آذربائیجان اور حب الوطنی کی جنگ

تحریر : امتیاز عاصی
قوموں کی آزادی کا راز جہد مسلسل اور قربانیوں سے عبارت ہے ۔جب تک کوئی قوم اپنی آزادی کے لئے جدوجہد نہیں کرتی اور اس مقصد کے حصول کے لئے قربانیاں نہیں دیتی آزادی اس کے لئے خواب بن جاتا ہے ۔تاریخ انسانی پر نظر ڈالیں تو بہت سی اقوام نے آزادی کے حصول کے لئے جان ومال کی قربانی کی تاریخ رقم کی ۔چنانچہ اسی نوع کی آزادی کی جدوجہد آذریوں نے آرمینیاء سے اپنے مقبوضہ علاقے نگورنو کاراباخ کو آزاد کرانے کے لئے برسوں جدوجہد جاری کی بالاآخر آرمینیاء آذربائیجان کے مقبوضہ علاقے نگورنو کاراباخ کی آزادی پر رضامند ہو گیا۔ تاہم امن معاہدے پر حتمی دستخط سے قبل آذربائیجان نے آرمینیاء کے آئین میں تبدیلی کی شرط رکھ دی ہے۔آرمینیاء اور آذربائیجان کے درمیان علاقے کا تنازعہ سوویت یونین کے دور میں شروع ہوا جس میں نگورنو کاراباخ کو آذربائیجان کا خودمختار علاقہ قرار دیا گیا تھا۔آرمینیاء نے آذربائیجان کے بیس فیصد علاقے پر گذشتہ تیس سال سے قبضہ کر رکھا تھا اس دوران یواین کی سیکیورٹی کونسل نے چار قرار دادیں منظور کیں جس میں غیر مشروط طور پر آرمینیاء کی افواج کو مقبوضہ علاقے سے نکل جانے کو کہا گیا تھا۔کئی بین الاقوامی تنظیموں نے اس سلسلے میں قراردادیں منظور کئیںجن پر آرمینیاء عمل درآمد کرنے میں ناکام رہا۔اس دوران آذربائیجان نے بات چیت کے ذریعے تنازعہ حل کرنے کی کوشش کی لیکن دونوں ملکوںکے درمیان تنازعہ برقرار رہا۔آخر2020 میںآذربائیجان نے آرمینیاء کی فوجی کارروائی کا مقابلہ کرنے کے لئے جوابی حملہ کیا جس کے نتیجہ میں چوالیس روز کے بعد آذربائیجان کے صدررالہام علیوف کی قیادت میں آذربائیجان کی آرمز فورسز نے آرمینیاء سے مقبوضہ علاقے آزاد کرالئے ۔آذربائیجان کے مقبوضہ علاقے پر آرمینیاء کے قبضے کے دوران کئی شہروں اور مساجد کو مسمار کر دیا گیااور کئی مذہبی مقامات اور ثقافتی مراکز کو تباہ کر دیا گیا۔اس کے باوجود آذربائیجان نے صبروتحمل سے کام لیتے ہوئے آرمینیاء کی سول آبادی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔جنگ بندی کے باوجود آرمینیاء نے آذربائیجان کے علاقے پر اپنی گھناونی ملٹری کارروائیاں جاری رکھیں۔مقبوضہ علاقے کی واپسی کے بعد آذربائیجان نے اپنے لوگوں کی آبادی کاری کے منصوبے پر عمل درآمد کے لئے سات بلین ڈالر مختص کئے تاکہ مقبوضہ علاقے سے آزادی کے بعد لوگوں کودوبارہ آباد کیا جا سکے۔آذربائیجان نے چوالیس روزہ حب الوطنی کی اس جنگ میں نہ صرف اپنی علاقائی حدود کوبحال کیا جو بین الاقوامی اور عالمی تنظیموں کے فیصلوں کے مطابق تھے بلکہ اس کے علاقائی اور عالمی سطح پر اثرات مرتب ہوئے ۔آذربائیجان نے یہ کامیابی بغیر عالمی طاقتوںکی مدد کے بغیر حاصل کی خصوصا اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے مستقل اراکین اور فوجی تنظیموں کی مدد کے بغیر حاصل کی جو یقینی طور پر کامیاب متوازن سفارتی پالیسی پر مکمل کاربند رہنے، صحیح راستے کا انتخاب اپنی فوجی طاقت میں اصولی اضافہ،دوستوں کا صحیح انتخاب اور صحیح وقت پر درست اقدام کی وجہ سے حاصل ہوئی۔دوسری طرف اس چوالیس روزہ جنگ بعد ازاں بین الاقوامی تعلقات اور عالمی سطح کے پہلو سامنے آئے۔ چنانچہ 23 ستمبر 2021 ء کو آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے اقوام متحدہ کی جنرل کونسل کے 76 اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سیکورٹی کونسل کی قرادادوں پر عمل درآمد کے لئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سیکورٹی کونسل کی قرار دادیں جو آرمینیا پر پابندیاں لگانے سے متعلق تھیں اور اوایس سی ای کی آرمینیاء کی جارحیت روکنے کے اقدامات اٹھانے پر ناکامی کی وجہ سے آرمینیا کو دوبارہ جنگی اقدامات کا موقع ملا۔ ترکیہ کے صدر طیب اردگان جو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے غیر موثر انتظامات اور اقدامات پر کافی عرصہ سے تنقید کرتے آرہے ہیں ان کا کہنا تھا ( یہ دنیا پانچ سے زیادہ ہے ) انہوں نے سلامتی کونسل میں اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ اپنے مقصد کی تکمیل میں ناکام ہو گیا ہی اور بتدریج ایک غیر فعال ادارہ بنتا جا رہا ہے ۔اقوام متحدہ کی جنرل اسبملی کے موقع پر اعلیٰ سطحی مباحثے میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کونسل کے پانچ مستقل ارکان کے حوالے سے کہا
کہ دنیا محض انہی ملکوں پر مشتمل نہیں ہے اور عالمگیر انصاف کو ان چند ممالک کی خواہش پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں ایک سال سے جاری اسرائیلی حملوں میں ہزاروں فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ علاقہ دنیا میں خواتین اور بچوں کو سب سے بڑا قبرستان بن گیا ہے ۔سوویت یونین سے آزادی حاصل کرنے والی دو سابق ریاستوں آذربائیجان اور آرمینیاء نے نگورنو کاراباخ کے بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔اکتوبر 2023ء میںنگورنوکاراباخ میں آذربائیجان نے ایک بار پھر آپریشن شروع کیاجس کے نتیجہ میں نگورنوکاراباخ کے علیحدگی پسند غیر مسلح ہونے پر مجبور ہو گے۔دونوں ملکوں کے درمیان 1980ء سے سرحدی علاقے نگورنو کاراباخ کا تنازع چلا آرہا تھا۔آذربائیجان 1991ء میں آزاد ہوا تھا کیمونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل میخائل گورباچوف کی سیاسی پالیسوں کے نتیجہ میں سوویت یونین اور بالعموم نگورنو کاراباخ میں بے چینی تھی اس دوران ایاز مطالی بوف نے آذربائیجان کے صدر کا حلف اٹھایا اور 18اکتوبر 1991ء کو آذربائیجان کی آزادی کا اعلان کیا۔ آذربائیجان مشرقی یورپ اور جنوبلی ایشیاء کی سرحد پر ایک تاریخی اور جغرافیائی علاقہ ہے ۔دونوں ملکوں کے درمیان جاری کشیدگی کے دوران پندرہ لاکھ سے زیادہ آذری مارے گئے اور بیس لاکھ کے قریب لوگوں کو آرمینیاء چھوڑنا پڑا۔ آذربائیجان کی حکومت چوالیس روزہ جنگ کے دوران پاکستان کی اخلاقی اور سفارتی مدد کی تعریف کی ہے ۔دونوں برادر ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات چلے آرہے ہیں ۔پاکستان سے فنی ماہرین اور رئیل اسٹیٹ سے وابستہ لوگوں کی خاصی تعداد آذربائیجان کے دارلحکومت باکو میں خدمات سرانجام دے رہی ہے۔آذربائیجان قدرتی طور پر تیل کی دولت سے مالا مال ہے ۔کئی ماہ پہلے آذربائیجان کے صدر الہام علیوف پاکستان کے دورے پر آئے اور کئی ترقیانی منصوبوں کے معاہدوں پر دستخط کئے جو دونوں برادر ملکوں کے مابین گہری دوستی کا عکاس ہیں۔آذربائیجان کے عوام اور افواج نے ایک طویل جدوجہد کے بعد آرمیینیاء سے اپنے مقبوضہ علاقے کی واپسی بغیر کسی ملک کی مدد سے حاصل کرنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔