ممتحن حضرات ذمہ داری کا مظاہرہ کریں

رفیع صحرائی
آج کل تعلیمی بورڈز کے مقرر کردہ کلسٹر سنٹرز میں میٹرک کے پیپرز کی مارکنگ جاری ہے۔ امتحانی عمل میں طلباء کا داخلہ جانے، سوالیہ پیپرز کی سیٹنگ، چھپوائی، راز داری، امتحانی مراکز کا قیام، امتحانی عملے کی ڈیوٹی، امتحانی عمل کی چیکنگ کے لیے موبائل ٹیموں کی تشکیل، پیپرز کی بینکوں میں ترسیل، امتحانی عمل، پیپرز کی بورڈز آفس میں بحفاظت واپسی، مارکنگ کے لیے پیپرز کی انٹر بورڈز ترسیل، بورڈز کی طرف سے پیپرز کی کلسٹر سینٹرز میں ترسیل، مارکنگ کے لیے عملہ کی تعیناتی، مارکنگ کا عمل مکمل کروانا، رزلٹ کی تیاری، نتائج کا اعلان اور رزلٹ کارڈز کی ترسیل سمیت تمام مراحل انتہائی ذمہ داری اور یکساں اہمیت کے حامل ہیں لیکن مارکنگ کا عمل اس لحاظ سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ ممتحن حضرات ہمارے امتحانی سسٹم میں طلبہ کے مقدر کے مالک بنا دیئے گئے ہیں۔
مجھے خود میٹرک کے پیپرز کی مارکنگ کا متعدد بار موقع مل چکا ہے۔ مارکنگ سینٹر میں زیادہ سے زیادہ پیپرز مارک کرنے کے لیے ممتحن حضرات میں جنونی مقابلہ شروع ہوتا ہے۔ آج کل ایک پیپر کی مارکنگ کا معاوضہ 40روپے ملتا ہے۔ ممتحن حضرات کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ ایک دن میں بہت زیادہ پیپرز چیک کر لیے جائیں۔ اس لیے وہ جلد بازی میں بغیر جواب کو پڑھے ہی ایوریج نمبر سب کو دیتے جاتے ہیں۔ دس میں سے چھ یا سات نمبر زیادہ تر دیئے جاتے ہیں۔ کسی نے زیادہ لکھا ہو تو آٹھ نمبر بھی اسے مل جاتے ہیں اس سے ذہین اور محنتی طلبہ کی حق تلفی ہوتی ہے۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ مختصر جوابی سوالات کے دو دو کی بجائے جلد بازی میں ایک ایک نمبر دے دیئے جاتے ہیں۔ اسسٹنٹ، ایس اوز اور ہیڈ ایگزامینرز بھی پیپرز کے اندر اور باہر سوالات کے نمبرز میچ کرنے اور میزان چیک کرنے کی بجائے محض ٹِک لگا کر دستخط کرتے جاتے ہیں۔ ہر ایک کو جلدی کی پڑی ہوتی ہے۔
میرے ایک دوست ایسے بھی تھے یار لوگوں نے ان کا نام تھریشر رکھا ہوا تھا۔ جس طرح تھریشر میں گندم کی فصل کی گانٹھ ڈال کر دوسری طرف سے چند لمحوں میں گندم نکال لی جاتی ہے یہی حال وہ جوابی کاپیوں کے بنڈل کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ پورا بنڈل چند منٹ میں چیک کر لیا کرتے تھے۔ وہ مارکنگ کے دوران کسی سے مصافحہ تک نہیں کرتے تھے کہ جتنا وقت مصافحہ کرنے میں ’’ ضائع‘‘ ہو گا اتنی دیر میں وہ ایک پیپر چیک کر لیں گے۔ ایسے بندے سے آپ انصاف کی کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟
طلبہ کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ ممتحن حضرات نے کسی سوال کے جو نمبر لگا دیئے وہ پتھر پر لکیر بن جاتے ہیں۔ اگر کسی طالب علم کو اپنے دیئے گئے کسی پیپر کی مارکنگ پر تحفظات ہوں تو وہ مقررہ فیس جمع کروا کر پیپر ری چیک کروا سکتا ہے۔ پیپر کی ری چیکنگ کے لیے طالب علم کو تعلیمی بورڈ کے آفس میں بلوا کر اسے جوابی کاپی دکھا کر تصدیق کی جاتی ہے کہ یہ اسی کا پیپر ہے۔ اس کے بعد طالب علم کے سامنے جوابی کاپی پر سوالات کے دیئے گئے نمبرز کی ری کائونٹنگ کی جاتی ہے۔ اگر اس میں کسی سوال کے نمبر مجموعی نمبروں میں شامل ہونے سے رہ گئے ہوں، کسی سوال کے نمبر نہ لگے ہوں یا ٹوٹل غلط کیا گیا ہو تو طالب علم کو اس کا فائدہ یا حق دے دیا جاتا ہے اور اس کے نمبر بڑھ جاتے ہیں۔
اگر طالب علم کی طرف سے کوئی سوال مکمل حل کیا گیا ہو مگر ممتحن نے اس سوال کے دس میں سے چار یا پانچ نمبر لگائے ہوں جبکہ وہ دس میں سے نو یا دس نمبروں کا حق دار تھا تو ایسی صورت میں طالب علم کو کوئی فائدہ نہیں دیا جاتا۔ ممتحن کے دیئے گئے نمبرز حتمی تصور کیے جاتے ہیں۔ طلباء روتے رہ جاتے ہیں مگر انہیں ان کا جائز حق نہیں ملتا۔ آج کل مسابقت اور مقابلہ بازی کا دور ہے۔ میٹرک کے بعد کسی اچھے ادارے میں داخلے کے لیے ہائی میرٹ کے معیار پر پورا اترنا پڑتا ہے۔ ممتحن کی غفلت کی سزا بچے کو بھگتنا پڑتی ہے۔ کسی چارہ گر کے پاس اس کا علاج نہیں ہوتا۔ وزیرِ تعلیم پنجاب رانا سکندر حیات تعلیمی شعبے میں ایک ریفارمر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ وہ ممتحن کی جانب سے ایوارڈ کیے گئے نمبرز کو پتھر کی لکیر کے درجے سے نجات دلوا کر اگر نمبروں میں ممتحن کی غفلت کی وجہ سے اضافے کی گنجائش موجود ہو تو اضافے کرنے کی اجازت دینے کا اختیار دینے کی قانون سازی کروا دیں تو یہ طلبہ کی بہت بڑی تعداد پر نہ صرف ان کا احسان ہو گا بلکہ حق داروں کو ان کا جائز حق بھی مل جایا کرے گا۔ دیگر صوبوں اور وفاق میں بھی اس کی سخت ضرورت ہے۔ ممتحن حضرات سے بھی گزارش ہے کہ براہِ کرم اپنی ذمہ داری پوری کیجیے۔ بچوں کا مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ ان کے مستقبل کا خیال کیجیے۔