یکساں نصاب ایک خواب

تحریر : صفدر علی حیدری
ایک دیہاتی روزی کمانے برطانیہ گیا۔ وہاں ہر ایک کو فرفر انگریزی بولتا دیکھ کر بڑا حیران ہوا۔ جب کوئی سال بعد وہ گھر لوٹا تو اس نے یہ بات حیران ہو کر بتائی ’’ وہاں کا تو بچہ بچہ انگریزی بولتا ہے ‘‘۔ اس کا باپ بے ساختہ بولا’’ پتر ہمارا بچہ بچہ بھی تو سرائیکی بول لیتا ہے ‘‘۔ انگریزوں کی غلامی کا احساس آج تک ہمارے دلوں پر مسلط ہے۔ ہم انگریزی زبان سے اس حد تک مرعوب ہیں کہ کسی کا ٹیسٹ لینا ہو تو انگریزی کا کوئی سوال پوچھتے ہیں۔ کسی کو انگلش بولتا دیکھیں تو اسے عالم سمجھ لیتے ہیں۔ اس کی بات پلے پڑے نہ پڑے سر ہلا کر اس کی کہی ہر بات پر ایمان لے آتے ہیں۔ زبان ایک ذریعہ اظہار ہی تو ہے۔ اس پر فخر کرنا کہاں کی شرافت ہے۔ اپنی زبان کو چھوڑ کر کسی اور زبان کو اہمیت دینا کون سا مستحسن قدم ہے؟ اور کوئی بھی زبان سیکھنا کون سا کوئی مشکل امر ہے۔ کسی بھی قوم میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ڈھائی تین سال میں وہ زبان سیکھ لیتا ہے۔ ہر بچہ ایک جیسی صلاحیت کا حامل نہیں ہوتا مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی بچہ اپنی کم عقلی کے سبب اپنی ماں بولی نہ سیکھ سکے۔ وہ نہ مدرسے جاتا ہے، نہ کوئی کتاب اٹھاتا ہے، نہ کسی اکیڈمی جاتا ہے، نہ کسی سے کوچنگ لیتا ہے مگر فرفر بولتا ہے۔
گویا زبان سیکھنے کے لیے کتاب کی ضرورت ہوتی ہے، نہ مدرسے کی نہ کسی استاد کی۔ زبان سن کر سیکھی جاتی ہے اور بول کر اس کی مشق کرتے کرتے بچہ وہ زبان فرفر بولتا شروع کر دیتا ہے۔ گویا یہ سارا عمل سننے اور مشق کرنے سے عبارت ہے۔ لیکن ہمارے یہاں تعلیمی اداروں میں ہوتا یہ ہے کہ بچوں کو کتاب پکڑا دی جاتی ہے۔ اسے لکھنا سکھایا جاتا ہے۔ اسے لٹریچر پڑھایا جاتا ہے۔ اسے گرامر پڑھایا جاتا ہے۔ اسے روایتی مضامین کہانیاں اور خط درخواستیں لکھنا سکھایا جاتا ہے۔ سو وہ بچہ نہ انگریزی ٹھیک سے سمجھ پاتا ہے نہ بول پاتا ہے۔ ایم اے انگریزی کرنے والے طالب علم کو بھی اگر چند جملے بولنے پڑ جائیں تو اس کی سانسیں پھول جاتی ہیں۔ کمزور طالب کے لیے تو خیر انگریزی ایک ڈرائونا خواب بن جاتی ہے۔ وہ کہتا دکھائی ہوتا ہے کہ فیل ہونے کے لیے بھی تو ایک مضمون ہونا چاہیے۔
میرا بیٹا شاید تیسری چوتھی جماعت کا طالب علم تھا۔ اس کا نصاب انگریزی میڈیم میں تھا۔ ایک دن میں نے اسے دیکھا وہ روٹ سسٹم یاد کر رہا تھا۔ اس نے کوئی دو گھنٹے میں تین باتیں یاد کیں۔ روٹ زمین کے اندر ہوتی ہے۔ یہ پودے کو سہارا دیتی ہے۔ اس کا کام پودے کو پانی اور نمکیات فراہم کرنا ہے۔ اب اگر یہی تین باتیں اسے اردو میں سمجھائی جاتیں تو وہ شاید دو منٹ میں سمجھ جاتا یاد کر لیتا مگر۔۔ اس کا کیا کیا جائے کہ ہمارے یہاں انگریزوں اور انگریزی کا چلن اس قدر عام ہو چکا ہے کہ ہم نے اپنی بچوں کو مصیبت میں ڈال رکھا ہے۔
آج تک ہمارے ماہرین نصاب کو اس بات میں فرق پتہ نہیں چلا کہ انگریزی میں تعلیم اور انگریزی کی تعلیم میں فرق کیا ہے۔ سو بچوں کی ستر فی صد صلاحیت بدیسی زبان سیکھنے میں ضائع ہو جاتی ہے۔ اس سے ہوتا یہ ہے کہ تعلیم کا معیار گر جاتا ہے۔ میں اس بات کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں۔ فرض کریں آپ کو کسی بچے سے بات کرنی ہے۔ آپ اس سے کس زبان میں بات کریں گے۔ اس میں جو آپ کو آتی ہے یا اس میں کو بچے کو ٹھیک سے سمجھ میں آتی ہے۔ ظاہر ہے جو بچے کو آتی ہے۔ یہاں المیہ یہ ہے کہ ہم بچے کو اس زبان میں تعلیم دینا چاہتے ہیں جو بچے کو سمجھ آتی ہے نہ ٹھیک سے پڑھانے والے کو آتی ہے۔ سو تانگا گھوڑے کے آگے جوتنے کی مشق ستم جاری ہے۔ جبھی تو معیار تعلیم گرتا چلا جاتا ہے ۔ سو’’ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ ‘‘، میرے دوست سر سیف الرحمان ایک ہائر سکینڈری اسکول چلاتے ہیں ۔ وہ بتا رہے تھے کہ ایک دن میں نے اپنے ایک دوست کے بیٹے سے بات کی جو دبئی میں پڑھتا ہے اور جماعت چہارم کا طالب علم ہے۔ اس کی انگریزی نے انھیں بڑا متاثر کیا۔ بچے نے یہ بتا کر ان کو مزید حیران کر دیا کہ اس سے فرنچ میں بات کی جائے، کیوں کہ اس کی انگریزی اتنی اچھی نہیں ہے۔ وہاں بچوں کو تین بین الاقوامی زبانیں لازماً سکھائی جاتی ہیں۔ ماہرین لسانیات کے بقول پانچ سال کا بچہ تین زبانیں بآسانی سیکھ سکتا ہے۔ ہمارے یہاں بچہ اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ وہ بھی تو مادری اور قومی زبان سے عربی سیکھ لیتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیا کیوں جائے۔ اس کی ضرورت کیوں پیش آئے کہ وہ زبان سیکھنے میں اپنا قیمتی وقت ضائع کرتا رہے۔ بچوں کو صرف اور صرف ان کی قومی زبان میں تعلیم دی جائے۔ جیسے ہمارے وقت میں ہوا کرتا تھا۔ انگریزی کو چھٹی جماعت کے نصاب میں شامل کیا جاتا تھا۔ ہم خود ہی اپنی کوشش سے بنا استاد کے چھٹی تک پہنچتے پہنچتے انگریزی کے حروف تہجی لکھنا پڑھنا اور بولنا سیکھ جاتے تھے۔
یکساں نصاب میں سب سے بڑی رکاوٹ زبان ہی ہے اور انگریزی زبان ہے۔ اگر ہمیں اپنے سارے بچوں کو بارہ سال کی یکساں تعلیم دینی ہے تو ہمیں کسی ایک زبان کا انتخاب کرنا ہو گا۔ اب بچہ چاہے مدرسے میں پڑھتا ہو، سرکاری اسکول میں یا کسی پرائیویٹ ادارے میں، سب کو ایک جیسی تعلیم دی جائے۔ اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔ زیادہ سے زیادہ ایک احتیاط کرنی ہو گی کی اصلاحات کو انگریزی میں لکھا جائے گا تاکہ بچہ ان سے مانوس ہو سکے۔ باقی سمجھانے کا کام اس کی اپنی زبان میں کیا جائے۔ بچے کو جب بات سمجھ آئے گی تو اس سے اس کی تعلیم میں دل چسپی بڑھے گی۔ وہ سبق آسانی سے یاد کر پائے گا۔ اس کے مارکس اچھے آئیں گے۔ معیاری تعلیم دینے سے معیار تعلیم بلند ہو گا۔
یکساں نصاب کی راہ میں زبان کے بعد ایک اور بڑی رکاوٹ ہمارے نام نہاد پرائیویٹ ادارے بھی ہیں، جو بدیسی نصاب کے نام پر عوام کی جیبیں صاف کرتے اور اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ اگر یکساں نصاب نافذ ہو جائے تو ان کی دکانیں بند ہو جائیں ۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ماہرین جو نصاب مرتب کرتے ہیں انہوں نے کبھی اساتذہ سے رائے لینے یا جاننے کی کوشش ہی نہیں کی، ان کو کیا کیا مسائل درپیش ہیں۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ میٹرک کی تعلیم تک ہر بچے کو کوئی نہ کوئی فنی تعلیم ضرور دی جائے تاکہ اگر وہ مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکیں تو وہی تعلیم ان کے لیے روزی کمانے کا ذریعہ بن سکے۔ ہمارے طالب علمی دور میں آرٹس کے طلبا کے لیے لکڑی، لوہا، بجلی، ڈرائنگ وغیرہ کی تعلیم دی جاتی تھی، ہمارے یہاں سائنس کو ایک کتابی علم کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ پریکٹیکل کے ذریعے عملی تعلیم دینے کا قطعاَ کوئی رواج نہیں ہے۔ بچوں کو تجربات کروا کر تعلیم دی جائے تو اس سے ان کی سائنس میں دلچسپی بڑھے گی اور فہم میں اضافہ ہو گا۔
نصاب جتنا اچھا بنایا جائے تب تک سود مند ثابت نہیں ہوتا جب تک تربیت یافتہ اساتذہ دستیاب نہ ہوں۔ سو ان کی تربیت کا مناسب انتظام کیا جائے اور مضامین کے حوالے سے امدادی کتب فراہم کی جائیں۔ نصاب کو زیادہ سے زیادہ افادہ بنایا جائے۔ ایم سی کیوز اور مختصر سوالات کے ذریعے امتحان لیا جائے تاکہ بچہ آسانی سے تیاری کر سکے اور رٹے بازی کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔
آخر میں یہی کہا جائے گا کہ دنیا کی کسی قوم نے بدیسی زبان میں پڑھ کر ترقی نہیں کی۔ ہمارے پیچھے رہ جانے کی بھی شاید یہی وجہ ہے، ترقی کا خواب یکساں نصاب کے بنا ممکن نہیں ہے۔ نصاب بھی وہ جو جدید تقاضوں کے مطابق ہو اور قومی زبان میں مرتب کیا جائے۔ جس میں سائنس کو عملی پر پڑھایا جایا اور کوئی نہ کوئی ہنر بھی ساتھ ساتھ ضرور سکھایا جائے ۔
آخر میں ایک شعر
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے