غزہ کوئی جائیداد نہیں جس کی خرید و فروخت کی جائے : حماس کا ٹرمپ کو جواب

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر باور کرایا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی خرید کر اپنی ملکیت میں لینے پر قائم ہیں۔ تاہم انھوں نے ساتھ یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ تعمیر نو میں شریک مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کو غزہ کی پٹی کے بعض حصے دے سکتے ہیں۔
ٹرمپ کے اس بیان نے حماس کو پھر سے جواب دینے پر مائل کر دیا۔ تنظیم نے امریکی صدر کے بیان کی مذمت کی ہے۔
حماس کے سیاسی دفتر کے رکن عزت الرشق نے باور کرایا ہے کہ "فلسطینی عوام اپنی جبری ہجرت کے حوالے سے تمام منصوبوں کو ناکام بنا دیں گے”۔
اتوار کی شب تاخیر سے جاری بیان میں الرشق نے مزید کہا کہ "غزہ کوئی جائیداد نہیں جس کی خرید و فروخت کی جائے، بلکہ یہ مقبوضہ فلسطینی اراضی کا اٹوٹ انگ (نا قابل تقسیم حصہ) ہے”۔
العزت نے غزہ کی خرید و فروخت کے حوالے سے ٹرمپ کے بیان کو فضول قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ "فلسطین اور خطے کے حوالے سے گہری جہالت” کا عکاس ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ روز امریکی صدر نے طیارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ "غزہ میں واپسی کے لیے کچھ باقی نہیں رہا … وہ جگہ تباہی کا مقام ہے”۔
ٹرمپ نے واضح کیا کہ وہ بعض فلسطینی پناہ گزینوں کو امریکا میں داخلے کی اجازت دے سکتے ہیں تاہم اس طرح کی درخواستوں کو وہ انفرادی بنیادوں پر خود دیکھیں گے۔
امریکی صدر نے 20 جنوری کو سنبھال کر تھوڑے ہی روز بعد غزہ کی پٹی پر امریکی کنٹرول اور تعمیر نو کی ضخیم کوششوں میں شامل ہونے کی تجویز پیش کر دی۔
وہ اپنے اس خیال کو کئی مرتبہ دہراتے ہوئے یہ باور کرا چکے ہیں کہ غزہ کی آبادی کو دیگر ممالک منتقل کیا جائے گا جن میں مصر اور اردن سرفہرست ہیں۔ دوسری جانب قاہرہ اور عمان دونوں ہی بارہا اس تجویز کو مسترد کر چکے ہیں۔
ٹرمپ کے منصوبے کو کئی عرب اور مغربی ممالک کے علاوہ اقوام متحدہ کی جانب سے فوری تنقید کا سامنا کرنا پڑا بالخصوص اس لیے کہ فلسطینیوں کی جبری ہجرت بین الاقوامی قوانین کی مخالفت ہے۔