Aqeel Anjam AwanColumn

توانائی بحران کا حل کیا نیٹ میٹرنگ کے نرخ کم کرنے میں ہے؟؟؟

تحریر : عقیل انجم اعوان
پاکستان میں توانائی کا شعبہ شدید بحران کا شکار ہے۔ حکومت نے حال ہی میں نیٹ میٹرنگ کے تحت بجلی خریدنے کے نرخ 27روپے فی یونٹ سے کم کرکے 10روپے فی یونٹ کر دئیے ہیں، جس پر شدید بحث چھڑ چکی ہے۔ توانائی کے وزیر اویس لغاری کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ضروری ہے تاکہ گرڈ صارفین کو بڑھتے ہوئے اخراجات سے بچایا جا سکے جبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ملک کی قابل تجدید توانائی کی ترقی کو متاثر کرے گا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب توانائی کا شدید بحران ملک کو جکڑے ہوئے ہے۔ پاکستان میں شمسی توانائی کی گنجائش 2021ء میں 321میگاواٹ تھی جو دسمبر 2024ء تک بڑھ کر 4124میگاواٹ ہو چکی ہے۔ اسی طرح نیٹ میٹرنگ صارفین کی تعداد بھی اکتوبر 2024ء میں 226440تھی جو سال کے آخر تک بڑھ کر 283000ہو گئی۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی ( ای سی سی) جس کی صدارت وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کر رہے ہیں کا کہنا ہے کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی شمسی توانائی کے صارفین عام گرڈ صارفین پر اضافی بوجھ ڈال رہے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، دسمبر 2024ء تک نیٹ میٹرنگ صارفین نے 159ارب روپے کے اخراجات عام گرڈ صارفین پر منتقل کیے اور اگر یہی رجحان جاری رہا تو 2034ء تک یہ بوجھ 4.24کھرب روپے تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ بحران صرف شمسی توانائی کی پالیسی تک محدود نہیں۔ ایک اہم مسئلہ وہ مہنگے معاہدے بھی ہیں جو 2013ء سے 2018ء کے دوران نجی بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں (IPP’s) کے ساتھ کیے گئے تھے۔ ان معاہدوں میں غیر مسابقتی نرخوں پر بجلی خریدنے کا معاہدہ کیا گیا جس کی وجہ سے پاکستان میں بجلی کی قیمتیں ایشیا میں سب سے زیادہ ہو گئیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان معاہدوں کی وجہ سے بجلی صارفین پر غیر ضروری مالی بوجھ ڈالا گیا ہے اور اب حکومت نیٹ میٹرنگ کے نرخ کم کر کے اسی بوجھ کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا اگر حکومت مہنگی بجلی کی بنیادی وجوہات پر توجہ دے کر اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرتی ۔2006ء میں متعارف کرائی گئی نیٹ میٹرنگ پالیسی کا مقصد بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابو پانا اور صاف توانائی کو فروغ دینا تھا۔ اس پالیسی کے تحت گھریلو اور صنعتی صارفین کو اجازت دی گئی کہ وہ اپنی ضرورت کے لیے بجلی پیدا کریں اور اضافی بجلی گرڈ کو فروخت کر کے کریڈٹ حاصل کریں۔ اس نظام کو ابتدا میں بہترین تصور کیا گیا کیونکہ یہ صارفین کو مہنگے فیول پر انحصار کم کرنے اور ماحول دوست توانائی کی طرف بڑھنے کا موقع فراہم کر رہا تھا۔ لیکن جیسے جیسے شمسی توانائی کی لاگت کم ہوئی اور نیٹ میٹرنگ کے صارفین بڑھے، اس پالیسی کے کچھ غیر متوقع نتائج بھی سامنے آئے۔ توانائی کے وزیر اویس لغاری اور ای سی سی کا کہنا ہے کہ نیٹ میٹرنگ صارفین کی تعداد میں اضافے کے باعث بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے اخراجات عام گرڈ صارفین پر منتقل ہو رہے ہیں۔ اس لیے، ان کے مطابق، نیٹ میٹرنگ کے نرخ کم کرنا ضروری ہے تاکہ قیمتوں کا بوجھ برابر کیا جا سکے۔ مگر سینیٹر شیری رحمان، جو سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کی چیئرپرسن ہیں، اس پالیسی کی سخت مخالف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت صاف توانائی کے بجائے ایک ’’ گندے بجلی کے نظام‘‘ کو ترجیح دے رہی ہے، اور اس فیصلے سے پاکستان کا انحصار پرانے آلودگی پھیلانے والے تھرمل پاور پلانٹس پر مزید بڑھ جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان پاور پلانٹس کی کارکردگی پہلے ہی ناقص ہے اور ان کے ساتھ کیے گئے مہنگے معاہدے عوام کے لیے اضافی مالی بوجھ بن رہے ہیں۔ کچھ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ نیٹ میٹرنگ کے نرخ کم ہونے سے متبادل توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ چونکہ بیٹری اسٹوریج کی لاگت مسلسل کم ہو رہی ہے، اس لیے گھریلو صارفین مکمل طور پر گرڈ سے علیحدہ ہونے پر غور کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے نیٹ میٹرنگ کے نرخوں میں کمی کا مقصد توانائی کی قیمتوں میں توازن پیدا کرنا ہو سکتا ہے، مگر ناقدین کا کہنا ہے کہ اس پالیسی سے پاکستان میں قابل تجدید توانائی کی ترقی سست ہو سکتی ہے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں نئے شمسی توانائی کے منصوبوں کی واپسی کی مدت بڑھ جائے گی، جس سے سرمایہ کاری متاثر ہو سکتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کا توانائی کا نظام کئی بنیادی مسائل کا شکار ہے۔ بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نظام میں شدید نقصانات، غیر موثر گرڈ انفراسٹرکچر، اور سرکلر ڈیٹ جیسے مسائل کو حل کیے بغیر صرف نیٹ میٹرنگ کے نرخ کم کرنا کسی بڑے حل کا حصہ نہیں ہو سکتا۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ’[ حکومت اگر بجلی 48.8روپے فی یونٹ میں بیچ رہی ہے، تو وہ نئے صارفین سے صرف 10روپے فی یونٹ میں کیوں خرید رہی ہے؟‘‘، یہ سوال ظاہر کرتا ہے کہ حکومت صرف سطحی مسائل پر توجہ دے رہی ہے، جبکہ اصل خرابیوں کو نظر انداز کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ نیٹ میٹرنگ صارفین کی جغرافیائی تقسیم بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ قریباً 80فیصد نیٹ میٹرنگ صارفین صرف نو بڑے اور زیادہ تر امیر شہروں میں موجود ہیں۔ اس کے نتیجے میں بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے اخراجات دیہی علاقوں کے صارفین پر زیادہ پڑ رہے ہیں، جس سے توانائی کی عدم مساوات مزید بڑھ رہی ہے۔ کچھ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ نیٹ میٹرنگ کے فوائد کم کرنے سے شمسی توانائی کی ٹیکنالوجیز کی ترقی رک سکتی ہے، جس کا اثر بیٹری اسٹوریج، توانائی مینجمنٹ سسٹمز، اور دیگر وابستہ شعبوں پر بھی پڑ سکتا ہے۔ اگر حکومت اس شعبے میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرتی ہے، تو یہ پاکستان کے طویل مدتی توانائی کے اہداف کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ دوسری طرف، حکومت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس پالیسی سے ایسے بڑے شمسی نظاموں کی حوصلہ شکنی ہوگی جو اضافی بجلی بیچنے کے لیے لگائے گئے تھے، اور صارفین کو زیادہ تر اپنی ہی پیدا کردہ بجلی استعمال کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو بجلی کی پیداوار اور کھپت کا ایک متوازن نظام قائم ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے مزید بہتر منصوبہ بندی اور پالیسی میں اصلاحات کی ضرورت ہوگی۔ تاہم، پاکستان کے توانائی بحران کا حل صرف نیٹ میٹرنگ کے نرخ کم کرنے میں نہیں ہے۔ اس کے لیے توانائی کے پورے شعبے میں جامع اصلاحات کی ضرورت ہے، جن میں بجلی کی ترسیل اور تقسیم میں نقصانات کم کرنا، گرڈ کو جدید بنانا، ٹیرف کا بہتر تعین، اور مہنگے تھرمل پاور پلانٹس کو بند کرنا شامل ہے۔ پاکستان کو اپنی قابل تجدید توانائی کی پالیسی کو مزید متنوع بنانا ہوگا۔ صرف چھتوں پر شمسی توانائی کے منصوبوں پر توجہ دینے کے بجائے، ہوا، ہائیڈرو، اور بایو ماس توانائی کے ذرائع کو بھی فروغ دینا ہوگا۔ ایسا کرنے سے گرڈ پر دباؤ کم ہوگا توانائی کی سیکیورٹی میں بہتری آئے گی اور معیشت بھی مستحکم ہوگی۔ پاکستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ نیٹ میٹرنگ کے نرخوں میں کمی ایک متنازعہ فیصلہ ہے، جو مالی توازن پیدا کرنے کی کوشش تو کر رہا ہے لیکن اگر مجموعی توانائی کے نظام کو بہتر نہ کیا گیا تو یہ فیصلہ پاکستان کے قابل تجدید توانائی کے مستقبل کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔ اصل کامیابی صرف نرخ کم کرنے میں نہیں بلکہ توانائی کے نظام کو جدید، منصفانہ، اور موثر بنانے میں ہے۔ اگر جامع اصلاحات نہ کی گئیں تو پاکستان کا توانائی کا بحران مزید بگڑ سکتا ہے کیونکہ قابل تجدید توانائی کی پالیسیوں میں جلد بازی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button