Column

رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

تحریر : صفدر علی حیدری

انسان بھی بڑا عجوبہ ہے۔ ہدایت کا طالب ہے مگر ہادیان برحق کا مخالف بھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب جب اسے حق کی دعوت دی جاتی ہے، اس کی مخالفت پر کمربستہ ہو جاتا ہے۔ جتنے بھی انبیائٌ انسان کی ہدایت سے لے اس دنیا میں تشریف لائے ان کی قدم قدم پر مخالفت کی گئی ۔ روڑے اٹکانے گئے۔ ان کو پتھر مارے گئے ۔ حتی کہ ان کو شہید تک کر دیا گیا۔ جناب رسالت مآبؐ خود فرماتے ہیں کہ انھیں سب نبیوں سے زیادہ ستایا گیا۔ آپ کے ساتھ بیسیوں ناخوش گوار واقعات پیش آئے۔ طائف کا واقعہ ان میں سب میں شدید و سنگین تھا کہ آپؐ لہولہان ہو گئے۔ غزوہ احد آپؐ کے دندان مبارک شہید ہوئے۔13سالہ مکی دور میں مسلمان تعداد میں کم تھے اور کمزور بھی۔ سو ان کے ساتھ ہر طرح کا سلوک روا رکھا گیا اور طرح طرح سے انھیں ستایا گیا۔ بنو ہاشم کی شعب ابی طالب میں تین سالہ محصوری اسی ’’ حسن سلوک ‘‘ کی روشن مثال ہے۔ کچھ مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ جب حالات پھر بھی سازگار نہ ہوئے تو انھیں اپنا گھر بار مال و اسباب چھوڑ کر مدینہ منورہ ہجرت کرنا پڑی۔
وہاں انصار نے بے انتہا شفقت کا سلوک کیا ۔ بھائیوں سے بڑھ کر خیال رکھا۔ مسلمانوں کو کچھ سکون محسوس ہوا تو کفار مکہ کو یہ بات کسی طور پسند نہیں آئی۔ انہوں نے نہتے مسلمانوں کو کچلنے کیلئے جنگوں کا سہارا لیا ۔
کفر و اسلام کی سب سے پہلی اور سب سے اہم جنگ، 17رمضان المبارک 2ہجری کو بدر کے مقام پر پیش آئی۔ مسلمانوں کی افراد قوت انتہائی کم تھی۔ کل تین سو تیرہ سرفروشوں کا لشکر تھا جبکہ مقابل ایک ہزار مسلح افراد کا لشکر تھا مگر مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے عظیم کامیابی سے نوازا، مسلمانوں کی فتح کے اسباب میں بطور خاص علیؓ ابن ابی طالب اور جناب حمزہ سید الشہدائؓ کی ذات تھی۔ اس جنگ کے حوالے سے جناب مقدادؓ کے الفاظ تاریخ میں سنہری حروف سے درج کیے جانے کے قابل ہیں ’’ اے رسولؐ خدا! ہم قوم یہود کی طرح نہیں ہیں جنہوں نے موسیٌٰ سے کہا: بس آپٌ جائیے اور آپٌ کا پروردگار اور دونوں لڑ لیجئے۔ ہم یہیں بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ ہم آپؐ کے دائیں بائیں اور آگے اور پیچھے لڑیں گے‘‘۔ قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذؓ نے انصار کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا ’’ انصار مکمل طور پر رسولؐ اللہ کے مطیع اور فرمانبردار ہیں۔ رسولؐ خدا مقدادؓ اور سعدؓ کے اظہار خیال سے خوش ہوئے اور فرمایا: ’’ خداوند متعال نے مجھے کفار پر فتح و نصرت کا وعدہ دیا ہے‘‘۔ مسلمانوں 17رمضان المبارک بوقت عصر بمقام بدر پہنچے۔ اسی رات بارش آنے کے بموجب ریگستانی زمین مسلمانوں کے قدموں کے لئے مستحکم ہوئی جبکہ وہی بارش قریشیوں کے مقام تعیناتی نے دلدل کی سی کیفیت کا سبب ہوئی۔ ابو جہل نے مسلمانوں کے مقابلے میں اپنی قوت ثابت کر کے دکھانے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔ قریش کے مخبروں نے خبر دی کہ مسلمانوں کی افرادی قوت مختصر اور ان کے وسائل بہت کم ہیں لیکن یک جہتی اور اتحاد کے ساتھ جنگ لڑنے اور مارے جانے کے لئے تیار ہیں۔ مسلمانوں نے رسولؐ خدا کے حکم پر، اپنے زیر استعمال کنویں کے سوا تمام کنوءوں کو مٹی ڈال کر بند کر دیا اور لشکر قریش کی خبریں لانے کے لئے اپنے سراغرساں روانہ کئے۔ رسولؐ خدا نے اس موقع پر فرمایا: ’’ مکہ نے اپنے جگر گوشوں کو تمہاری جانب روانہ کیا ہے‘‘۔ صبح کے وقت پیغمبرؐ نے اپنے لشکر کی صف آرائی کا اہتمام کیا اور اسی اثناء میں قریش کی سپاہ عَقَنْقَل نامی ٹیلے سے ظاہر ہوئی۔ رسولؐ خدا نے دیکھا تو بارگاہ احدیت میں التجا کی: ’’ اے رب متعال! یہ قریش ہیں جو غرور و تکبر کے ساتھ تجھ سے لڑنے اور تیرے رسولؐ کو جھٹلانے آئے ہیں، بار خدایا! میں اس نصرت کا خواہاں ہوں جس کا تو نے مجھے وعدہ دیا ہے! انہیں صبح کے وقت نیست و نابود کر دے‘‘۔ قیادت کا پرچم بنام عقاب، جو صرف اکابرین اور خاص افراد کو ملا کرتا تھا، علیؓ کے ہاتھ میں تھا ۔ بدر کے روز رسولؐ خدا کا ٹھکانا دشمن سے قریب ترین نقطے پر تھا اور جب جنگ میں شدت آجاتی تھی تو مسلمان آپؐ کی پناہ میں چلے جاتے تھی۔ یہ سائبان جنگ کی قیادت و ہدایت کے مرکز کے عنوان سے بنایا گیا تھا۔ دو بدو لڑائی شروع ہونے سے قبل، ابو جہل کے اپنے لشکریوں کے جذبات ابھارنے پر عامر پہلا شخص تھا جو مسلمانوں کی صفوں پر حملہ آور ہوا تا کہ ان کی صفوں کو درہم برہم کرے ، لیکن مسلمانوں نے ثابت قدمی دکھائی۔ ابو جہل اور قریش کی مسلسل طعن و تشنیع نے ’’ عتبہ‘‘ کو ، جو ایسی جنگ میں جس کی آگ بجھانے کے لئے وہ خود کوشاں تھا، مجبور کیا کہ پہلے فرد کے طور پر اپنے بیٹوں ولید اور عتبہ کے ہمراہ میدان میں اترے اور دو بدو لڑائی کا آغاز کر دے ۔
رسولؐ خدا نے اپنے چچا حمزہؓ، علی ؓاور عبیدہ بن حارثؓ کو میدان میں بھیجا، حمزہؓ نے عتبہ کو ہلاک کیا اور علیؓ نے ولید کو اور عبیدہؓ نے حمزہ اور علیؓ کی مدد سے شیبہ کا کام تمام کیا۔ عتبہ، شیبہ اور ولید کے ہلاک ہو جانے کے بعد جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے لیکن اللہ کی غیبی امداد۔ ؟ گھمسان کی لڑائی کے دوران، رسولؐ خدا نے مٹھی بھر ریت اٹھا کر قریشیوں کی جانب پھینک دی اور ان پر نفرین کی۔ یہی امر مشرکین کے فرار ہونے اور ان کی شکست و ناکامی کا سبب ہوا۔ قریش کا لشکر اپنا مال و اسباب چھوڑ کر میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ جنگ بدر میں 14مسلمان شہید ہوءے ( جن میں سے 6کا تعلق مہاجرین اور 8کا تعلق انصار سے تھا) اور مشرکین میں سے 70افراد ہلاک ہوئے اور اتنے ہی افراد کو قیدی بنایا گیا۔ 35افراد تنہا مولا علی ؓ کے ہاتھوں مارے گئے۔ علیؓ اکیلا ہزاروں پہ خاک ڈال گیا۔ رسولؐ خدا کو ابو جہل کی ہلاکت کی خبر سننے کا انتظار تھا چناں چہ آپؐ نے اسکی ہلاکت کی خبر سنتے ہی فرمایا :’’ اے میرے رب! تو نے مجھ سے کیا ہوا وعدہ پورا کر کے دکھایا‘‘۔ ابو جہل دو نو عمر نوجوانوں معاذؓ بن عمرو اور معاذؓ بن عفرائ کے ہاتھوں مارا گیا اور ابھی اسکی جان میں جان تھی، جب  عبداللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر تن جدا کر دیا۔دوسرا شخص، جس پر رسولؐ خدا نے نفرین کی تھی اور اس کی ہلاکت کے خواہاں تھے، نوفل بن خویلد تھا جو علی ؓ کے ہاتھوں مارا گیا۔ نوفل کی ہلاکت پر رسولؐ اللہ نے تکبیر کہی اور فرمایا:  ’’ خدا کا شکر جس نے میری دعا مستجاب فرمائی‘‘ ۔ جنگ بدر جو نصف روز سے زیادہ جاری نہ رہی صدر اول کا ایک اہم ترین واقعہ ثابت ہوئی، یہاں تک کہ رسولؐ خدا نے فرمایا: ’’ کبھی بھی شیطان اتنا عاجز اور چھوٹا نہ تھا جتنا کہ روز عرفہ کو عاجز اور چھوٹا ہو جاتا ہے، سوائے یوم بدر کے‘‘۔ مشرکین قریش کے باقی ماندہ مال و متاع کو رسولؐ خدا کے حکم پر اکٹھا کیا گیا اور شہداء کی تدفین اور مشرکین کی لاشین ’’ قَلیب‘‘ نامی کنویں میں پھینکنے کے بعد آپ ؐ نے مشرکین کی لاشوں مخاطب ہو کر بعض جملے ادا کئے اور فرمایا کہ ’’ وہ آپ ؐ کا کلام بخوبی سنتے ہیں ‘‘۔ رسولؐ اللہ کے حکم پر عاص بن ہشام کو شعب ابی طالب میں مسلمانوں کی قلعہ بندی کے دوران قابل قدر خدمات کی وجہ سے اور بنو ہاشم کے چند افراد کو جنگ میں جبری شمولیت کی بنا پر، نیز دو یا تین دیگر افراد کو، سزائے موت سے معاف رکھا گیا۔ باقی قیدی مدینہ میں مسلمانوں کے درمیان تقسیم کئے گئے اور رسولؐ خدا نے ان کے ساتھ نیک رویہ روا رکھنے کی ہدایت کی۔ بعد ازاں عباس بن عبد المطلب سمیت زیادہ تر افراد کو فدیہ لے کر رہا کر دیا گیا اور باقی افراد جو نادار اور پڑھے لکھے تھے نے زید بن ثابت اور انصار کے فرزندوں کو پڑھائی لکھائی سکھانے کے عوض رہا ہوئے جبکہ کئی افراد فدیہ ادا کئے بغیر رہا کئے گئے۔ رسولؐ خدا تین دن تک بدر میں رہے اور بعد ازاں زید بن حارثہ اور عبد اللہ بن رواحہ کو ’’ اثیل‘‘ کے علاقے سے مدینہ روانہ کیا تا کہ مسلمانوں کی فتح کی خبر اہلیان مدینہ تک پہنچا دیں۔
جنگ بدر کی صدائے بازگشت مدینہ میں مسلمانوں اور یہودیوں اور منافقین کے درمیان بھی وسیع سطح پر سنائی دی ۔ مسلمانوں کی یہ کامیابی اس قدر عظیم اور اہم تھی کہ نہ صرف مسلمان بلکہ زیادہ تر یہودی اور منافقین زید بن حارثہ اور عبد اللہ بن رواحہ کی دی ہوئی خبر پر یقین نہیں کر پائے ۔ مدینہ کے عوام ’’ روحا‘‘ کے علاقے میں آئے اور بدر میں حاصل ہونے والی فتح کے سلسلے میں حضرت محمدؐ کو تبریک و تہنیت پیش کی اور جو لوگ اس جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے انھوں نے آپ ؐ سے معذرت کر لی ۔ مدینہ میں جنگ بدر کے دیگر نتائج میں سے ایک یہ تھا کہ انصار اپنے یہودی حلیفوں کے سلسلے میں فکرمند ہوئے اور ان سے کہا :’’ قبل اس کے کہ تمہیں بھی اسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے ، جس کا بدر میں قریش کو سامنا کرنا پڑا ، اسلام قبول کرو‘‘۔ ابو سفیان نے مشرکین کا غیظ و غضب مشتعل رکھنے کی غرض سے انہیں مقتولین کے لئے رونے دھونے اور مرثیہ گوئی سے روک دیا۔ لیکن مکہ ایک مہینے تک غم و اندوہ میں ڈوبا رہا اور کوئی بھی گھر ایسا نہ تھا مگر یہ کہ وہاں بدر کے ہلاک شدگان کے لیے مرثیہ خوانی نہ ہوئی ہو۔ قریش نے اپنے مقتولین کے لئے بہت سارے غم انگیز اشعار کہے جو تاریخ و ادب کی کتابوں میں منقول ہیں۔ خاندان رسولت کے ساتھ امویوں کی اس دشمنی اور کینہ و بغض مشہور ہے اور اس کا عروج واقعہ کربلا  میں دیکھنے میں آیا اور جب سید الشہدائؓ کا سر مبارک یزید بن معاویہ کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے صراحت کے ساتھ بدر کے قریشی ہالکین کا بدلہ لینے کا اعتراف کیا اور وحی کا انکار کر دیا۔
قرآن کریم کی سورت آل عمران کی آیات 12 اور 13 اور 123 سے 127 میں ، سورت نسائ کی آیات 77 اور 78 میں اور سورت انفال انفال کی آیات 1 سے 19 تک اور 36 سے 51 تک نیز آیات 67 سے 71 تک، میں غزوہ بدر کی طرف اشارہ ہوا ہے اور اس کو یوم الفرقان کا نام دیا گیا ہے۔ ان آیات کریمہ میں مشرکین کے لاحاصل اقدامات کو سابقہ اقوام بالخصوص آل فرعون سے تشبیہ دی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ اس جنگ میں کفار و مشرکین کی شرکت شیطان کے مکر و فریب کا نتیجہ تھی ۔
ارشاد قرآنی کے مطابق بعض مسلمانوں نے جہاد میں شرکت کرنے سے انکار کیا ، جب کہ خداوند متعال مسلمانوں کا حامی و ناصر تھا اور اس نے کافروں کے دل پر لرزہ طاری کیا اور مسلمانوں کی نظروں میں ان کی تعداد کم دکھائی دی اور اس نے بارش بھیج دی اور دیگر اقدامات کئے اور یوں کامیابی کو مسلمانوں کا مقدر کیا ۔ سب سے زیادہ اہم اور زیادہ صریح و روشن یہ کہ بدر کے دن فرشتے مسلمانوں کی مدد کو آئے اور ان کے مسلمانوں کے لئے تقویت قلب کا سبب ہوئے ۔اس جنگ نے ثابت کر دیا کہ کافر کو شمشیر پر بھروسہ ہوتا ہے
جب کہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
مومن کی نظر ظاہری اسباب پر نہیں اپنے رب پر ہوتی ہے۔ اس کا جہاد کشور کشائی کے لیے نہیں ہوتا ، شہادت کے لیے ہوتا ہے۔ مسلمان حلقہ یاراں میں ابریشم کی طرح نرم ہوتا ہے لیکن رزم حق و باطل میں فولاد جیسا ۔ وہ نتائج کی پروا کیے بنا بے خطر آتش نمرود میں کود پڑتا ہے۔
آج امت مسلمہ جس ذلت سے دو چار ہے اس کا واحد حل
اقبال نے پہلے سمجھا دیا تھا
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
صفدر علی حیدری

جواب دیں

Back to top button