جانے والے واپس نہ آئیں گے

تحریر : سیدہ عنبرین
زمینی حادثات کے ساتھ ساتھ فضائی حادثات اب کوئی نئی بات نہیں، ان کا سبب انسانی غلطی کے علاوہ مشین یا کسی مشینی نظام کا فیل ہو جانا بھی ہوتا ہے۔ امریکہ میں ایسا ہی ایک حادثہ 1982ء میں ہوا، جس میں 74افراد ہلاک ہوئے، 2012ء میں ہونے والے ایک اور حادثے میں 50افراد ہلاک ہوئے۔ تازہ ترین فضائی حادثے میں 67افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، یہ حادثہ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں پیش آیا، جہاں 4کلو میٹر کے اندر وائٹ ہائوس ہے، یہ امریکی صدر کی رہائشگاہ کے علاوہ ان کا آفس بھی ہے، اس کی حفاظت کیلئے کئے گئے انتظامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے اوپر سے کوئی ہوائی جہاز یا ہیلی کاپٹر نہیں گزر سکتا۔ قریب ہی کیپٹل ہل ہے، کچھ فاصلے پر پینٹاگون اور سی آئی اے کے دفاتر ہیں، جن کے بارے میں عمومی تاثر ہے کہ یہاں سے بیٹھ کر امریکی اپنے مفادات کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک کو کنٹرول کرتے ہیں۔ کہاں کس کی حکومت ہو گی، اسے کب اور کیوں بدلنا ہے، دوستوں کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے اور اپنے دشمنوں سے کیسے نمٹنا ہے، یہ اور اس قسم کے تمام فیصلے یہیں ہوتے ہیں، فیصلوں کے بعد وائٹ ہائوس سے اس پر صرف مہر ثبت ہوتی ہے۔
واشنگٹن ایئر پورٹ کا نام رونالڈ ریگن ایئر پورٹ ہے۔ ریگن سابق امریکی صدر رہے ہیں۔ اس ایئر پورٹ سے روزانہ 6سو سے 8سو کے درمیان جہاز پرواز کرتے یا یہاں لینڈ کرتے ہیں، جن میں مسافر جہازوں کے علاوہ کارگو لانے، لے جانے والے جہاز بھی ہیں۔ مزید برآں ایئر پورٹ کے ایک حصے سے فوجی جہاز اور ہیلی کاپٹر اترتے اور فضا میں بلند ہوتے نظر آتے ہیں، ان جہازوں اور ہیلی کاپٹروں سے تربیتی کام بھی لئے جاتے ہیں۔ اس ایئر پورٹ پر غیر معمولی ٹریفک کے سبب اس کی ایئر سپیس بہت کم ہے، جس مسافر طیارے کو حادثہ پیش آیا وہ کینز شہر سے پرواز کر کے رونالڈ ریگن ایئر پورٹ واشنگٹن پر اترنے کیلئے بہت کم بلندی پر آ چکا تھا، اس نے ایئر پورٹ کے ایک مخصوص علاقے کا فضائی چکر لگانے کے بعد ٹھیک 2منٹ بعد رن وے کو چھوتے ہوئے اپنے مقرر کردہ اور فضائی کنٹرول ٹاور کے بتائے گئے ٹرمینل پر جا رکنا تھا، لیکن یہ آخری 2منٹ جہاز اور اس کے مسافروں کو دنیا کے باہر کسی اور دنیا کے کسی اور ٹرمینل پر لے
گئے، اس کے ساتھ ٹکرانے والے ہیلی کاپٹر میں سوار افراد بھی موت کے گھاٹ اتر گئے۔
طیارے اور ہیلی کاپٹر کے پائلٹ دونوں تجربہ کار تھے اور ایسی کسی پرواز کو منزل مقصود پر پہنچا سکے تھے، دنیا بھر کے ایسوسی ایشن ماہرین حادثے سے قبل طیارے کے لینڈ کرنے سے چند منٹ قبل کی فوٹیج کو دیکھ کر اپنا فیصلہ سنا چکے ہیں کہ طیارے کے پائلٹ کی کوئی غلطی نہیں تھی، وہ کنٹرول ٹاور کی ہدایت کے مطابق
’’ ہائی دی بک‘‘
لینڈنگ کیلئے آ رہا تھا، جبکہ ہیلی کاپٹر کا پائلٹ کس خیال کے تحت یا کس کی ہدایت کے مطابق اپنا ہیلی کاپٹر اندھا دھند اڑاتے ہوئے اس سے آ ٹکرایا، یہ بتانے یا یہ کہانی سنانے والا ہیلی کاپٹر عملے کا کوئی فرد زندہ نہیں، لہٰذا یہ راز ہمیشہ کیلئے دفن ہو گیا۔ ہیلی کاپٹر پائلٹ کی آنکھوں کے سامنے اچانک اندھیرا آ گیا، کیا وہ کسی ایسی بیماری کا شکار تھا جس کا اچانک کبھی کوئی اٹیک ہوتا ہے، اس کا دماغ بلڈ سرکولیشن اچانک ختم ہونے سے مائوف ہو گیا، اس کا دل اچانک بند ہو گیا اور اسی دوران چند لمحوں میں اس کا دماغ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو گیا، اگر ان باتوں میں سے کچھ واقعی ہوا تو اس کا معاون اس وقت کیا کر رہا تھا، کیا سوچ رہا تھا اور کیا مشورہ دے رہا تھا، یہ گفتگو شاید بلیک باکس کھلنے پر سامنے آ سکے، لیکن اگر ہیلی کاپٹر کا پائلٹ کسی خود کش اور دشمن کش مشن پر تھا تو پھر سب کچھ سرد دریا کے سرد پانی میں اسی طرح جم جائے گا، جس طرح اس میں گرنے والے 67افراد گرنے اور یخ بستہ پانی میں سے جب نکالے گئے تو وہ کس حد تک جم چکے تھے، پانی میں گرنے والے کم از کم پون گھنٹہ اس ٹھنڈے پانی میں رہے۔ ایک عینی شاہد کے مطابق جو وہیں کہیں قریب ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہا تھا، ’’میں
نے آسمان پر ایک روشنی کا ہولا دیکھا میں ٹھیک طریقے سے اندازہ نہ لگا سکا کہ یہ کیا ہے میں اپنے کھانے میں مصروف ہو گیا اور پھر کچھ ہی دیر ٹی وی کی سکرین پر نظر پڑی تھی، ایک مسافر جہاز کے ساتھ ایک ہیلی کاپٹر ٹکرانے اور دونوں کے تباہ ہونے کی خبر نشر کی جا رہی تھی‘‘۔
حادثے کے فوراً بعد ایئر پورٹ کو کسی بھی قسم کے آپریشن کیلئے مکمل بند کر دیا گیا، جبکہ سیکڑوں فلائٹس کے ذریعے سفر پر روانہ ہونے والوں نے اپنی ٹکٹیں منسوخ کرانا شروع کر دیں، جس سے مختلف ایئر لائنز کو بہت نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ سب سے زیادہ نقصان اس ایئر لائن کو ہوا جس کا طیارہ حادثے میں تباہ ہو گیا، مسافروں کی طرف سے یہ ایک نفسیاتی ری ایکشن تھا، جو اس قسم کے فضائی حادثے کے بعد عموماً دیکھنے میں آتا ہے، لیکن چند روز بعد حالات معمول پر آ جاتے ہیں، وقت بہت بڑا مرہم ہے، انسان سب کچھ بھول کر اپنی زندگی سے جڑے جھیلوں میں گم ہو جاتا ہے، جن کے زندگی کے ساتھی، اہلخانہ یا دیگر عزیز بھی ایسے حادثوں کا شکار ہو جاتے ہیں وہ بھی جلد یا بدیر معمول کی زندگی کی طرف لوٹنے پر مجبور ہوتے ہیں، کوئی کسی کا غم سینے سے لگا، ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تمام عمر بے کار نہیں بیٹھ سکتا۔ مشرقی ممالک میں لوگ صدمے سے باہر آنے میں کچھ زیادہ وقت لیتے ہیں، لیکن ترقی یافتہ ممالک خصوصاً امریکہ و یورپ میں 2سے 4روز بعد انسان اس کیفیت سے باہر آ جاتا ہے۔
امریکہ میں یکے بعد دیگرے 3جہاز حادثات کا شکار ہوئے ہیں، ایک اور چھوٹے پرائیویٹ جیٹ کے تباہ ہونے کی بھی اطلاع آرہی ہے، ایسے جیٹ متمول سیاسی کاروباری یا شوبز شخصیات استعمال کرتی ہیں۔ ایک اور طرف بھی دھیان جاتا ہے کہ کہیں بعض اہم شخصیات کسی کی ہٹ لسٹ پر تو نہیں ہیں یا ان حادثات کا ملبہ کسی اور ناپسندیدہ ملک پر ڈالنے کی تیاری تو نہیں۔ واشنگٹن جہاز حادثے میں جاں بحق ہونے والی ایک نوجوان لڑکی کا تعلق پاکستان سے بتایا جا رہا ہے، جو اڑھائی برس قبل شادی کے بندھن میں بندھی تھی، تمام مسافروں کے تمام بندھن ٹوٹ گئے، تحقیقات میں جو کچھ بھی سامنے آئے، جانے والے واپس نہیں آئیں گے۔