
تحریر : سی ایم رضوان
موجودہ دور میں نواز شریف ملکی سیاست کے سب سے سینئر، تجربہ کار اور عوام و خواص کی نظر میں انتہائی قابل اعتماد سیاست دان ہیں۔ گو کہ ان کے خلاف پچھلی چند دہائیوں سے سازشوں میں مصروف ٹولے اور خفیہ طاقتوں کا ان کے خلاف پراپیگنڈا کرنے والے بریگیڈ کا موجودہ عرصہ ایک بااثر ترین عرصہ چل رہا ہے مگر اس کے باوجود آج بھی مرکز اور پنجاب پر حکومت فقط نواز شریف کی جماعت کی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف گو کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے نواز شریف سے مختلف کردار رکھتی ہیں مگر وہ آج بھی ہر اہم موقع پر اور قدم قدم پر نواز شریف سے ہی رہنمائی لے رہے ہیں۔ دوسری جانب پنجاب میں بھی ان کی بیٹی مریم نواز انہی کی رہنمائی میں کامیاب حکومت چلا رہی ہیں۔ نواز شریف کے سیاسی مخالفین کی تاریخ اور قد آوری کا اہم نقطہ اور راز بھی یہی ہے کہ وہ اس لئے بڑے اور اہم ہیں کہ وہ نواز شریف کے مخالف ہیں۔ نواز شریف کی سیاست کا طرہ امتیاز بھی یہی ہے کہ انہوں نے کبھی بھی اپنے مخالفین کو اہمیت نہیں دی۔ وہ صرف اپنا کام کرتے ہیں اور اسی کام کی وجہ سے اکثر ان کے مخالفین ان سے شکست کھا جاتے ہیں۔ وہ جب 2018ء کے انتخابات سے قبل وطن واپس آئے تھے تو ان کو دیئے جانے والے پروٹوکول کو بھی سازشوں کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ جب وزیراعظم نہ بنے تو بھی طرح طرح کے بیانات سامنے آئے اور گزشتہ روز جب اہم اور حساس نوعیت کے قومی پارلیمانی اجلاس میں وہ شامل نہ ہوئے تو بھی طرح طرح کی باتیں بنائی گئیں اور اب جبکہ وہ اپنی زندگی کے معمولات کے مطابق رمضان المبارک کے آخری ایام میں سعودی عرب نہیں جا سکے تو بھی مختلف قسم کے شکوک آمیز سوالات کیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ ان دنوں ڈاکٹرز نے انہیں ہوائی سفر سے اجتناب اور پیس میکر لگانے کا مشورہ دیا ہے۔ اس دوران وہ اپنی سیاسی مصروفیات جاری رکھے ہوئے ہیں مگر مخالفین پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں۔ گزشتہ روز انہوں نے سابق ن لیگی وزیر میاں جاوید لطیف سے جاتی امرا میں ملاقات کی ہے اور انتہائی گرم جوشی سے جاوید لطیف کو گلے کے ساتھ لگا کر کہا ہے کہ اٹوٹ رشتے کبھی ٹوٹا نہیں کرتے۔ اب اگر جاوید لطیف کے اپنے سیاسی بیانیہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ نواز شریف کل کلاں اپنی طبع کے مطابق آزاد سیاست کو بھی مزید نمایاں کر سکتے ہیں اور اپنی پارٹی کے قدرے تیز بیانیے کو عوام میں مقبول کروانے کا اصولی جتن بھی کر سکتے ہیں۔
لوگوں کو یاد ہے کہ ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے پر سال 2018ء کا الیکشن لڑنے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی بعدازاں الیکشن 2024ء کی انتخابی مہم کا معروف نعرہ ’’ پاکستان کو نواز دو‘‘ تھا۔ جبکہ انتخابی مہم کے دوران’’ نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم بنوائیں گے‘‘ جیسے پارٹی ترانے بھی اِس جماعت کے لیڈروں، ووٹروں اور سپوٹروں کی زبان پر تھے مگر جب حکومت بنانے کی باری آئی تو اعلان ہوا کہ ن لیگ کی سربراہی میں بننے والی ممکنہ مخلوط حکومت میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے لئے شہباز شریف کو نامزد کر دیا گیا ہے حالانکہ 8فروری کو جب پولنگ کے روز مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اپنے حلقے میں واقع پولنگ سٹیشن سے ووٹ ڈال کر باہر نکلے تھے تو ایک صحافی نے ان سے الیکشن کے نتیجے میں مخلوط حکومت قائم ہونے کے امکان سے متعلق سوال کیا تھا جس پر نواز شریف نے تھوڑا برہمی سے جواب دیا تھا کہ ’’ ایسا نہ کہیں۔ جو بھی حکومت بنے سادہ اکثریت سے ہی بنے تو بہتر ہے‘‘۔ مگر انتخابات کے نتیجے میں سادہ اکثریت ملنے سے والی نواز شریف کی ’’ خواہش‘‘ پوری نہ ہو سکی۔ حکومت سازی سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن قومی اسمبلی کی 75نشستوں پر کامیاب ہو پائی تھی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے 54، ایم کیو ایم پاکستان کے 17اور دیگر جماعتوں کے 25امیدوار کامیاب ہوئے تھے جبکہ اس الیکشن کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار 93سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ اس سے قبل انتخابات کے اگلے ہی روز نواز شریف نے پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، ایم کیو ایم اور آزاد اراکین کو مخلوط حکومت بنانے کی دعوت دی تھی۔ اس دعوت کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی نے مشروط انداز میں اس مخلوط حکومت کا حصہ بننے کا اعلان کیا تھا جبکہ جمعیت علمائے اسلام نے اس دعوت کو مسترد کرتے ہوئے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ اسی سیاسی جوڑ توڑ کے دوران بعد ازاں مسلم لیگ ن کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ مخلوط حکومت میں وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار نواز شریف نہیں بلکہ اُن کے چھوٹے بھائی شہباز شریف ہوں گے۔ ن لیگ کے مطابق یہ فیصلہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے بذات خود کیا تھا۔ یہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد لامحالہ ملک بھر کے سیاسی و صحافتی حلقوں میں چہ میگوئیوں کا سلسلہ شروع ہوا کہ وہ کون سے عوامل تھے جن کے باعث یہ فیصلہ لیا گیا اور یہ سوال بھی کیا جانے لگا کہ کیا یہ نواز شریف کو مستقبل کی سیاست سے دور کرنے کی ’’ سازش‘‘ تو نہیں؟ لیکن اس بات کی تردید کرتے ہوئے مریم نواز نے ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ ’’ وزارت عظمیٰ کا عہدہ قبول نہ کرنے کا مطلب اگر یہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ نواز شریف سیاست سے کنارہ کش ہو رہے ہیں تو اس میں کوئی سچائی نہیں۔ اگلے پانچ سال وہ نہ صرف بھرپور سیاست کریں گے بلکہ وفاق و پنجاب میں اپنی حکومتوں کی سرپرستی بھی کریں گے‘‘۔ مریم نواز کا مزید کہنا تھا کہا کہ ’’ نوازشریف کی ( ماضی کی) تینوں حکومتوں میں عوام نے انہیں واضح اکثریت دی تھی اور یہ بات وہ انتخابی تقاریر میں واضح کر چکے تھے کہ وہ کسی مخلوط حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے۔ جو لوگ نواز شریف کے مزاج سے وقف ہیں انہیں نواز شریف کے اصولی موقف کا پتہ ہے۔ مریم نواز نے وضاحت کی کہ شہباز شریف اور میں اُن کی سربراہی اور نگرانی میں کام کریں گے‘‘۔ تاہم مریم نواز کی اس وضاحت کے بعد بھی ملکی سیاست و صحافت میں نواز شریف کی سیاست کو لے کر مزید سوالات سامنے آتے رہے اور آج تک آ رہے ہیں۔ یہ سوال بھی کیا گیا کہ ایسا ماحول کیوں پیدا کیا گیا کہ نواز شریف ہی ن لیگ کے وزیرِ اعظم کے امیدوار ہوں گے کیونکہ ن لیگ نے خود اپنی انتخابی مہم کے دوران عوامی سطح پر یہی تاثر دیا تھا کہ مسلم لیگ ن کے قائد اور تین بار سابق وزیراعظم رہنے والے نواز شریف ہی چوتھی مرتبہ کے لئے بھی ن لیگ کے امیدوار ہوں گے۔ انتخابات سے قبل عوامی جلسوں اور ذرائع ابلاغ کو دیئے گئے اپنے انٹرویوز میں لیگی رہنمائوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر نواز شریف کو ہی وزارت عظمیٰ کا امیدوار قرار دیا تھا۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ن لیگ کے ایک قدرے ناراض رہنما نے وضاحت دی تھی کہ اگر وہ ( ن لیگ) ایسا نہ کرتے تو جتنے ووٹ ملے ہیں شاید وہ بھی نہ ملتے۔
یہ تو ریکارڈ کا حصہ ہے کہ شہباز شریف کو 13سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحادی حکومت ( پی ڈی ایم) 16ماہ تک قدرے کامیابی سے چلانے کا تجربہ تھا، چنانچہ صورتحال کو مبینہ طور ہر دیکھتے ہوئے سینئر پارٹی لیڈر شپ کا یہ متفقہ فیصلہ تھا کہ موجودہ صورتحال میں شہباز شریف کو ہی لیڈ کرنا چاہیے۔ تاہم اگر ن لیگ کی سیاست دیکھی جائے تو پھر یہ کہنا بھی بجا ہو گا کہ وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار نہ بن کر نواز شریف نے اچھا فیصلہ کیا اور نواز شریف کا وزیراعظم نہ بننے کا فیصلہ بالکل حیران کُن نہیں تھا کیونکہ نواز شریف ویسے بھی بغیر اکثریت کے وزیر اعظم نہیں بننا چاہتے تھے اور اس کا عندیہ انہوں نے الیکشن کے روز ہی دے دیا تھا۔ اس حوالے سے مزید وضاحت کے لئے ایک اور پہلو یہ بھی غور طلب ہے کہ نواز شریف پی ڈی ایم حکومت کا ( نواز شریف کی نظر میں) 16ماہ کا قدرے دورانیہ دیکھ چکے تھے۔ انہیں پتا تھا کہ مخلوط حکومت میں شامل ہر سیاسی جماعت کی سوچ مختلف ہوتی ہے اور سب کو ایک ساتھ لے کر چلنا خاصا مشکل کام ہوتا ہے، اس لئے ان کا وزیر اعظم نہ بننا ایک اچھا فیصلہ تھا۔ سیدھی بات اس طرح بھی کی جا سکتی ہے کہ نواز شریف کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات اور نبھا کے حوالے سی ایک دیگر ماضی ہے جبکہ شہباز شریف کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رویہ اور گزارہ اور طرح کا ہے۔ آج وقت نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ جس طرح شہباز شریف موجودہ آرمی چیف کو اہمیت اور فضیلت دے رہے ہیں اگر آج ان کی جگہ نواز شریف ہوتے تو شاید ان سے یہ سب کچھ نہ ہو پاتا۔ آج اگر شہباز شریف بحیثیت وزیراعظم آرمی کے ساتھ بطریق احسن چل رہے ہیں تو نواز شریف سے ایسی توقع رکھنا عبث ہے۔
ان حالات میں اگر مستقبل کی نواز شریف کی سیاست کی بات کی جائے تو یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ نواز شریف ایک آزاد خیال انسان اور سیاستدان ہیں اور وہ اپنی جماعت کی حکومت کو پنجاب میں مستحکم کرنے میں مگن ہو جائیں گے لیکن شاید وہ جماعت کے فیصلہ سازی کے معاملات میں سامنے نہیں آئیں گے۔ اس تاثر سے اتفاق اس نقطہ نظر سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ پنجاب میں اب نواز شریف کی جماعت کو تحریک انصاف کی صورت مقابلے کا سامنا ہے لیکن اب مریم نواز نے پنجاب میں سرگرم کام کر کے نواز شریف کی سیاست کو مضبوط کرنا شروع کر دیا ہے اور آہستہ آہستہ پی ٹی آئی کی پنجاب میں مقبولیت کم ہو رہی ہے۔ اب شاید چند لوگوں کو ایسا محسوس ہو رہا ہو کہ نواز شریف وزارت عظمیٰ کے امیدوار نہ بن کر سیاست سے دور ہو رہے ہیں مگر ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف بھرپور سیاست کر رہے ہیں اور شہباز شریف اور مریم نواز سے متعلق اہم فیصلے انہوں نے ہی سینئر لیڈرشپ کی مشاورت سے لئے تھے اور اب وہ ہی دونوں حکومتوں کو دیکھ رہے ہیں اور مستقبل کی سیاست میں بھی نواز شریف کا انتہائی اہم کردار ہو گا۔ اگرچہ وہ وزیراعظم نہیں مگر وہ اپنی جماعت سے متعلق اہم فیصلے کرنے اور وفاق اور پنجاب میں حکومتوں کی رہنمائی میں مصروف ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔