سیاسی، صحافتی اور نظریاتی تجاوزات

تحریر : عبد الحنان راجہ
تجاوزات تو تجاوزات ہی ہوتی ہیں گو کہ اب پڑھے پڑھائے اور ریڈی میڈ صحافیوں نے اسے جائز و ناجائز میں منقسم کر رکھا ہے گویا ان کے ہاں جائز تجاوزات کا تصور بھی موجود ہے اسی لیے تو وہ ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن کی رپورٹنگ بڑے شوق سے کرتے نظر آتے ہیں. تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن کی رپورٹنگ میں ناجائز کا استعمال ایسا مستعمل ہوا اور یہ ایسا غلط العام کہ اب اس کے استعمال کی زد میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے بعض صحافی بھی آنے لگے. پنجاب سے تجاوزات کا خاتمہ احسن اقدام، مگر تجاوزات کے مستقل خاتمہ کے لیے، ان کے قائم کرانے والوں کی بیخ کنی بھی لازم کہ کسی بھی حکومت کے لیے تجاوزات کے سلسلہ کو دوبارہ قائم ہونے سے روکنا مشکل ہی رہا کہ میونسپل کمیٹیوں، کینٹ بورڈز اور دیگر انتظامی اداروں میں تجاوزات والوں کے معاونین اہل کار ہی تجاوزات کے دوبارہ قیام میں مددگار ہوتے ہیں.وزیر اعلیٰ ان بدعنوانوں کے خلاف کیسے سرخرو ہوتی ہیں یہ تو اگلے اقدامات ہی بتائیں گے. بہر حال ابھی تک کی کارروائیاں قابل ستائش اس لیے کہ بلا تفریق جاری اور اس ضمن میں کوئی سفارش کام نہیں آ رہی. تجاوزات کے ساتھ وزیر اعلیٰ پنجاب وہی سلوک کر رہی ہیں جو ریڈی میڈصحافی صحافت کے ساتھ کر رہے ہیں. اس میں تو شک نہیں کہ ہمارے ہاں سیاسی تجاوزات بھی بہت. الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ 95 فی صد سے زائد جماعتیں سیاسی تجاوزات ہی تو ہیں کہ اپنے قیام سے لیکر آج تک ایک بھی نشست نہ جیتنے والی پارٹیاں نہ صرف اب تک موجود بلکہ پورے طمطراق سے دیگر موضوعات کے علاوہ نہ صرف انتخابی بے قاعدگیوں پر نقد و جرح بلکہ منصفانہ انتخاب کا مطالبہ بھی کرتی نظر آتی ہیں. اکثر جماعتیں ایسی کہ مرکزی عہدوں کے لیے افراد تک میسر نہیں مگر ان کے مرکزی راہنما آل پارٹیز کانفرنس اور اپوزیشن اتحاد میں صف اول کی نشست کا حق محفوظ رکھتے ہیں میری نظر میں ہر وہ سیاسی جماعت کہ جس کا ملک بھر میں ضلعی سطح تک تنظیمی ڈھانچہ نہیں وہ تجاوزات کے زمرے میں اور تین سے چار انتخابات میں پانچ فی صد ووٹ بھی حاصل نہ کر سکنے والی جماعت الیکشن کمیشن کی فائلوں پر اور جو جماعتیں تین تین بار مقتدر رہ کر اب بھی انہی مسائل سے نبرد آزما ہیں تو ایسی جماعتیں عوام پر بوجھ. ایک امیدوار کا متعدد حلقوں سے انتخابی عمل کا حصہ بننا بھی تجاوزات، ضمنی انتخابات پہ اٹھنے والے سرکاری وسائل کے ضیاع کو روکنے کے لیے چھوڑے گئے حلقوں پر دوبارہ ہونے والے انتخابات کا خرچ ان امیدواروں سے ہی وصول کر کے انتخابی عیاشی کے رجحان کو ختم کیا جا سکتا ہے. سیاسی جماعتوں کے منشور کو منشوری تجاوزات کہنا چاہیے کہ جیسے فضول گوئی مذموم ہوتی ہے اسی طرح عوام کے دل جیتنے بلکہ بہکانے کے لیے منشور کے نام پر لمبی لمبی چھوڑنا بھی درست نہیں. قیام پاکستان سے لیکر اب تک کس سیاسی جماعت نے بعد از اقتدار اپنے منشور پر عمل کیا اور حکومت سے جانے کے بعد اپنی اصلاح کی کوشش کی. کم و بیش تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کا منشور اول دن سے فائلوں میں اسی طرح محفوظ جیسے آئین پاکستان. آئین پاکستان اور سیاسی جماعتوں کے منشور پر کتنا عمل ہوتا ہے یہ ایسا کھلا راز کہ جو ہر ایک پر عیاں. عوامی ترقی اور ملکی استحکام کے لیے تین حروف امانت، دیانت اور صداقت ہی منشور اور ان پر عمل ہی قومی ترقی و استحکام کی ضمانت. باقی لمبے چوڑے منشور صفحات اور سیاہی کا ضیاع ہی ہیں. مارو، مر جا، گالم گلوچ، پیٹ پھاڑنا تو کسی کا سر، الزامات، طعن و تشنین، اہانت و اشتعال انگیزی اور سیاسی انتہا پسندی ابلاغی تجاوزات کے زمرہ میں آتی ہے اور یہ ہماری سیاست میں اتنی عام کہ اب اسے معیوب ہی نہیں سمجھا جاتا. ابلاغی تجاوزات کے خلاف آپریشن از حد ضروری مگر کرے گا کون. یہ ملین ڈالر سوال. اپنی حدود، ذہنی استعداد سے بڑی باتیں، ٹی وی شوز، وی لاگز میں مستقبل کے احوال، کیا ہونے والا ہے، کیا ہو گا. کے ذریعے عوام کے ذہین پراگندا کرنا، بے جا تعریف تو کسی پر ہر وقت نشتر تنقید، کاسہ لیسی و چاپلوسی اور جھوٹ، صحافتی تجاوزات اور اس کی روک تھام از حد ضروری. ادھر پرنٹ میڈیا کا حال یہ کہ اگر کسی نئے اخبار یا جریدہ کا نام تلاش کرنا پڑھ جائے تو دماغ عاجز ا جاتا ہے. ان میں سے اکثر جرائد و اخبارات کے مقاصد کیا؟ سبھی کو معلوم. اس کا اور کچھ فائدہ ہو نہ ہو ان نام نہاد اور ڈمی اخبارات و جرائد میں بڑی تعداد میں افراد کی کھپت تو ہو جاتی ہے. نان میٹرک ایسوسی ایشن کے ایسے صحافی اپنی دبنگ اور چیر پھاڑ قسم کی خبروں سے نہ صرف صحافت کا جنازہ دھوم سے نکالتے ہیں بلکہ اداروں کا بھی ناک میں دم کئے رکھتے ہیں. جیسے ہمارے ہاں ہر وہ شخص جو اپنا نام لکھ اور پڑھ سکتا ہو خواندہ کے زمرہ میں آتا ہے اسی طرح اب سیل فون رکھنے والا ہر فرد صحافتی کارڈ کا اہل. روزگار فراہمی کا درد رکھنے والے ادارے لکھا پڑھا ہونے کی قید بھی نہیں لگاتے. ہاں البتہ مار دھاڑ کے فن سے آشنائی لازم. ان کا واحد مقصد انہیں کمائی میں خود کفیل بنانا ہے اپنے لیے بھی اور ادارہ کے لیے بھی. صحافت کے لیے کوئی ایک مسئلہ ہو تو بتائیں اب تو تحصیل سطح پر بھی اتنی صحافتی تنظیمات، کہ اب کمبائنڈ یونین آف یونینز کی ضرورت پڑھنے لگی ہے. کہ ہر صحافتی تنظیم اسی طرح اصلی جیسے گلی کوچے میں پھیری والے کے پاس دستیاب خالص دیسی گھی. ان کے خلاف آپریشن بھڑوں کے چھتوں کو چھیڑنے کے مترادف مگر ہے ضروری. اور اگر یہ ذمہ داری نیشنل پریس کلب لے تو زیادہ بہتر. اسی طرح ذاتی حیثیت میں ہمارے دل و دماغ بھی جھوٹ، نفرت، حسد، عناد، ہوس، تکبر، انتہا پسندی، اور جہالت جیسی تجاوزات کے گھیرے میں. وسعت قلبی رہی نہ کشادہ دلی، قلب و روح کو ان آلائشوں سے پاک کئے بغیر فلاح ہے نہ نجات. تو کیوں نہ ھم بھی اپنے دل و دماغ کی تجاوزات کے خلاف اصلاح احوال کا آپریشن شروع کریں۔