ دادا کے جائیداد پر رہائش پذیر ہیں ان سے کیٹگری اے کا پراپرٹی ٹیکس وصول کرنا زیادتی کے مترادف ہے۔ سیٹلائٹ ٹائون کی رہائشی اسکیم کے وجود میں آنے کے بعد جو سیوریج لائنز بچھائی گئیں تھیں ستر برس سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود انہیں تبدیل نہیں کیا گیا حالانکہ جو سیوریج لائنز ڈالی گئیں تھیں رہائشی علاقے کو کاروباری مراکز میں بدلنے سے سیوریج کا پانی سڑکوں پر بہہ رہا ہے جس سے عوام کو گزرنے میں بڑی مشکلات کا سامنا ہے۔ تعجب ہے لوگوں نے گلیوں کے داخلی راستوں کو بند کرکے اپنے سٹوریج بنا لئے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے صوبائی دارالحکومت لاہور کی ترقی کے لئے 137ارب کے فنڈز مختص کئے ہیں جو خوش آئند اقدام ہے۔ اس رقم سے لاہور میں سٹریٹ لائٹس، کئی سو کلو میٹر کچی گلیوں کی پختگی، نکاسی آب، سیوریج لائنز، ٹیوب ویل کا منصوبہ ، واٹر سپلائی اور سڑکوں کی
مرمت کے منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے اس مقصد کے لئے اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات شائع کرائے گئے ہیں جس کا مقصد عوام الناس کو پنجاب حکومت کے ترقیاتی منصوبوں سے آگاہی ہے۔ لاہور کے ترقیاتی منصوبے کا اشتہار نظر سے گزرا تو ہمارا ذہن راولپنڈی، گوجرنوالہ، سیالکوٹ، ملتان، سرگودھا اور بہاولپور کی طرف ہوگیا کیا یہ تمام شہر پنجاب کا حصہ نہیں ہیں یا یہاں کے رہنے والوں کے گوناگوں مسائل نہیں ہیں جو برسوں سے حل طلب ہیں۔ راولپنڈی شہر کے پوش علاقے سیٹلائٹ ٹائون کا یہ عالم ہے سیوریج کا پانی پینے کے پانی کی پائپ لائنز میں مل کر عوام کو میسر ہے جس سے لوگ طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ پلازہ مافیا کا طریقہ کار یہ رہا ہے وہ راتوں رات پلازے بغیر نقشہ پاس کرائے رہائشی علاقوں میں تعمیر کر رہے ہیں جس کے فوری بعد انہیں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ ہم وزیراعلیٰ پنجاب سے توقع کرتے ہیں وہ ان جعلسازیوں کا پتہ چلانے کے لئے اعلیٰ سطح پر تحقیقاتی کمیٹی قائم کریں جو انہیں اصل صورت حال سے آگاہ کر سکے۔ سیٹلائٹ ٹائون کے جس ایریا میں غیر قانونی پلازوں کی تعمیرات ہو رہی ہیں انہیں فوری طور پر روکنے کے اقدامات کئے جائیں۔ سیٹلائٹ ٹائون میں سیوریج لائنز عوام کے لئے درد سر بنا ہوا ہے بارشوں میں سیوریج لائنز میں گنجائش سے زیادہ پانی جانے سے گندہ پانی لوگوں کے گھروں میں جارہا ہے جس کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔اس کے ساتھ ہم امید کرتے ہیں وزیراعلیٰ پنجاب کے دیگر شہروں کی ترقی کیلئے ایسے ہی منصوبوں کا جلد اعلان کریں گی تاکہ صوبے کے عوام کی گونا گوں مشکلات کا ازالہ ہو سکے۔ وزیراعلیٰ کی توجہ ایک اہم معاملے کی طرف دلانے کی سعی کر رہا ہوں بڑے بڑے شہروں میں عمارات اور پلازوں کی تعمیرات جاری ہیں مگر مرنے والوں کو دفنانے کے لئے قبرستان ناپید ہو چکے ہیں۔ سو سال پرانے قبرستانوں میں مزید قبروں کی گنجائش نہیں ہے لہذا شہر سے باہر سرکاری اراضی پر نئے قبرستان بنانے کے منصوبے بنانے کی اشد ضرورت ہے۔