رجب طیب اردوان پاکستان کی سر زمین پر

تحریر ؍ سید مجتبیٰ رضوان
پاکستان اور ترکیہ کا رشتہ صدیوں پرانا اور گہرا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف تاریخی تعلقات ہیں بلکہ سیاسی، اقتصادی، اور ثقافتی میدان میں بھی ایک مضبوط رشتہ قائم ہے۔ اس رشتہ کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ گئی جب ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان اور پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی باہمی دوستی نے نیا رنگ لیا۔ ان دونوں رہنمائوں کی ذاتی دوستی اور ان کے درمیان گہرے تعلقات نے نہ صرف دونوں ممالک کے عوام کے درمیان محبت کو فروغ دیا ہے بلکہ عالمی سطح پر ان دونوں ملکوں کی ایک نئی شناخت بھی قائم کی ہے۔
رجب طیب اردوان کا سیاسی کیریئر ایک متاثر کن داستان ہے ۔ وہ صرف ترکیہ کے صدر نہیں ہیں بلکہ ایک ایسے رہنما ہیں جو اپنے ملک کو عالمی سطح پر ایک مضبوط مقام دلانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اردوان کی شخصیت کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کی جرات مندی اور فیصلے کرنے کی صلاحیت ہے۔ انہوں نے ترکیہ کو ایک طاقتور اقتصادی اور سیاسی ملک بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے، اور اس میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ اردوان کی سیاست میں اس بات کی اہمیت ہے کہ وہ اپنے ملک کے مفادات کے لئے کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ ان کا کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی بھرپور حمایت کرنا اور عالمی فورمز پر پاکستان کی پوزیشن کا دفاع کرنا اس بات کا غماز ہے کہ وہ عالمی سطح پر اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑے رہنے کے لیے تیار ہیں۔ اردوان کی قائدانہ صلاحیتیں، ان کی سیاست میں صاف گوئی اور واضح موقف، اور اپنے عوام کے ساتھ براہ راست تعلق کی کوششیں انہیں ایک منفرد رہنما بناتی ہیں۔
شہباز شریف، جو پاکستان کے وزیراعظم ہیں، ایک کامیاب اور محنتی سیاستدان ہیں۔ وہ پاکستان مسلم لیگ ( ن) کے اہم رہنما ہیں اور ان کی قیادت میں پارٹی نے کئی اہم اصلاحات کی ہیں۔ شہباز شریف کی سب سے بڑی خصوصیت ان کی عملی سیاست اور زمینی حقیقتوں سے جڑے فیصلے ہیں۔ ان کی سیاسی حکمت عملی میں عوامی مسائل کا حل اور ترقیاتی منصوبوں پر توجہ دینا نمایاں ہے۔ شہباز شریف کو ایک موثر منتظم اور منتظم کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے پنجاب کے وزیراعلیٰ کے طور پر مختلف منصوبوں کی کامیاب تکمیل کی اور ترقیاتی شعبوں میں کئی اصلاحات کیں۔ ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے عوام کے قریب رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے مسائل کو ترجیح دیتے ہیں۔ شہباز شریف کی سیاست میں شراکت داری، عملیت پسندی، اور عوامی مفادات کو مقدم رکھنے کا عنصر واضح ہے، جس کی وجہ سے ان کی قیادت میں پاکستان کی سیاسی منظرنامہ میں ایک نیا اعتماد پیدا ہوا ہے۔ترکیہ اور پاکستان کے رہنماں کے درمیان تعلقات ہمیشہ ہی خوشگوار رہے ہیں ، لیکن اردوان اور شہباز شریف کی ذاتی دوستی نے اس رشتہ کو ایک نیا معنی دیا ہے۔ دونوں رہنما ایک دوسرے کی قیادت کی قدر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے ملک کے مفادات کے لئے ایک مضبوط حمایت کا نشان ہیں۔ اردوان اور شہباز شریف کے تعلقات میں جو خاص بات ہے وہ یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے تجربات اور کامیابیوں کا احترام کرتے ہیں۔ شہباز شریف نے کئی بار اردوان کی قیادت اور ترکیہ کی ترقی کی تعریف کی ہے اور ان کے ساتھ تعاون کے امکانات کو ہمیشہ اہمیت دی ہے۔ دوسری طرف، اردوان نے بھی پاکستان کے معاشی چیلنجز میں اس کی مدد کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
دونوں رہنمائوں نے ہمیشہ اپنے ممالک کے درمیان سیاسی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ شہباز شریف کے دور حکومت میں ترکیہ کے ساتھ مختلف سطحوں پر بات چیت ہوئی اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے موقف کو عالمی سطح پر مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کے امکانات کو بڑھانے کے لئے کئی مشترکہ منصوبے شروع کیے گئے ہیں، خاص طور پر دفاعی شعبے میں۔ ترک کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دینا اور اقتصادی تعلقات کی مزید مضبوطی دونوں رہنماں کی ایک اہم کوشش ہے۔ دونوں رہنماں کی ذاتی دوستی نے دونوں ممالک کے عوام کے درمیان ثقافتی تعلقات کو مزید فروغ دیا ہے۔ ترکیہ کے صدر کی پاکستان میں ثقافتی اور تاریخی اہمیت پر بات چیت اور دونوں ملکوں کے درمیان ثقافتی تبادلوں نے عوامی سطح پر محبت اور احترام کو مزید بڑھایا ہے۔پاکستان کو تسلیم کرنے والے ممالک میں ترکی صف اول میں شامل تھا جب دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کا قیام عمل میں آیا تو ترک سفیر کی اسناد وصول کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے دونوں ممالک کے مابین موجود روحانی، جذباتی اور تہذیبی رشتوں کا بالخصوص ذکر کیا۔ ترکی دنیائے اسلام کا واحد ملک ہے جس سے ہمارے انتہائی گہرے مراسم گزشتہ 70سال سے تسلسل سے قائم ہیں۔ ترکی اور پاکستان میں دوستی کا باضابطہ معاہدہ 1951ء اور باہمی تعاون کا معاہدہ 1954ء میں وجود میں آیا جس کے الفاظ کچھ یوں تھے ’’ ترکی اور پاکستان کے درمیان دوستی کے جذبے کے ساتھ طے پایا ہے کہ سیاسی، ثقافتی اور معاشی دائروں کے اندر اور اس کے ساتھ امن اور تحفظ کی خاطر ہم زیادہ سے زیادہ دوستانہ تعاون حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہیں گے‘‘۔
گزشتہ دنوں وزیراعظم شہباز شریف کی دعوت پر ترکیہ کے صدر رجب طیب اِردوان 2روزہ دورے پر پاکستان پہنچے تھے، جہاں نور خان ایئر بیس پر صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف، وزیر خارجہ اور دیگر وفاقی وزرا و حکام نے ان کا استقبال کیا۔ ان کے اعزاز میں سلامی بھی دی گئی، دونوں ممالک کے قومی ترانے بھی پیش کیے گئے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے مہمان خصوصی کو وفاقی کابینہ کے اراکین سے فرداً فرداً ملاقات بھی کرائی۔ بعد ازاں ترک صدر رجب طیب اردوان سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی ملاقات کی اور انہیں خوش آمدید کہا۔ اس کے علاوہ ترک صدر کو ایف سولہ طیاروں کی فارمیشن نے فلائی پاسٹ پیش کر کے معزز مہمان کو سلامی دی۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کو 21توپوں کی سلامی بھی دی گئی تھی۔
رجب طیب اردگان کی پاک فوج سے محبت صرف ایک سیاسی رشتہ نہیں بلکہ ایک گہری عقیدت اور بھائی چارے کا مظہر ہے۔ ان کا ہمیشہ یہ پیغام رہا ہے کہ پاکستان اور ترکیہ کے فوجی ایک دوسرے کے لیے بہادری، وفاداری اور حمایت کی علامت ہیں۔ یہ محبت دونوں ممالک کی قومی سیاست اور عوامی تعلقات کا ایک اہم جزو بن چکی ہے، جو نہ صرف دفاعی سطح پر بلکہ ثقافتی اور سماجی سطح پر بھی اپنی اہمیت رکھتی ہے۔ اردوگان کی پاک فوج کے ساتھ محبت اور احترام کا یہ رشتہ آئندہ بھی دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات کی ضمانت بنے گا۔
شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد، پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک نیا جوش نظر آیا اور ترکی کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دی گئی۔ شہباز شریف نے اردوان کے دور حکومت کو ایک خوش آئند موقع سمجھا اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعلقات بڑھانے کی بھرپور کوشش کی۔ خاص طور پر شہباز شریف نے ترکی کے ساتھ دفاعی صنعتوں، انفراسٹرکچر اور توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کے امکانات پر زور دیا۔ شہباز شریف کے دور میں پاکستان نے ترک کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے مدعو کیا اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم بڑھانے کے لیے مختلف تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے۔ اس کے علاوہ، شہباز شریف نے ترکی کی مدد سے پاکستان میں عوامی سطح پر کئی منصوبوں کو کامیابی سے مکمل کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان اور ترکی کے تعلقات تاریخی اور گہرے ہیں۔ دونوں ممالک نے کئی بار ایک دوسرے کی حمایت کی ہے، خاص طور پر عالمی فورمز پر جہاں دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی پوزیشن کا دفاع کیا۔ شہباز شریف کے دور حکومت میں اور اردوان کے رہنمائی میں پاکستان اور ترکی کے تعلقات میں مزید گہرا تعلق نظر آیا ہے۔ مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات مزید مستحکم ہونے کی توقع ہے، کیونکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے لیے اہم اقتصادی اور سیاسی پارٹنر ہیں۔ ترک کمپنیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری اور دفاعی شعبے میں تعاون کی مضبوطی دونوں ممالک کے تعلقات کی بنیاد بن سکتی ہے۔پاکستان اور ترکی کے درمیان مختلف شعبوں میں کئی معاہدات ہوئے ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی، ثقافتی، دفاعی، اور دیگر اہم تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے کیے گئے ہیں۔ ان معاہدات میں دفاعی، اقتصادی، ثقافتی، توانائی، ماحولیاتی، سائنس و ٹیکنالوجی، اور کثیر الجہتی تعاون شامل ہیں۔ دفاعی شعبے میں پاکستان اور ترکی کے درمیان متعدد معاہدات ہوئے ہیں، جن میں 1954 کا دفاعی تعاون کا معاہدہ اہم ہے، جس کے تحت دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی دفاعی سلامتی کی حمایت کرنے کا عہد کیا۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی فوجی تربیت میں تعاون کیا اور مشترکہ فوجی مشقیں بھی منعقد کیں۔ مزید برآں، 2000ء کی دہائی میں ترکی نے پاکستان کو جدید ہتھیاروں اور دفاعی ٹیکنالوجی کی فراہمی کے لیے معاہدہ کیا، جبکہ پاکستان نے ترکی کو اسلحہ سازی میں مدد فراہم کی۔ اقتصادی اور تجارتی شعبے میں پاکستان اور ترکی نے 2004ء میں ایک فری ٹریڈ ایگریمنٹ (FTA)طے کیا، جس کے ذریعے تجارتی رکاوٹیں کم کرنے اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت بڑھانے کی کوشش کی گئی۔ اس کے علاوہ، دونوں ممالک نے سڑکوں کی تعمیر، پانی کے منصوبوں، اور توانائی کے شعبے میں اقتصادی ترقیاتی منصوبوں پر بھی کام کیا۔ ثقافتی شعبے میں پاکستان اور ترکی نے 1970 ء کی دہائی میں ثقافتی تعاون کا معاہدہ کیا، جس کے تحت دونوں ممالک نے ثقافتی تبادلے، تعلیمی پروگراموں اور فنون و ثقافت کے شعبوں میں تعاون بڑھایا۔ ترکی نے پاکستانی ثقافت، ادب، اور فنون کو اپنے میڈیا اور تعلیمی اداروں میں فروغ دینے کے لیے مختلف اقدامات کیے۔ توانائی اور ماحولیاتی شعبے میں بھی دونوں ممالک نے اہم معاہدات کیے ہیں، جن میں قدرتی گیس، تیل اور بجلی کی فراہمی کے لیے تعاون اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے اقدامات شامل ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں دونوں ممالک نے تحقیق اور ترقی کے لیے کئی معاہدات کیے، جن میں خلائی تحقیق، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور حیاتیاتی سائنسز شامل ہیں۔ کثیر الجہتی سطح پر بھی پاکستان اور ترکی نے اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر عالمی فورمز پر ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے، جہاں دونوں ممالک نے عالمی مسائل پر یکساں موقف اختیار کیا اور اسلامی دنیا میں یکجہتی کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ مجموعی طور پر، پاکستان اور ترکی کے درمیان معاہدات کی تاریخ ایک گہری دوستی اور باہمی احترام پر مبنی ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی، دفاعی، ثقافتی اور سیاسی تعلقات کو مستحکم کرنے کی سمت میں کام کر رہے ہیں اور ان کا مقصد نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مستحکم کرنا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی تعاون بڑھانا ہے۔
پاکستان اور ترکی کے تعلقات، رجب طیب اردوان کے دوروں اور شہباز شریف کے دور حکومت میں مزید گہرے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی حمایت کی ہے اور مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دیا ہے۔ اگر دونوں ممالک اس تعلق کو اسی طرح بڑھاتے رہیں، تو یہ دونوں کے لیے ایک فائدے مند شراکت داری ثابت ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ پاک ترک دوستی کو کسی دشمن کی نظر نہ لگے قیامت تک جاری و ساری دوستی رہے اور دن بدن ترقی کرے ( آمین)۔
پاک ترک دوستی زندہ باد
سید مجتبیٰ رضوان