پیکا ایکٹ پر تحفظات کیوں؟

تحریر : روشن لعل
پیکا ( پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم) ایکٹ 2025پر ان دنوں کئی ’’ جغادری‘‘ صحافی تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ پیکا قانون کا ابتدائی ڈرافٹ میاں نوازشریف کے دور حکومت میں پہلی مرتبہ 2015ء میں تیار ہوا اور 2016ء میں پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد اس وقت کے صدر کے دستخطوں سے قانون بنا تھا۔ عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران اس قانون میں پیکا آرڈیننس2022کے نام سے ترامیم کی گئی تھیں۔ یہ پیکا آرڈیننس فروری 2022ء میں جاری ہونے کے فوراً بعد اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تھا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے پہلے اس آرڈیننس پر حکم امتناع جاری کیا اور پھر آئین کی روح کے منافی قرار دیتے ہوئے اپریل2022ء میں منسوخ کر دیا تھا۔ پیکا ایکٹ 2016میں پیکا آرڈیننس 2022کے نام سے کی گئیں جن ترامیم کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے غیر آئینی قرار دیا، اب اس سے بھی زیادہ سخت ترامیم کو پیکا ایکٹ 2025کے ذریعے اس قانون کا حصہ بنا کر نافذ کیا گیا ہے۔ عمران حکومت کے پیکا آرڈیننس 2022کی طرح ، شہباز حکومت کا پیکا ایکٹ 2025بھی عدالتوں میں چیلنج کیا جا چکا ہے۔ سابقہ عدالتی فیصلوں کو دیکھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن عدالتوں نے پیکا آرڈینس 2022کو خلاف آئین قرار دے منسوخ کیا تھا ان کے سامنے پیکا ایکٹ 2025کیسے ٹھہر سکے گا۔ اس حوالے سے کچھ قانون فہم دوستوں کا کہنا ہے کہ پیکا آرڈیننس 2022پارلیمنٹ کا منظور کردہ نہیں بلکہ صرف صدارتی حکم نامہ تھا لیکن پیکا ایکٹ 2025
کیونکہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد قانون بنا ہے اس لیے اسے عدالتوں میں مذکورہ آرڈیننس کے مقابلے میں زیادہ تحفظ حاصل ہو گا۔ آئین و قانون کے مطابق پیکا ایکٹ 2025کو عدالتوں میں کوئی تحفظ حاصل ہو سکے یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن فی الوقت اس قانون کے متعلق اپنے تئیں یہ رائے پیش کی جارہی ہے کہ جس جواز کے تحت یہ قانون بنایا گیا اور اس میں ترامیم کی گئیں اس جواز کے قابل فہم ہونے کے باوجود اس کے دائرہ کار ، اس پر عمل درآمد کے طریقہ کار اور ان سخت سزائوں کو قابل قبول تصور نہیں کیا جاسکتا جو اس قانون کی زد میں آنے والوں کے لیے مقرر کی گئی ہیں۔
اس وقت اگر پیکا ایکٹ 2025کی مخالفت میں بہت کچھ پڑھنے اور سننے کو مل رہا ہے تو کچھ آوازیں اس کے حق میں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ پیکا ایکٹ 2025کے حوالے سے اپنی کیفیت یہ ہے کہ اس کی حمایت یا مخالفت میں دل سے کچھ بھی برآمد نہیں ہو رہا۔ اپنے اندر ، اس طرح کی کیفیت کو ایک مرتبہ پہلے اس وقت محسوس کیا تھا جب حکومت نے بسنت منانے پر مکمل پابندی عائد کی تھی۔ حکومت نے بسنت پر پابندی اس وقت عائد کی جب یہاں روایتی ڈور کی بجائے کیمیکل ڈور سے پتنگیں اڑانے کی وجہ سے عام راہگیروں اور خاص طور پر موٹر سائیکل سواروں کے گلے کٹنے لگے تھے۔ کیمیکل ڈور لوگوں کے گلوں پر پھرنے کے واقعات سامنے آنے پر، حکومت نے آغاز میں صرف یہ وارننگ دی تھی کہ اگر پتنگ بازوں نے کیمیکل ڈور کا استعمال بند نہ کیا تو مجبوراً پتنگ بازی پر پابندی عائد کرنا پڑے گی۔ بسنت، کیونکہ پتنگ بازی کا تہوار ہے ، اس لیے پتنگ بازی پر پابندی کو بسنت تہوار کی پابندی کا اشارہ تصور کرتے ہوئے راقم سمیت کئی لوگوں نے زبانی اور اپنی تحریروں کے ذریعے یہ مطالبہ کیا تھا کہ پتنگ بازی پر مکمل پابندی عائد کرنے کی بجائے اگر صرف کیمیکل ڈور کی پاکستان درآمد اور اس کے استعمال کا امکان ختم کر دیا جائے تو پوری دنیا میں پاکستان کی ثقافت کا آئینہ دار سمجھا جانے والا بسنت تہوار کسی قسم کے جانی نقصان کے بغیر جاری رکھنا ممکن رہے گا۔ حکومت نے عام لوگوں کے گلے کاٹنے والی کیمیکل ڈور کی تیاری اور استعمال کو ناممکن بنانے کے لیے اپنی طرف سے سخت ترین اقدامات کیے لیکن کیمیکل ڈور کے بزنس سے وابستہ لوگوں اور اس ڈور کے ذریعے پتنگیں اڑانے والوں نے حکومت کی ایک نہ چلنے دی۔ کیمیکل ڈور استعمال کرنے والوں کے ہاتھوں معصوم لوگوں کی زندگیوں کے خاتمی کے حوالے سے جب
یہ ڈیٹا شائع ہوا کہ سال 2000سے2006کے دوران پتنگ بازی کی وجہ سے جاں بحق ہونے والے 825افراد میں سے 90فیصد لوگ گلے پر ممنوعہ کیمیکل ڈور پھرنے سے ہلاک ہوئے تو میرے جیسے لوگوں کے پاس پتنگ بازی پر مکمل پابندی کے حکومتی اقدام پر خاموشی اختیار کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن باقی نہ رہا۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل19میں شہریوں کے آزادی اظہار کا حق تسلیم شدہ ہے ۔ آزادی اظہار کا آئینی حق مسلمہ ہونے کے ساتھ ساتھ مطلق سچ ہونے سے مشروط بھی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کا استعمال وسیع ہونے او ر اس میں نئی جدتیں متعارف ہونے کے بعد سچ بولنے کی شرط بالائے طاق رکھتے ہوئے اس کو وسیع پیمانے پر آن لائن جھوٹ بولنے اور نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ آزادی اظہار کے حق کو جب آن لائن نفرت پھیلانے اور جھوٹ بولنے کے لیے استعمال کیا جانے لگا تو پھر پوری دنیا میں نہ صرف اس طرز عمل کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں بلکہ قانون سازی کا آغاز بھی ہوا۔ پیکا ایکٹ 2016کی منظوری کے وقت بھی یہی کہا گیا تھا کہ اس کے تحت آن لائن نفرت پھیلانے اور جھوٹ بولنے والوں کے خلاف کاروائی کی جائے گی ۔ پوری دنیا میں آن لائن جھوٹ بولنے اور نفرت پھیلانے کے خلاف قانون سازی ہوئی لیکن پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ یہاں ہر دور میں اس طرح کے قوانین کو امتیازی بنا کر استعمال کیا گیا۔ کون نہیں جانتا کہ جب آصف علی زرداری پہلی مرتبہ صدر بنے تو ان کے خلاف مختلف سیاسی جماعتوں، بڑے بڑے میڈیا ہائوسز، کئی نام نہاد جغادری صحافیوں ، عدلیہ میں اعلیٰ عہدوں پر براجمان ججوں اور ایجنسیوں نے باہمی تعاون سے جھوٹ تراشنے اور نفرت پھیلانے کی انتہا کردی تھی۔ آصف علی زرداری اور ان کی حکومت نے ہر طرح کا جھوٹ ، نفرت اور تعصب برداشت کرنے کے باوجود اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں پیکا جیسا کوئی قانون نہیں بنایا تھا۔ پہلی مرتبہ میاں نوازشریف نے پیکا ایکٹ2016 اس وقت بنایا بنایا جب انہیں اس آن لائن نفرت اور جھوٹ کے چھوٹے سے حصے کا سامنا کرنا پڑا جو آصف علی زرداری انتہائی وسیع پیمانے پر برداشت کر چکے تھے۔ اسی طرح جب عمران خان کو اقتدار فراہم کرنے والی بیساکھیاں چھن گئیں اور ان کے خلاف آن لائن پراپیگنڈے کا بازار گرم ہوا تو انہوں نے بھی پیکا آرڈیننس 2022 کے ذریعے اس کا اثر زائل کرنے کی کوشش کی۔ آج پیکا ایکٹ2025 جاری ہونے پر صورت حال یہ ہے کہ جھوٹ اور نفرت کا آن لائن ابلاغ کرنے والے یو ٹیوبر کسی ایجنسی کی بیساکھی کے بغیر یہ کام کرتے ہوئے مال بنا رہے ہیں۔ یہ یو ٹیوبر اپنے تراشیدہ جھوٹ اور نفرت کو گلے کاٹنے والی کیمیکل ڈور سے بھی زیادہ خطرناک طریقے سے استعمال کرتے ہوئے لوگوں کی عزتوں کے جنازے نکال رہے ہیں۔ ان یوٹیوبرز کے خلاف بنائے گئے پیکا ایکٹ 2025پر تحفظات کا اظہار کرتے وقت اگر’’ کیا‘‘ اور ’’ کیوں‘‘ سے شروع ہونے والے کچھ سوال ذہن میں آتے ہیں تو اسے عجیب نہ سمجھا جائے۔