Column

آزادی اظہار

تحریر : ندیم اختر ندیم
آزادی اظہار رائے معاشروں میں ایسی آزادی ہے جس سے معاشرے مثالی بنتے ہیں یہ آزادی معاشرتی ترقی، امن اور انصاف کے قیام کے لیے ضروری ہے۔ اس کے ذریعے لوگ اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کر سکتے ہیں جس سے ماحول میں شگفتگی سی رہتی ہے اور اظہار کے پھول کھل کر معاشروں کو معطر کرتے ہیں تاہم یہ اظہار ادب کی زبان سے آراستہ ہو کہ ادب کی زبان اظہار کی دوسری زبانوں سے مختلف ہوتی ہے، لیکن جب اظہار رائے پر بندش لگا دی جائے گی تو حالات کچھ اور ہونگے۔
اسی آزادی کا استعمال کرکے مسلمانان برصغیر نے استعماری قوتوں کو شکست دے کر ان سے آزادی حاصل کی۔ حسرت موہانی اسی پاداش میں بارہا پابند سلاسل کئے گئے کہ انہوں نے کلمہ حق کہا اور جتنی بار انہیں مقید کیا گیا اتنی ہی بار انہوں نے کلمہ بغاوت بلند کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اسی اظہار کا سہارا لے کر باطل قوتوں کو سرنگوں کر دیا۔ اسلامی تاریخ میں نیک دل حکمرانوں نے اپنی رعایا کو اس آزادی سے مالامال کئے رکھا، جس سے معاشروں نے عدل کے انمٹ نقوش چھوڑے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے مسند پر بیٹھتے ہی اس آزادی پر لگے پہرے اٹھا دئیے۔
یہی آزادی ایسی آزادی ہے جس سے ہم حکومت اور حکومتی پالیسیوں پر تنقید کر سکتے ہیں تاکہ کھرے اور کھوٹے میں فرق کیا جا سکے، اور معاشرتی مسائل کی نشاندہی ہو۔ یہ صحافت، ادب، فن، اور سیاست کے لیے بھی بہت اہم ہے ۔ جمہوریت میں آزادی اظہار ایک بنیادی ستون ہے۔ جہاں کھل اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا جاسکتا وہاں جمہوری اقدار کمزور پڑ جاتی ہیں۔ لوگوں کا گلا گھونٹنے سے آمرانہ روئیے مستحکم ہوتے ہیں، جب عوام کو حکومت پر تنقید کرنے اور اپنے مسائل بیان کرنے کا موقع ملتا ہے تو حکومتی ادارے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے زیادہ موثر فیصلے لیتے ہیں تاہم، اس آزادی کے ساتھ ایک ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے کہ اسے معاشرتی، اخلاقی اور قانون کے اندر رہ کر استعمال کیا جائے۔ جب یہ آزادی بے لگام ہو جاتی ہے، تو عزت و تکریم پر حملے، ریاستی اداروں پر بے جا تنقید، اور طاقتور محکموں کے ردِعمل میں تشدد جیسے مسائل جنم لیتے ہیں، جو کسی بھی معاشرے کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ آج کے دور میں سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے ہر کسی کو اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرنے کا موقع فراہم تو کیا ہے، لیکن بعض اوقات اس کا غلط استعمال دیکھنے میں آتا ہے جس سے خرابی بھی پیدا ہوتی ہے۔ تنقید کے نام پر شخصیات کی تضحیک، بہتان تراشی اور جھوٹی خبریں پھیلانا عام ہو چکا ہے۔ آزادی اظہار کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ کسی کی عزت و وقار کو مجروح کیا جائے۔ جب اس آزادی کو نفرت انگیز تقاریر اور ذاتی حملوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تو یہ آزادی نہیں بلکہ معاشرتی بگاڑ کی ایک شکل بن جاتی ہے۔ ریاستی پالیسیوں پر تعمیری تنقید کسی بھی ملک کی ترقی میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے، لیکن اگر یہ تنقید غیر منطقی، بے بنیاد اور تخریبی ہو، تو یہ انتشار اور بداعتمادی کو جنم دیتی ہے۔ کئی بار ریاستی اداروں پر الزام تراشی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ وہ ریاست مخالف بیانیے کا حصہ بن جاتی ہے۔ ایسے رویے نہ صرف ریاستی سالمیت کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں بلکہ عوام میں بے یقینی اور عدم استحکام بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ کسی کی دل آزاری، نفرت انگیز تقریر، جھوٹا پراپیگنڈا، یا قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے بیانات آزادی اظہار کے دائرے میں نہیں آتے۔ اسی لیے دنیا کے بیشتر ممالک میں آزادی اظہار کے ساتھ کچھ قانونی حدود بھی مقرر کی گئی ہیں تاکہ اس کا غلط استعمال نہ ہو۔ ایک مہذب اور جمہوری ریاست میں اختلافِ رائے کے اظہار پر تشدد کا راستہ اختیار کرنا قابلِ قبول نہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ریاستی رٹ کو بھی برقرار رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ آزادی اظہار ایک نعمت ہے، لیکن اس کا غیر ذمے دارانہ استعمال اسے زحمت بنا سکتا ہے۔ عزت و احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے، مثبت اور تعمیری تنقید کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے تاکہ معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ ایک متوازن معاشرہ تب ہی قائم ہو سکتا ہے جب آزادی اور ذمے داری کو یکساں طور پر اپنایا جائے۔
سوشل میڈیا کے آنے سے لوگوں نے آزادی اظہار رائے کو بہت غلط انداز میں استعمال کیا ہے۔ اس رویہ کو روکنے کے لیے، پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016، ایک ایسا قانون ہے جو الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے لیے متعارف کرایا گیا۔ یہ قانون پاکستان میں انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے کیے جانے والے جرائم کو کنٹرول کرنے اور شہریوں کو آن لائن تحفظ فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا۔۔ پیکا ایکٹ 2016کا مقصد ان مسائل سے نمٹنا اور ڈیجیٹل دنیا کو محفوظ بنانا تھا۔ پیکا ایکٹ کے تحت جن امور پر توجہ دی گئی ہے۔ ان میں جھوٹی خبریں یا نفرت انگیز مواد پھیلانے پر قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ انٹرنیٹ کو دہشت گردی کے لیے استعمال کرنا بھی سنگین جرم قرار دیا گیا ہے۔ پیکا ایکٹ کے تحت جرائم کے لیے مختلف قسم کی سزائیں مقرر کی گئیں۔ سابق دور میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پیکا ایکٹ کے کچھ پہلوں کو مزید سخت کرنے کی کوشش کی۔ 2022ء میں، ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اس ایکٹ میں ترامیم کی گئیں، جن میں خاص طور پر آن لائن تنقید اور ’’ جعلی خبروں ‘‘ کے حوالے سے سزاں کو مزید سخت کر دیا گیا، اور اس جرم کو ناقابل ضمانت قرار دیا گیا۔ عمران خان کی حکومت کی ان ترامیم کو اپوزیشن، صحافیوں، اور سول سوسائٹی کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اور اب ایک بار پھر موجودہ حکومت نے اس قانون کو مزید سخت کر دیا ہے۔ قومی اسمبلی، سینیٹ سے پاس ہونے کے بعد صدر مملکت آصف علی زرداری کے دستخطوں کے بعد پیکا ایکٹ 2025قانون نافذ العمل ہوچکا ہے۔ اس قانون کے منظور ہونے کے بعد صحافتی تنظیمیں، میڈیا ہائوسز اور حکومت مخالف سیاسی جماعتیں احتجاج کر رہی ہیں، مثبت اور تعمیری تنقید کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے تاکہ معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ ایک متوازن معاشرہ تب ہی قائم ہو سکتا ہے جب آزادی اور ذمے داری کو یکساں طور پر اپنایا جائے۔ حکومت کو چاہئے کہ صحافیوں کے تحفظات کو خاطر میں رکھتے ہوئے اس ایکٹ کو ایسا شفاف بنائیں کہ یہ متنازعہ نہ ہو صحافی تو اپنے حقوق کی ادائیگی میں اپنی جانوں کی پرواہ نہیں کرتے معاشرے کے یہ صاف ستھرے لوگ حکومتوں کی مثبت پالیسیوں پر انہیں خراج بھی پیش کرتے ہیں حکومت کے لئے غور طلب بات یہ بھی ہے کہ جب کچھ صحافی کسی بات پر احتجاج کریں تو اس میں کوئی الجھائو ہو سکتا ہے لیکن جب ملک بھر کے صحافی سراپا احتجاج ہوں تو مطلب حکومت سے کہیں کوئی بھول ہوئی ہے اس لئے حکومت اس پر نظر ثانی کرے۔

جواب دیں

Back to top button