ہم نہ باز آئیں گے نفرت سے

تحریر : عابد ضمیر ہاشمی
ہم جس معاشرے میں زندہ ہیں۔ بدگمانیوں، نفرتوں، عداوتوں، لڑائیوں، تعصب کے ہر طرف ڈیرے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک مسائل کی دلدل میں پھنسا ہے۔ کہتے سب یہی ہیں کہ معاشرتی بگاڑ پیدا ہو چکی، لیکن کوئی یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں کہ اس کا اس معاشرتی بگاڑ میں حصہ ہے۔ اس وقت نفرتیں ہی جارہی ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ نفرتیں خلیج پیدا کرتی ہیں پھر اس خلیج کو کم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ معاشرہ میں کدورتیں بھر جائیں تو معاشرہ زہر آلود ہو جاتا ہے۔
ہر سو نفرتوں، عداوتوں، بد تہذیبی کا ایک طوفان برپا ہے۔ آپس میں فضول بحث و مباحثے، اندازِ گفتگو کا معیار اِس قدر گر چکا ہے کہ چھوٹے بڑے کے باہمی اَدب و احترام کو بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور کم تر ثابت کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ معمولی سی بات، معمولی سے اختلاف، معمولی سی کج فہمی پر معاشرے کی رگوں میں نفرتیں ناممکن حد تک سرائیت کر رہی ہیں۔ برداشت نام کے مادے کا وجود خطرے میں ہے۔ احساس ختم ہوتا جا رہا ہے۔ تعصب کی عینک کسی طور اترتی ہی نہیں۔ اختلافات معاشرے کا حسن ہیں۔ ہر شخص کی نظر، فکر، رائے جدا ہے۔ ہر معاشرے میں اختلافات ہوتے ہیں اور ضرور ہیں لیکن ان اختلافات کا ذاتی دشمنی میں بدل جانا قابلِ افسوس ہے۔
ہم میں سے ہر ایک اس معاشرے کا فرد ہے۔ ہم میں سے ہر ایک اس کی بگاڑ کا ذمہ دار بھی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک پر اس کی بہتری کی ذمہ داری بھی ہے۔
فرمایا: ’’ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے، اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔
ہمارے رویے، کردار یا تو اس معاشرے کو بہتر بنانے میں کردار ادا کر رہے یا بگاڑنے میں ان کا اثر ضرور ہے۔ تربیت کے فقدان کے باعث معاشرے میں سکون اور بھائی چارہ کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ ہمارا سوشل میڈیا بھی اس سلسلے میں منفی کردار ادا کر رہا ہے، تحمّل اور شائستگی کی کمی نظر آتی ہے۔ معاشرہ اپنی اعلیٰ تہذیب، ثقافت، روایات اور اسلامی و اصلاحی تعلیمات کو نظر انداز کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے، وہ زوال اور اخلاقی انحطاط کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بعض معاشروں میں ہمیں بظاہر ترقی اور خوشحالی نظر آتی ہے، لیکن اندر سے وہ انتہائی بدنما ہوتے ہیں۔
ہمیں اسلام نے ایک مقصد ِحیات دے رکھا ہے۔ جس میں تمام تر رہنمائی بھی مہیا کی گئی ہے۔ لیکن ہم وہ کتابیں، سیرت پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔ ہم نے اپنے رہبر ڈرامے، فلمیں، اور ایسے رول ماڈل بنائے جن کی وجہ سے ہم اپنی تہذیب ہی بھول گئے اور معاشرے میں نفرت، عدم برداشت، انا جیسی موذی بیماریوں نے یلغار کر لی۔
نو جوان ہی ہیں جو ہر قوم و ملت اور تحریک کے لئے امید کی واحد کرن ہوتے ہیں۔ یہ نوجوان اسی وقت قوم و ملت کے لئے کار گر ثابت ہوسکتے ہیں جب ان کی تعلیم و تربیت، رہنمائی پر خصوصی تو جہ مر کوز کی جائے۔ یہ اسی وقت ملت کے لئے سا یہ دار اور ثمر آور درخت بن سکتا ہے جب ملت کا ہر طبقہ ان کی تعلیم و تر بیت اور اصلاح کے لیے اپنی صلاحیتوں اور ذرائع کو بروئے کار لانے کا تہیہ کر لے۔ نو جو ا نوں کی اسلامی خطوط پر رہنمائی کر نا نہ صرف دور ِحا ضر کا بلکہ ہر دور میں تجدیدی نوعیت کا کا م ہو تا ہے، بقو لِ مولانا علی میاں ندوی وقت کا تجدیدی کام یہ ہے کہ اُمت کے نو جوانوں اور تعلیم یافتہ طبقہ میں اسلام کی اساسیات اور اس کے حقائق پر وہ اعتماد واپس لایا جائے جس کا رشتہ اس طبقہ کے ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے۔ آج کی سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ اس فکری اضطراب اور نفسیاتی الجھنوں کا علاج بہم پہنچایا جائے جس میں آج کا تعلیم یافتہ نو جوان بری طرح گرفتارہے اور اس کی عقل و ذہن کو اسلام پر پو ری مطمئن کر دیا جائے۔ نوجوانوں کے درمیان مقصد زند گی سے نا آشنا ئی،تزکیہ وتر بیت کی کمزوری، ان کے اندرفکری، تعمیر ی اور تخلیقی سوچ کا پروان نہ چڑھنا بہت بڑا المیہ ہے۔
معاشرے کی اصلاح و احوال میں بنیاد کردار علم کا ہوتا۔ ہمارے پاس وہ تاریخ موجود ہے جس کے ہوتے ہمیں کسی اور کی تاریخ کی ضرورت نہ تھی۔ ہم نے وہ علم کے سمندر کتابیں کوڑے دانوں کی نذر کیں۔ سوشل میڈیا نے رہی سہی کسر تک نکال دی۔ علم اور شعور بنیادی عوامل ہیں۔ اس سے بڑ ھ کر یہ ہے کہ ہمارا کردار نسلِ نو کے لئے مثالی ہونا چاہیے۔ جب ہمارا اپنا کردار ہی دھوکہ دہی، جھوٹ، فریب، تعصب، اقربا پروری کا عکس ہو گا، تو یقینا یہ ورثہ نوجوانوں میں منتقل ہو گا۔ جو ہماری تباہی کا سبب بنے گا۔ اگر ہماری جملہ کاوشیں ریٹنگ اور اپنے قد کاٹھ کے لئے ہی ہیں، تو یہ ہمارے لئے باعث ِ رسوائی ہے۔ کیوں کہ یہ اُمت محمدیہ کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ہماری ہے۔ آج جو بوہیں گے وہی کل کاٹنا بھی ہوگا۔ اگر ہم رہنما ہیں تو نسل ِ نو کو سیرت النبیؐ سے آشنا کرانا ہو گا۔ اگر ہم نے اپنے کردار سے تعصب، افراتفری تحفہ میں دی تو یہی واپس بھی ملے گا۔
یہ معاشرہ، جسے ہم اسلامی معاشرہ کہتے نہیں تھکتے، ہمارے عملی معاملات میں اسلامی تو کجا، ایک مہذب معاشرہ کہلائے جانے کا مستحق بھی نہیں۔ نوجوانوں میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہمارے اخلاقی معیار کے دعوں کے برعکس ہے۔ ہمیں یہ بخوبی علم ہے کہ ہمارا عملی کردار کس قدر اسلامی ہے۔ ہم نسلِ نو کو کیا ورثہ دے رہے ہیں۔ یہ ہمارے لئے صدقہ جاریہ، یا عذاب جاریہ ہوگا۔ بایں ہمہ ہم اپنی اصلاح احوال، خود احتسابی کی نہیں۔ بلکہ دُنیا کو ٹھیک کرنے کے دعویٰ دار ہیں۔ اور محبت نہیں، نفرت سے نہ باز آنے کی قسم کھائی ہے۔
ہم نہ باز آئیں گے نفرت سے