Column

ویلنٹائن ڈے بے حیائی کا تہوار

تحریر : علامہ عبد الخالق فریدی
صدیوں پہلے کسی عیسائی ریاست کے ایک بد کردار پادری نے ریاست کے کلیسا کی ایک راہبہ کو اپنے عشق کے چنگل مین پھنسایا اور اسے اپنی غیر شرعی محبت میں گرفتار کرنے کے بعد بدکاری پر آمادہ کرنا شروع کر دیا کیونکہ یہ شیطانی کام ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کیونکہ وہ بے حیائی اور ناپسندیدہ کاموں کے کرنے کا حکم دیتا ہے‘‘۔
پادری پر چونکہ شیطنت سوار تھی وہ اپنی کوششوں میں لگا رہا اس نے بدکاری کو جواز بخشنے کی ایک راہ نکالی اور راہبہ سے کہا اگر ہم 14فروری کو بدکاری کا ارتکاب کر لیں تو ہم پر کوئی حد جاری نہیں ہوگی اور نہ ہی کوئی گناہ ہوگا۔ چنانچہ راہبہ نے اس کے بہکاوے میں آکر پادری کے ساتھ منہ کالا کرلیا بادشاہ وقت کو جب پتہ چلا تو اس نے پادری اور راہبہ دونوں کو کلیسا کی عدالت کے حوالے کر دیا کلیسا کے چیف پوپ پال نے دونوں کو موت کی سزا سنا دی اور دونوں کو جیل میں بند کر دیا پادری ویلنٹائن نے جیل میں بھی اپنے خبث باطن اور شیطانی فطرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جیلر کی بیٹی کے ساتھ عشق و عاشقی کی پینگیں بڑھانا شروع کر دیں اور اس کو خطوط لکھنے کا سلسلہ شروع کر دیا ریاست نے اس بے حیائی اور بے غیرتی کے دروازے کو بند کرتے ہوئے پادری ویلنٹائن کو 14فروری کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔ پادری کے ہمدردوں نے پہلے پہل اس دن کو سوگ کے طور پر منانا شروع کیا اور کئی سو سال تک یہ سلسلہ جاری رہا پھر یہودیوں کی انتہا پسند تحریک صیہونیت جس کا بنیادی مقصد مسلم ملکوں میں بے حیائی ، بے غیرتی بدکاری ، آزادانہ جنسی اختلاط بلوغت سے قبل مسلم طلباء و طالبات میں جنسی تعلیم مخلوط تعلیمی اداروں کے قیام تھا۔ نے ایک سازش اور بھرپور پلاننگ کے تحت اس دن کو ’’ عالمی یوم محبت‘‘ کے طور پر منانے کا آغاز کیا پہلے پہل اسے یورپی ممالک میں فروغ دیا گیا اور مذہبی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی چونکہ یورپ کی اکثر ریاستیں مسیحی مذہب رکھتی ہیں ان کے مذہبی عوام کو پادری کے ایک مذہبی رہنما ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ ہمدردی پیدا ہو گئی اور اس دن کو فروغ ملا، آہستہ آہستہ اسی دن کو اس کی تمام تر رعنائیوں زیبائیوں اور شیطانی افکار و کردار کے ساتھ مسلم ملکوں میں پھیلا دیا گیا تیس سال قبل مسلم معاشروں میں اس دن کا کوئی وجود نہیں تھا اور نہ اس کا چرچا بلکہ معاشرے اس قدر معیاری تھے اگر کوئی شخص برائی کا ارتکاب کرتا تو لوگوں کی ناپسندیدہ نظروں کا شکار ہونے سے بچنے کے لئے وہ علاقہ چھوڑ کر دوسرے علاقے میں آباد ہوجاتا مگر آج شیطانی تہذیب نے مسلم نوجوانوں کو اپنا کس قدر گرویدہ و بدکاری کا پسندیدہ بنالیا ہے کہ 14فروری ویلنٹائن ڈے کے آنے سے دو چار ہفتے قبل ہی اس کی تیاری شروع ہوجاتی ہے سوشل میڈیا پر اس کے چرچے کے ساتھ ساتھ گلاب کے سرخ پھولوں کی بڑے پیمانے پر تیاری دکانوں پر سرخ قالین، سرخ گلاب کے سرخ پھولوں کی بڑے پیمانے پر تیار دکانوں پر سرخ قالین، سرخ پردے، سرخ واسکٹوں کی فروخت، شرٹس پر سرخ رنگ، لڑکیوں کیلئے سرخ ربن کی فراہمی اور لاکھوں کی تعداد میں سرخ کارڈز کی پرنٹنگ، جس پر واضح طور پر جلی حروف سے لکھا ہوتا ہے’’ I Love You‘‘، معاشرے کا ٹرینڈ بن چکاہے اس روز میڈیا بھی اس ناپسندیدہ عمل کو ابھارنے میں بھرپور کردار ادا کرتا ہے اور نوجوان جوڑوں کو اس کی ترغیب دلانے کے لئے کئی روز قبل باغات تفریحی مقامات اور عام گزر گاہوں کے ساتھ ساتھ مخلوط تعلیمی اداروں، کالجز، یونیورسٹیز میں چینلز کے نمائندے اور کیمرہ مین نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں سے باقاعدہ ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے انٹرویوز کرتے ا ور ذو معنی الفاظ و جملوں کے ذریعے ان کو اس بدکار دن کے منانے کے لئے تیار کرتے ہیں اور اس دن کئی ناخوشگوار واقعات رونما ہوتے ہیں۔ جس میں مارپیٹ تو عام ہے بلکہ گاہے بگاہے قتل کے اِکا دُکا واقعات بھی رونما ہوجاتے ہیں اس سے پہلے کہ ہم یہ جانیں کہ اسلامی تہذیب میں اس کا کوئی جواز ہے یا شریعت محمدیہ نے بطور مسلمان کے ہمیں یہ دن منانے کی آزادی دی ہے ہمارے آباد و اجداد اسلاف کرام اس بارے میں کیا نقطہ نظر رکھتے تھے ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ بے حیائی کی تاریخ کتنی پرانی ہے، رسول اکرمﷺ کی آمد سے قبل جزیرہ العرب بطور خاص اور عام ممالک بطور عام بے حیائی کے مکروہ مناظر پیش کر رہے تھے جہاں مذہبی و اخلاقی اقدار کا کوئی گزر نہیں تھا جزیرہ العرب کا یہ حال تھا عورت کو بدمست مردوں کی نگاہوں کی ہوسناکی کیلئے سامان نشاط سمجھا جاتا تھا اس معاشرے نے عقل و اخلاق کے تمام آئین و قوانین بادہ احمر کے چھلکتے جام میں میں ڈبو دیئے تھے شرم و حیا کو سمندر کی بے رحم لہروں اور موجوں کے سپرد کر دیا تھا انہوں نے تہذیب کی روشنی کو روشن ہونے سے قبل ہی بدکاری گمراہی اور ضلالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں دفن کر دیاتھا جہاں حسن بے نقاب تھا اور عشق بے حیا جو کچھ بھی ہو گزرتا اسے کمتر سمجھا جاتاتھا نفس پرستی کے مظاہرے عربوں کی فطرت ثانیہ بن چکی تھی زنا پر ندامت و شرمندگی کی بجائے فخر و مباہات کا اظہار کیا جاتا تھا۔ عام مجموں میلوں ٹھیلوں میں جنسی قوت کی برتری کے بلند بانگ دعوے کئے جاتے تھے اکثر عربوں کے حرم میں سو سو عورتیں ہوتیں جب چاہتے کسی عورت کو حلقہ ازدواج سے الگ کرکے اس کی زندگی برباد کر دیتے بدکاری کی ترغیب اور اس کی نوک پلک سنوارنے کے لئے عشقیہ شاعری کا رواج عام تھا حسن بے نقاب شراب ناب عورت کا حسن و جمال بے حجابی خفتہ جذبات کو ابھارنے جیسے موضوعات ان کی شاعری کے مندرجات تھے نوجوان دوشیزائوں کے نام شعروں میں موزوں کرکے ان اشعار کو وہ سر بازار پڑھتے اور زرخرید کنیزوں کو تیار کرکے ان کی نوک پلک سنوار کر انہیں رقص و سرود سکھا کر فحش جملوں پر مبنی عشقیہ بول سکھا کر بازار گناہ میں بٹھا دیا جاتا تھا اور اس سے ہونے والی آمدنی سے ان کے مالکان و آقا عیش پرستی کرتے اور رنگ رلیاں مناتے، وہ اکثر اوقات میلوں، مجلسوں، مشاعروں جیسے اجتماعات کا انتظار کرتے، ان کی عجوبہ پسند طبعیتیں اس کی شائق رہتیں اور بڑی دلچسپی اور دھوم دھام سے یہ دن مناتے اور ان میں دل کھول کر داد عیش دیتے۔ ان کی مجلسوں میں بے شرمی و بے حیائی و عریانی ایسے نظارے آنکھیں دیکھتیں جن کا تصور کرکے حیا کی روح لرز جاتی اور غیرت کی پیشانی پر پسینہ آجاتا تھا رسول اکرم ﷺ کی بعثت کے بعد ان ساری اخلاقی برائیوں کا خاتمہ کر دیا گیا اور بدکاری کی ترغیب کے راستوں ا ور دروازوں کو بند کر دیا گیا، بنیادی طور پر بدکاری کی ترغیب کا آغاز نظربازی سے ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورۃ نور کی آیت نمبر29اور نمبر30میں فرمایا ’’ اور مومنوں کو فرما دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کی پاکیزگی کا سبب ہے اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے اور مومنہ عورتوں کو فرما دیجئے اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنے ستر کی حفاظت کریں‘‘۔
نگاہوں کی حفاظت کا حکم دیکر بدکاری کی طرف جانے والے پہلے راستے کو بند کر دیا عورت کا چہرہ جوکہ بڑی کشش کا حامل ہے اس لئے اس کے پردے کا حکم بھی سرکار دو عالم نے دیا جس طرح مرد کو اجازت نہیں کہ وہ عورت کے چہرے پر نگاہ ڈالے اس طرح عورت کو بھی حکم ہے کہ وہ مرد کے چہرے پر اپنی نگاہیں نہ مرکوز کرے۔
ایک دن نابینا صحابی عبداللہ بن ام مکتومؓ رسول اکرمﷺ کے ہمراہ ان کے گھر تشریف لے گئے تو آپﷺ نے امہات المومنین کو پردے کا حکم دیا تو امہات المومنین فرمانے لگیں کہ یہ تو نابینا ہیں ہمیں نہیں دیکھ رہے آپﷺ نے فرمایا کیا تم بھی نابینا ہو۔
بے حیائی کا پرچار کرنے اور اسے معاشرے میں پھیلانے والوں کیلئے اللہ تعالیٰ نے سخت سزا و آخرت میں سخت عذاب کا اعلان فرمایا ہے۔ سورۃ نور کی آیت نمبر19میں ارشاد ربانی ہے ’’ بیشک جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ اہل ایمان میں بے حیائی پھیلے ان کے لئے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے اور اللہ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘۔
بدکاری سے بچنے کی اسلام نے بڑی ترغیب دی اس لئے کہ اس سے عفت و عصمت پر زد پڑتی ہے اس سے نسل اور میراث میں گڑبڑ پیدا ہوتی ہے اس سے صلہ رحمی اور مروت کی شہ رگ کٹتی ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورۃ بنی اسرائیل کی آیت میں فرمایا: ’’ اور زنا کے قریب بھی مت جائو یہ بڑی بے حیائی کی بات ہے اور برا راستہ ہے‘‘۔
رسول اکرمﷺ نے جب زنا کے مفاسد پر گفتگو فرمائی تو عربوں کو اس پر عمل کرنا بڑا مشکل تھا، آپؐ نے کمال حکمت عملی اور دانائی سے اس مسئلے کو حل کر دیا، مسند امام احمد میں حضرت ابو امامہ صحابیؓ سے ایک روایت ہے کہ ایک نوجوان خدمت نبویؐ میں حاضر ہوا، اس نے کہا کہ میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں مگر ایک شرط کے ساتھ کہ مجھے زنا کی اجازت دے دی جائے، صحابہ کرامؓ کو اس نوجوان کی گستاخی بہت بری معلوم ہوئی، صحابہؓ نے اس کو ڈانٹا اور اس کے سوال پر نفرت کا اظہار کیا، رسول اکرمؐ نے اس نوجوان سے فرمایا میرے قریب آکر بیٹھو، وہ قریب آکر بیٹھ گیا، آپﷺ نے اس کے ساتھ اس طرح مکالمہ شروع کیا۔ سوال: کیا تم اسے اپنی بیٹی کے حق میں اچھا جانتے ہو؟، جواب: نہیں یا رسولؐ اللہ۔ فرمایا، لوگ بھی اپنی بیٹیوں کے لئے اس بدکاری کو اچھا نہیں جانتے؟، سوال: کیا تم اپنی بہنوں کے لئے اس برائی کو برداشت کر سکتے ہو؟، جواب: ہرگز نہیں یا رسولؐ اللہ۔ فرمایا: دوسرے لوگ بھی اپنی بہنوں کے حق میں اس گندگی کو برداشت نہیں کر سکتے ۔ سوال: کیا تم اپنی پھوپھی کیلئے اس کام کو پسند کروگے؟، جواب: نہیں یا رسولؐ اللہ۔ فرمایا، لوگ بھی اپنی پھوپھیوں کے لئے اس برائی کو پسند نہیں کرتے۔ پھر آپﷺ نے اس کے لئے دعا فرمائی، قبول اسلام کے بعد اس صحابیؓ کا بیان ہے کہ بدکاری کے خلاف اس کے دل میں نفرت بیٹھ گئی اور وہ زندگی بھر اس سے دور رہا۔
فحاشی کے تمام کام وہ ظاہری ہوں یا پوشیدہ، سب کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دے دیا ہے، چنانچہ سورۃ اعراف کی آیت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ آپﷺ فرما دیجئے تمام فحاشی کی باتوں کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دے دیا ہے چاہے وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ہر گناہ کی بات کو اور کسی پر ناحق ظلم کرنے کو بھی‘‘۔
کثرت بدکاری کے نقصانات: رسول اکرمﷺ نے فرمایا ’’ جس قوم میں بدکاری عام ہوجائے اس میں موتوں کی کثرت ہوتی ہے اور جس قوم میں بدکاری پھیل جائے اس میں قحط سالی کی مصیبت پھیل جاتی ہے‘‘۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خلیفہ بننے کے بعد اپنے پہلے خطبے میں ارشاد فرمایا ’’ جس قوم میں بدکاری پھیل جائے اللہ اسے مصیبتوں میں مبتلا کر دیتا ہے‘‘۔
اکثر مغربی ممالک جہاں جنسی آزادی بلکہ بے لباس افراد مرد و خواتین کی الگ بستیاں اور علاقے قائم ہوچکے ہیں ان میں کثرت زنا، جنسی اختلاط کی وجہ سے اموات کی کثرت ہوتی جارہی ہے، آج سے تیس سال قبل انسائیکلو پیڈیا نے تین بڑے ملکوں فرانس امریکہ اور انگلستان کا جائزہ کچھ اس طرح پیش کیا ہے امریکہ کی ریاست ڈنور کی عدالت جرائم اطفال کا جج لنڈسے لکھتا ہے ہائی سکول کی عمر کو پہنچنے والی 495لڑکیوں نے خود میرے سامنے اقرار کیا ان کو لڑکوں کے ساتھ جنسی تعلقات کا تجربہ ہو چکاہے اور ان میں25کو حمل بھی ٹھہر چکا تھا۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ امریکہ میں ہر سال کم از کم پندرہ لاکھ حمل ساقط کئے جاتے ہیں اور ہزاروں بچے پیدا ہوتے ہی قتل کئے جاتے ہیں اور ہائی سکول کی 45فیصدی لڑکیاں سکول چھوڑنے سے قبل خراب ہوچکی ہوتی ہیں امریکہ میں بدکاری سے پھیلنے والی بیماریاں آتش سوزاک میں مبتلا مریضوں کے متعلق تحقیق یہ ہے کہ تیس چالیس ہزار بچوں کی اموات موروثی بیماری آتشک کی بدولت ہوتی ہیں 60فیصدی نوجوان سوزاک کی بیماری میں مبتلا ہیں شادی شدہ عورتوں کے اعضائے جنسی کے جتنے آپریشن کئے جاتے ہیں ان میں75فیصدی سوزاک کی مریض ہیں امریکہ میں ہر سال آتش و سوزاک کے تین لاکھ سے زیادہ مریضوں کا علاج کیا جاتاہے ہزاروں ہسپتال اس کیلئے مخصوص ہیں اور ان میں باقاعدہ یہ شعبہ جات قائم ہیں امریکہ میں جو عورتیں باقاعدہ قانونی طور پر اجازت نامہ لیکر قحبہ گری کی صنعت سے وابستہ ہیں ان کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے اس کے علاوہ جنسی ملاقاتوں اور سہولتوں کے لئے آرام دہ مقامات بھی موجود ہیں نیویارک میں کی گئی ایک تازہ ترین ریسرچ کے مطابق کل آبادی کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ لائف پارٹنرز کی بجائے دوسروں کے ساتھ وقت گزارتاہے اور ان میں دلچسپی لیتا ہے۔
آج سے 70سال قبل ایک امریکی ماہر ڈاکٹر ہنسلی کنسے نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا جو باقاعدہ مختلف لوگوں سے ملاقات کرکے ان کی نجی زندگیوں کے متعلق معلومات کرکے تیار کی گئی تھی کہ امریکہ کے 90فیصد مرد مشت زنی اور لواطت کی بیماری میں مبتلا رہے ہیں فاحشہ عورتوں کے ساتھ تعلق رکھنے والے بلحاظ عمر 25سال کے 25فیصدی 26 تا 40سال کے 90فیصدی اور 16سال سے 20سال تک کی طالبات کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنے والے 40فیصدی ہیں آج امریکہ غیر قانونی بچوں کی کثرت اور ٹوٹتے خاندانی نظام منشیات میں مبتلا نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے معاملات میں بہت پریشان ہے مگر وہ اسے باقی دنیا پر ظاہر نہیں ہونے دیتا اور میڈیا کو ان معاملات سے دور رکھتا ہے انگلستان جو اس وقت دنیا کی دوسری یا تیسری بڑی طاقت ہے اس کا یہ حال ہے کہ وہاں پیشہ ور عورتوں کے علاوہ بڑی تعداد ان عورتوں کی بھی ہے جو وقتی طور پر زنا کاری کے پیشے کو محض اس لئے اپناتی ہیں کہ ان کی آمدنی میں اضافہ ہو برٹش لڑکیوں کیلئے بد چلنی سوقیانہ عادات و اطوار بے باکی جنسی آزادی فیشن کا درجہ رکھتی ہے اور ایسی لڑکیوں کی تعداد ناقابل شمار ہے جو شادی سے قبل بلا تکلف جنسی تعلقات قائم کر لیتی ہیں اور ان لڑکیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جو کلیسا کی قربان گاہ کے سامنے نکاح کا بندھن باندھنے کے وقت حقیقی معنوں میں کنواری ہوں انگلستان میں ہر سال اسقاط حمل کی تعداد لاکھوں میں ہے یہ وہ لڑکیاں ہیں جو غیر شادی شدہ ہیں اور شادی شدہ عورتوں کے اسقاط حمل کی تعداد اس کے علاوہ ہے فرانس جو ماضی میں ایک بڑی عالمی طاقت تھی اکثر و بیشتر عرب ممالک اس کی نو آبادی اور اس کی عمل داری میں تھے جنگ عظیم کے وقت وہاں جنسی آزادی سے فوجیوں میں پیدا ہونے والی آتشک و سوزاک کی بیماریوں کے متعلق انسائیکلو پیڈیا کی تحقیق یہ ہے کہ جنگ عظیم کے ابتدائی دو سالوں میں جن سپاہیوں کو ہسپتالوں میں بھیجنا پڑا ان کی تعداد 75ہزار سے زیادہ تھی ایک متوسط درجے کی چھائونی میں 242سپاہی اس بیماری میں مبتلا ہوئے تھے فرانسیسی معاشرے میں سپاہیوں کے متعلق یہ مقولہ زبان زد عام و خاص تھا۔ اکثر پائے جاتے ہیں دن کو جنگل میں اور رات کو کمبل میں دو دو اسلام نے عفت و عصمت تزکیہ قلوب و اذہان و انفس کا ایک زبردست نظام ترتیب دیا اور حیا کو اسلامی معاشرے کی روح قرار دیا۔
اسلامی معاشرے کی تربیت کے انتظام پر مامور عظیم ہستی رسول اکرمﷺ کے بارے میں ام المومنین حضرت عائشہؓ ارشاد فرماتی ہیں کہ ’’ آپﷺ کنواری دوشیزہ سے بھی زیادہ صاحب حیا تھے‘‘۔
آج پاکستان کے اسلامی معاشرے اور خاندانی نظام کو صیہونی طاقتوں نے میڈیا کے بل بوتے پر ہائی جیک کر لیا ہے پرنٹ میڈیا پر نیم برہنہ لباس پر مشتمل عورتوں کے اشتہار جنسی آزادی کی راہ ہموار کرنے والے ڈراموں فلموں کے متعلق تفصیلی معلومات اور پھر الیکٹرانک میڈیا پر جنسی بے راہ روی و بے باکی فحاشی کی طرف مائل کرنے والے ڈرامے دراصل وہ ہتھیار ہیں جو مسلم نوجوانوں کو پاکیزہ زندگی سے دور کر رہے ہیں جنسی ہراس منٹ خصوصاً بچوں کے ساتھ زبردستی جنسی فعل کم سن بچیوں کے ساتھ اس طرح کے افعال شنعیہ ہمارے ضمیر کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ہم دن بدن گناہوں کی گہری کھائی میں گرتے جارہے ہیں ہاتف غیب کی آواز اور پکار سنیں قوم کے ان ناخدائوں کے نام اور منبر و محراب میں کھڑے ہونے والے علماء و مشائخ کے نام کب وہ اصلاح معاشرہ کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے کیونکہ جو اصلاح امت کا بیڑا اٹھاتے ہیں وہ ہمیشہ معاشرتی تمدنی، سیاسی، عائلی زندگی کی بے اعتدالیوں اور فساد انگیزیوں سے معاشرے کو بے راہ روی کے سمندر سے قوموں کو نکالنے کے لئے کھیون ہارے کا کام کرتے ہیں وہ اللہ کی مدد سے ایک عالمی انقلابی طریقہ عمل سے انفرادی و باطنی زندگی کا تزکیہ و اصلاح کرتے ہیں۔ اصلاح نفس اصلاح عالم اور اصلاح معاشرہ ان کا بنیادی مشن ہوتا ہے وہ قوم کو صرف اس لئے نہیں چھوڑ دیتے کہ وہ چند اسلامی اصولوں پر تو عمل کریں اور اسلام کے باقی اصولوں کو ترک کرکے اپنی زندگی کو غیر اسلامی اصولوں کی بھینٹ چڑھا لیں اور زندگی کی بعض شاخوں پر باطل کی پیوند کاری کریں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’ اے ایمان والو! اسلام میں پورے طور پر داخل ہوجائو اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔
آج قوم کے رہنمائوں کو چاہئے کہ وہ اپنی طاقت کو جمع کرکے اعلان کر دیں کہ اسلام صرف زبانی اقرار یا نظری فلسفہ کا نام نہیں جسے انسان کی عملی زندگی سے کوئی تعلق نہ ہو بلکہ اسلام ظاہری و باطنی و انفرادی ، اجتماعی و معاشرتی و سیاسی و مادی اور روحانی پوری زندگی کا کامل دستور اور جامع نظام حیات ہے جس پر عمل پیرا ہو کر ایک مسلمان دین اور دنیا دونوں میں کامیاب اور سرخرو ہو سکتا ہے اور ایک کامیاب معاشرہ تشکیل دے سکتا ہے جو ہر قسم کی آلودگیوں اور نجاستوں سے مکمل طور پر پاک و صاف ہو۔
علامہ عبدالخالق فریدی

جواب دیں

Back to top button