آئیے بے روزگاری کا خاتمہ کریں

تحریر : رفیع صحرائی
ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے ہاں بے روزگار افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ترجیحات کے غلط تعین اور رہنمائی کے فقدان نے بے روزگاری میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ ہر پڑھا لکھا نوجوان سرکاری نوکری کا حصول چاہتا ہے جو کہ ممکن نہیں۔ اگر ان نوجوانوں کی کوچنگ کر کے ان کی سمت درست کر دی جائے تو یہ کبھی سرکاری نوکری کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی نہ کریں۔
پاکستان میں اس وقت آٹھ کروڑ سے زائد لوگ سوشل میڈیا کے صارف ہیں۔ جو زیادہ تر فیس بک، واٹس ایپ، انسٹا گرام، ٹویٹر، یوٹیوب اور ٹک ٹاک استعمال کرتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اچھی چیز ہے۔ آپ پوری دنیا سے جڑے رہتے ہیں۔ دنیا بھر کے اہم واقعات ،حالات کی تبدیلیوں، اہم ایجادات اور دریافتوں سے باخبر رہتے ہیں۔ مگر صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو کاروباری مقاصد یا روزگار کے لئے اپنا کر مالی فائدہ حاصل کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اب تو بڑے اداروں نے اپنے معاملات آن لائن چلانا شروع کر دیئے ہیں۔ بینکنگ کا پورا نظام آن لائن ہو گیا ہے۔ آن لائن تجارت بھی عروج پر ہے۔ اب آپ کو شاپنگ کے لئے بازار یا مارکیٹ جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آن لائن شاپنگ کی سہولت موجود ہے۔ اپنی مرضی کی چیز منتخب کر کے آرڈر کر دیں۔ کوریئر کے ذریعے سامان آپ کے دیئے گئے پتے پر پہنچ جائے گا۔ آپ کے پاس کیش آن ڈلیوری کی سہولت موجود ہوتی ہے۔ ایک ہاتھ سے سامان لیں اور دوسرے ہاتھ سے قیمت کی ادائیگی کریں۔
دیکھا جائے تو کمپیوٹر نے انسانی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ لوگ گھر بیٹھے آن لائن کام کر کے لاکھوں روپے مہینہ کما رہے ہیں۔ جتنا کام کریں گے اس کا پورا پورا معاوضہ مل جائے گا۔ اب تو ایسے جدید ترین موبائل فون بھی آ گئے ہیں جنہیں آپ منی کمپیوٹر کہہ سکتے ہیں۔ کمپیوٹر کے تمام فیچر اور فنکشن ان میں موجود ہوتے ہیں۔
مگر دیکھنا یہ ہو گا کہ ہمارے ہاں کتنے فیصد لوگ ہیں جو آن لائن کاروبار سے وابستہ ہیں۔ سروے کر کے دیکھ لیں۔ ایک فیصد لوگ بھی آن لائن کاروبار نہیں کرتے۔ یہ کس قدر المیہ ہے کہ ہماری کل آبادی کا چالیس فیصد آن لائن رہتا ہے مگر آن لائن رہ کر اس سے مالی منفعت حاصل کرنے والے ایک فیصد بھی نہیں ہیں۔ یہ قصور کس کا ہے؟
ہمارے نوجوان جو کل آبادی کا ساٹھ فیصد ہیں ، بے تحاشہ انٹر نیٹ استعمال کرتے ہیں۔ چوبیس میں سے 12سے 16گھنٹے آن لائن رہتے ہیں مگر اکثریت اس قابل بھی نہیں کہ اپنی جیب سے انٹر نیٹ کا پیکیج ہی لگوا لے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی مگر ہمارے نوجوان خوابوں کی دنیا سے ہی باہر نہیں نکل رہے۔ رات رات بھر جاگنا اور صبح دیر سے بیدار ہونا ان کی عادت بن چکی ہے۔
ہمارے ہاں تعلیم کا مقصد شعور حاصل کرنا یا شخصیت کو سنوارنا اور نکھارنا نہیں ہے۔ نہ ہی والدین اپنے بچوں کو اس مقصد کے لئے تعلیم دلواتے ہیں کہ تعلیم حاصل کر کے ان کی اولاد سلیقہ شعار بن جائے گی ۔ ہمارے ہاں 90فیصد لوگ اچھی نوکری کے حصول کے لئے اپنے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں اور نوکری بھی سرکاری ہونی چاہئے تاکہ بڑھاپے میں پنشن لگ جائے۔ حکومت کے پاس اس قدر اسامیاں نہیں ہوتیں کہ تمام لوگوں کو ملازمتیں دے سکے چنانچہ یہ نوجوان مایوس ہو کر بے راہ روی اختیار کر لیتے ہیں۔
جو شخص موبائل چلا لیتا ہے اس کے لئے کمپیوٹر سیکھنا مشکل نہیں ہوتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کی درست سمت میں رہنمائی کی جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ صرف سرکاری نوکری ہی منزل نہیں ہے۔ روزگار تو وہ گھر بیٹھے بھی کما سکتے ہیں۔ اور کام کے لئے وقت بھی اپنی مرضی سے صرف کریں۔ انسٹا گرام ، فیس بک، یو ٹیوب ، ٹک ٹاک اور واٹس ایپ کی جان چھوڑیں۔ انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کو کاروباری مقاصد کے لئے استعمال کریں۔
آج کل اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ گھر کے اندر بھی ایک ہی کمرے میں موجود چھ سات افرادٍ خانہ بیٹھے ہوتے ہیں مگر سبھی ایک دوسرے سے لاتعلق اور اجنبی بنے ہوئے اپنے اپنے موبائل فون میں مگن ہوتے ہیں۔ ہم وہ فارغ قوم بن چکے ہیں جس کے پاس سوشل میڈیا پر ضائع کرنے کے لئے وقت ہی وقت ہے مگر ایک دوسرے کے لئے پانچ منٹ بھی نہیں ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا کی رسیا اس قوم کی مثبت سمت میں رہنمائی کی جائے۔ اسی سوشل میڈیا کو ان کے لئے کمائی کا اوزار بنا دیا جائے۔ اس کام کے لئے حکومتی اور پرائیویٹ اداروں کو آگے بڑھنا چاہئے۔ سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد کرنا چاہئے۔ حکومت نوجوانوں کو آسان اقساط پر اچھی کوالٹی کے لیپ ٹاپ مہیا کرے۔ ہر شہر اور قصبے میں تربیتی ادارے قائم کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ جاب یا کام دینے والے اداروں اور فرموں تک ان نوجوانوں کی رہنمائی اور رسائی یقینی بنائے۔ اس سے نہ صرف بیروزگاری میں کمی لانے میں مدد ملے گی بلکہ نوجوان بھی اپنا وقت مثبت کاموں میں صرف کر کے ذہنی آسودگی حاصل کریں گے اور بے راہ روی سے بھی بچ جائیں گے۔ یہی نہیں، وہ خود بھی خوش حال ہوں گے اور ملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈال کر ملک کو بھی خوش حال بنانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ بس ضرورت درست سمت کے تعین کی ہے۔