علامہ مشرقی کی گرفتاری اور رہائی ( حصہ اول )

تحریر : علی حسن
خاکسار تحریک اپنے دور کی مستحکم اور منظم جماعت تھی۔ اس کے قائد علامہ مشرقی اس کے سربراہ تھے۔ علامہ عنایت اللہ خان مشرقی نہ صرف ایک سیاسی تحریک خاکسار تحریک کے مقبول ترین اور باوقار سربراہ تھے بلکہ اپنے وقت میں دنیا کے بہترین ریاضی دان قرار پاتے تھے۔ علامہ کے بارے میں برصغیر کے معروف صحافی دیوان سنگھ مفتون نے اپنی کتاب ’’ ناقابل فراموش‘‘ میں ناقابل فراموش واقعات ہی تحریر کئے ہیں۔ علامہ کے بارے میں ان کی تحقیق ہے، میں دہلی جیل میں تھا رات کا وقت تھا کہ بڑے دروازے کی طرف سے اس وارڈ کی طرف جو جیل کے جنوب مغربی کونہ میں ہے کچھ آدمی آتے جاتے معلوم ہوئے۔ میں نے پہرہ والے ایک نمبردار سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے۔ آج یہ گڑبڑ کیسی ہے اس نمبردار نے جاکر پتہ کیا اور واپس آکر بتایا کہ کوئی بڑا لیڈر جیل میں لایا گیا ہے اس نمبر کو اور کچھ معلوم نہ ہوسکا کہ کون ہے۔ میں معلوم کرنے کا خواہشمند تھا کہ کون ہے مگر رات کو کچھ معلوم نہ ہوسکا۔ صبح اٹھتے ہی جب اس کمرہ کا جس میں ہم لوگ تھے دروازہ کھلا تو میں نے ایک وارڈ سے پوچھا۔ اس وارڈ نے بتایا کہ خاکساروں کے لیکر علامہ مشرقی صاحب گرفتار کرکے جیل میں لائے گئے ہیں۔ جیل کے اندر بھی ان پر سخت پہرہ ہے کہ کوئی شخص ان سے بات چیت نہ کرے تاکہ یہ اپنے مقلدین کو جیل سے باہر کوئی پیغام نہ پہنچ سکیں۔ کچھ دیر کے بعد معلوم ہوا کہ جیل سے باہر خیمے نصب ہو چکے ہیں اور پولیس جیل کی دیوار سے باہر بندوقوں کے ساتھ پہرہ دے رہی ہے تاکہ اگر خاکسار جیل پر حملہ کریں تو ان کو روکا جاسکے۔ میں نے دوپہر کے وقت بھنگیوں کے نمبردار کو بلایا اور اس کی معرفت ( چونکہ علامہ مشرقی کے پاس صرف بھنگی ہی صفائی کے لئے جاسکتے تھے) علامہ کو پیغام بھیجا کہ کوئی خدمت ہوتو بتائیے۔ میں یہاں ہوں اس لئے ایک طرح سے میرا فرض ہے کہ میں بطور میزبان کے آپ کی خدمت انجام دوں۔ علامہ کا جواب شکریہ کی صورت میں پہنچا۔ اس ’’ دایوا دوسی‘‘ ( دایوا دوسی اس امتحان کو کہتے ہیں جو بغیر پر چوں یا کتابوں کے صرف زبانی سوالات پوچھ کر لیا جاتا ہے انڈین سول سروس کے امتحان میں اکثر لڑکے دایوا دوسی امتحان میں فیل ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے کتابوں کی رٹ لگائی ہوتی ہے ۔ عام واقفیت نہیں ہوتی اور مختلف قسم کے سیاسی اور غیر سیاسی سوالات کا جواب نہیں دے سکتے) کی مہمانی اور میزبانی کے علاوہ جیل میں کوئی خدمت انجام بھی کیا دی جا سکتی تھی۔ کیونکہ ہم دونوں ہی سرکاری مہان تھے۔ میں مولانا سے مل نہ سکا۔ کیونکہ ان کے پاس سوائے دو تین خدمت گزا ر قیدیوں اور بھنگی کے کسی دوسرے قیدی کو بھی جانے کی اجازت نہ تھی مگر آپ کے حالات سے دلچسپی تھی۔ میں نے حالات معلوم کر تا رہتا۔ جس روز لا ہور میں خاکساروں پر فائر ہوا اور غالباً بیس کے قریب خاکسار مارے گئے اور بہت سی گرفتاریاں ہوئیں۔ اسی رات مولانا قرول باغ دہلی سے گرفتار کئے جا کر دہلی جیل میں لائے گئے تھے۔ چنانچہ ان کی گرفتاری کے چند گھنٹہ بعد یعنی اگلی صبح جو اخبارات آئے ۔ ان میں مولانا کی گرفتاری اور لاہور کے فائرنگ کی تفصیلات تھیں۔
’’ میں علامہ صاحب سے آج تک کبھی مل نہیں سکا کیونکہ کسی لیڈر سے بھی میں نے کبھی ملنے کی کوشش یا خواہش نہیں کی اور صرف ان لیڈروں سے واقفیت ہے جن کے ساتھ ذاتی اور گہرے تعلقات ہیں جیل میں میری خواہش تھی کہ آپ سے ملتا اور خاکسار ازم کے متعلق باتیں ہوتیں۔ مگر میں آپ سے مل نہ سکتا تھا ۔ کیونکہ اس کی اجازت نہ تھی۔ میں آپ کے حالات معلوم کرنے میں مسلسل دلچسپی لیتا رہا۔ دوپہر کو گودام کے قیدی کلرک سردار پیارا سنگھ ( یہ صاحب پہلے پوسٹ ماسٹر تھے اور ترن تارن کے رہنے والے تھے۔ ایک موقع میں قید ہوگئے تھے) سے معلوم ہوا کہ علامہ مشرقی نے اپنی خوراک اور ضروریات کے لئے ایک طویل فہرست پنسل سے لکھ کر بھیجی ہے جس میں چاول، گوشت، مچھلی، انڈے، مرغی، تمباکو قسم اعلیٰ ، خالص گھی اور مصالحہ وغیرہ پیس کے قریب اشیائ۔ مولانا کے لئے منظوری تو سوا روپیہ روزانہ کی ہے مگر یہ انڈنٹ کافی رقم کا ہے ۔ جیل والے مولانا کا مذاق اڑا رہے ہیں کہ کل تو لاہور میں فائرنگ ہوا۔ خاکساروں کا ابھی پوسٹمارٹم بھی ختم نہیں ہوا اور جو خاکسار گرفتار ہوئے ان کے گھروں میں ماتم چھار ہا ہوگا مگر یہ علامہ یہاں قورمہ، پلائو اور مچھلی کے کباب اڑانے کی فکر میں ہیں۔ میں نے سردار پیارا سنگھ سے کہا کہ وہ فہرست مجھے دکھائے۔ اس فہرست کے نہ تو جیل میں کسی ریکارڈ کے رکھنے کی ضرورت تھی اور نہ کوئی یہ سرکاری دستاویز تھی۔ سردار پیارا سنگھ نے علامہ مشرقی کے ہاتھ کی پنسل سے لکھی ہوئی یہ فہرست مجھے لا دی اور میں اس فہرست کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اور مجھے خیال آیا کہ اگر یہی واقعات مہاتما گاندھی کے ساتھ پیش آتے تو وہ یقیناً آج اگر مرن موت نہیں تو تین ہفتوں کا فاقہ ضرور شروع کر دیتے۔ اس فہرست کے پہنچنے کے دو گھنٹہ بعد سردار پیارا سنگھ ایک اور سلپ لے آئے جو مولانا نے سخت الفاظ کے ساتھ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل کو بھیجی اور جس میں محکمانہ لہجہ میں شکایت کی گئی کہ سامان اب تک کیوں نہیں پہنچا۔ اس کے بعد شام کو ایک اور سلپ پہنچی جس میں دوسری اشیاء کے علاوہ کاغذ پنسل وغیرہ کا بھی مطالبہ تھا۔ یہ سلپیں سردار پیارا سنگھ میرے پاس ہی چھوڑ گئے کیونکہ ان کے لئے یہ ایک لیے معنی پرزے تھے مگر میں نے ان کو بطور تبرک کے احتیاط سے اپنی کتابوں میں رکھ لیا جو اب بھی میرے پاس موجود ہیں اور شاید پچاس ساٹھ یا سو سال کے بعد یہ ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت حاصل کر سکیں ۔ مولانا بے چارے کو تو علم نہیں مگر ان کی ان تحریروں کو دیکھ کر جیل کے افسر اُن کا مذاق اڑاتے تھے اور میں جب اس مذاق کے متعلق سنتا تو مجھے بے حد افسوس ہوتا۔ کیونکہ میرا خیال تھا کہ اگر پنجاب میں سے اگر سکندر حیات کی بیوروکریسی ختم کی جاسکتی ہے اور پنجاب کے زمیندار سسٹم پر چوٹ لگائی جا سکتی ہے تو صرف خاکساروں کے ذریعہ کیونکہ احراریوں کا اثر و اقتدار ختم ہو چکا تھا۔ مسلم لیگ میں کوئی جان نہ تھی اور مسلم لیگی خود خان بہادروں اور خان صاحبوں کا ایک مجموعہ تھے چنانچہ میں اسی لءے خاکسار تحریک کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتا اور ان کے حق میں لکھتا اور میری اس خدمت یا تعریف کے باعث خاکساروں نے میری سلامی مقرر کی تھی یعنی جب میں ان کے کیمپ میں جائوں تو یہ سلامی دیں مگر جب علامہ مشرقی کا ذہنی افلاس اور ان کی حرکات دیکھیں تو مجھے کیا میرا یقین ہو گیا کہ علامہ کی رہنمائی میں خاکسار تحریک کا مستقبل بہت تاریک ہے۔ ان حالات کو دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ علامہ کا کانگریس گورنمنٹ کے زمانہ میں یوپی گورنمنٹ سے معافی مانگنا اور رہائی حاصل کرنا تعجب انگیز نہ تھا۔ اور ایسا کمزور، بزدل، لالچی اور عاقبت نا اندیش لیڈر گورنمنٹ کے ہاتھوں ہر وقت مارا جا سکتا ہے۔ مولا نا چند روز دہلی جیل میں رہے۔ ان کے حالات کا میں بغور مطالعہ کرتا رہا اور میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ مولانا کسی تحریک کو آرگنائز کرنے میں یقیناً ایک لاجواب شخصیت ہیں مگر اس تحریک کو چلانا اور مشکلات کا مقابلہ کرنا ان کے بس میں نہیں۔ مولانا کے متعلق جیل کے ان حالات کے بعد آپ کی دہلی جیل سے روانگی ہے حد دلچسپ ہے۔