صابن سے فٹ بال تک، اب سب ہوتا ہے جیل میں تیار

تحریر : فیاض ملک
جیلیں کسی بھی مہذب معاشرے کا لازمی حصہ ہوتی ہیں جہاں مختلف جرائم میں ملوث قیدیوں کی سزا کیساتھ ساتھ ان کی اصلاح کا انتظام بھی ہوتا ہے، پنجاب جیل خانہ جات کا محکمہ 1854میں صوبہ پنجاب کی مختلف مرکزی، ضلعی اور خصوصی جیلوں میں قیدیوں کی تحویل، دیکھ بھال اور اصلاح کیلئے قائم کرتے ہوئے ڈاکٹر سی ہیتھ وے کو پہلا انسپکٹر جنرل مقرر کیا گیا تھا، جیلوں کا ایکٹ 1894کا ایکٹ نمبر IXگورنر جنرل آف انڈیا نے کونسل میں 22مارچ 1894کو منظور کیا تھا، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ڈسٹرکٹ جیل سیالکوٹ 1865سے، ڈسٹرکٹ جیل شاہ پور ڈسٹرکٹ سرگودھا 1873سے، ڈسٹرکٹ جیل جہلم 1854سے، ڈسٹرکٹ جیل راجن پور 1860سے، بورسٹل انسٹی ٹیوشن اینڈ جووینائل جیل بہاولپور 1882سے، ڈسٹرکٹ جیل جہلم 1854سے 1872سے، ڈسٹرکٹ جیل فیصل آباد 1873 سے، سینٹرل جیل گوجرانوالہ 1854سے اور صوبہ سندھ میں ڈسٹرکٹ جیل اب جووینائل جیل دادو 1774سے فعال تھی، آزادی کے وقت پنجاب کے حصہ میں19جیلیں آئیں،24نئی جیلوں کی تعمیر کے بعد
اب43جیلیں کام کر رہی ہیں جن میں ایک ہائی سکیورٹی،9سینٹرل، 25ڈسٹرکٹ ،2بورسٹل انسٹی ٹیوشنز اینڈ جووینائل، ایک خواتین کی اور2 سب جیلیں ہیں۔1981ء سے پہلے پاکستان کے تمام صوبوں میں جیل افسران خاکی رنگ کی وردی پہنتے تھے، بعد ازاں محکمہ جیل خانہ جات کے افسران اور جوانوں کیلئے پولیس ٹائپ یونیفارم تجویز کرنے کی تجویز دی گئی تھی اس طرح وفاقی وزارت داخلہ اسلام آباد میں ایک اجلاس ہوا اور جیل اہلکاروں کیلئے یونیفارم کا پیٹرن تبدیل کر کے کالی شرٹ اور خاکی پینٹ کر دیا گیا تھا، یہ تو تھی پنجاب جیل خانہ جات کی تاریخ ، اب کچھ بات کرتے ہیں جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کے بارے میں، جی ہاں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہے جہاں کی جیلوں میں گنجائش سے بڑھ کر لوگ قید ہیں، رپورٹ کے مطابق پنجاب کی جیلوں میں 37ہزار 563قیدیوں کی گنجائش ہے جبکہ 43جیلوں میں اس وقت 67ہزار سے زائد قیدی بند ہیں، جن میں خواتین قیدیوں کی تعداد 1167اور کم عمر قیدیوں کی تعداد 932ہے، ہائی سکیورٹی سیل اور بیرکس میں 6616قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش ہے، واضح رہے کہ 2010ء کے بعد پنجاب میں 11نئی جیلیں تعمیر کی گئی تھیں لیکن اس کے باوجود تاحال پنجاب کی جیلیں 80 فیصد اوور کراوڈڈ ہیں ، یہی وجہ ہے کہ استعداد سے زیادہ قیدیوں کی وجہ سے جیلوں میں صحت کی سہولیات ناکافی، غیر معیاری خوراک، ادویات ناپید ہونا، علاج تک ر سائی گھمبیر مسائل رہے ہیں جو آج بھی کافی حد تک موجود ہیں، بلاشبہ جیلوں میں قیدیوں کی اکثریت معاشرے کے محروم طبقات سے تعلق رکھتی ہیں جو اپنی غلطیوں کی سزا تو بھگت رہے ہوتے ہیں لیکن یہ چیز ان لوگوں کو ان کے انسانی اور بنیادی حقوق سے محروم نہیں کرتی، صاف ستھری تازہ ہوا، حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق تیار کردہ خوراک اور بیماری کی صورت میں علاج معالجہ کی سہولت سب قیدیوں کا حق ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے جیلوں میں قید لوگوں کی صحت، خوراک پر ہنگامی بنیادوں کام ہوتا دکھائی دے رہا ہیں اب وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی خصوصی توجہ کی بنا پر جیل اصلاحات کا آغاز ہو چکا ہے، جس میں سرفہرست جیل سے عدالت پیشی پر قیدیوں کو کھانا اور پانی کی بوتلیں فراہمی ہے، عدالت میں پیشی پر آنیوالا قیدی بخشی خانے میں دوران قیام دوپہر کا کھانا کھاتے ہیں، پنجاب کی 43جیلوں میں روزانہ کی بنیاد پر10ہزار قیدیوں کو پیش کیلئے لائے جانے کے دوران ان کو دوپہر کا کھانا اور پانی فراہم کیا جا رہا ہے، یہی نہیں بلکہ پنجاب بھر کی جیلوں میں اسیران کو بروقت کھانے کی فراہمی کیلئے کچن اور غلہ گودام موجود ہیں جہاں کسی قیدی کو کچن لیبر کیلئے مختص کرنے سے قبل اس کا جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی معائنہ لازمی قرار دیا گیا ہے۔ پنجاب کی جیلوں میں ہفتے میں 7بار مرغی کا سالن دیا جارہا ہیں جس میں چکن کڑاہی، چکن جنجر، قورمہ، پلائو اور کڑاہی جیل کے پکوان مینیو میں شامل ہیں، اس اپ گریڈ شدہ مینو کا مقصد قیدیوں کو روزانہ 2800سے 3000کیلوریز والا کھانا فراہم کرنا ہے، پیاز، ادرک اور ٹماٹر کی مقدار میں 25فیصد اضافے کے ساتھ قصوری میتھی کو کھانے کا ذائقہ بہتر بنانے کیلئے شامل کیا گیا ہے، اس نئے مینو کو ماہرین کے ان پٹ کے ساتھ احتیاط سے تیار کیا گیا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ قیدیوں کی مطلوبہ حراروں کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ میری گزشتہ دنوں آئی جی جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر سے ایک تفصیلی ملاقات ہوئی، جس میں انہوں نے بتایا کہ جیلوں میں بند افراد کو قانون کے مطابق سہولیات دینا محکمہ جیل خانہ جات پنجاب کی اولین ترجیح ہے ہر جیل میں قیدیوں کی میڈیکل کی سہولت کیلئے ہر وقت ڈاکٹر ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں موسمی کی وجہ اور سردی سے بچائو کیلئے تمام جیلوں، بیرکوں کے جنگلوں کو پلاسٹک شیٹ لگا دی گئی ہے تاکہ سردی انداز نہ جاسکے اس کے علاوہ ان کو اچھا معیاری کھانا گرم چائے دی جاتی ہے ، ڈاکٹر جیلوں میں بند افراد کا علاج چیک اپ کرتا رہتا ہے، مخیر حضرات کی مدد سے جیلوں میں بند نادار قیدیوں کے جرمانے کی ادائیگی جاری ہے، پریزن فائونڈیشن کے تحت تعلیم، علاج معالجے، شادی کیلئے فنڈز دے رہے ہیں، جیلوں کی سکیورٹی کیلئے جدید جیمرز اور کیمرے لگا رہے ہیں، وہاں پر سولر انرجی پر لا کر لوڈشیڈنگ فری بنایا جا رہا ہے، جیلوں میں ملاقاتیوں کیلئے سہولیات کیلئے پی سی او بوتھ بنائے اور ویڈیو کال کی بھی سہولت دے رہے ہیں، اسی طرح محکمہ صحت کے تعاون سے قیدیوں کو بہترین طبی سہولیات بھی فراہم کی جا رہی ہیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ جیلوں میں ووکیشنل ٹریننگ دے رہے ہیں جس سے قیدیوں کو سکل مل رہا ہے، پنجاب کی مختلف جیلوں میں قیدیوں کو ہنر مند بنانے کیلئے مختلف صنعتی یونٹ لگائے گئے ہیں جہاں قیدیوں کی تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو مختلف ہنر سکھائے جارہے ہیں، قیدیوں کے کھانے کیلئے خالص آٹے کی فراہمی کیلئے آٹا پیسنے والی چکیوں کی کامیاب تنصیب کی گئی ہیں، پنجاب کی 5سینٹرل جیلوں راولپنڈی، گوجرانوالہ، ساہیوال، بہاولپور اور ملتان میں پرنٹنگ پریس، ٹف ٹائلز، فرنیچر، جوتا سازی ، صابن ، سرف ، بلب بنانے،قالین، فٹ بال اور برتنوں کی تیاری کیلئے انڈسٹریل یونٹ قائم کیے گئے ہیں، اب یہ جیلیں نہیں بلکہ کاریگروں کی انڈسٹری بن چکی ہیں جہاں پر صابن، ٹف ٹائلز، فرنیچر، جوتے، سرف، بلب، قالین، برتن اور فٹ بال تک اب سب ہوتا ہے تیار، جن کے آرڈرز ملنے سے جیلوں کے مالی مسائل کافی حدتک کم ہو گئے ہیں، اسیران بھی مناسب اجرت ملنے پر مطمئن ہیں، جیلوں میں اصلاحات ترجیح ہے ، تاہم اربوں کے منصوبوں کو جون2025 ء میں مکمل کرکے جیلوں کا ماحول بہتر کرنے میں کافی حد تک مدد ملے گی ان کا مزید کہنا تھا کہ قیدیوں کو ہنر سکھانے کیلئے ٹیوٹا کی مدد سے مختلف پروگرام بھی چل رہے ہیں ، جیلوں میں اربوں کے منصوبوں کو آئندہ سال جون میں مکمل کر لیں گے ، بچوں کی جیلوں کو مزید بہتر کرنے کیلئے بھی کاوشیں جاری ہیں، جیلوں میں خواتین قیدیوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے، تعداد 3500سے کم ہو کر صرف ایک ہزار رہ گئی ہے، اب پنجاب کی جیلوں میں صرف اعلیٰ معیار کے قالین تیار ہونگے۔ قیدیوں کو معاشرے کا مفید حصہ بنانے کیلئے کمپیوٹر، الیکٹریشن، بڑھئی، بیکری، دستکاری، پلمبر اور حجام کی تربیت بھی دی جا رہی ہے۔ قیدیوں کی اصلاح کیلئے تعلیم و تربیت اور مختلف ہنر سکھانے کے مختلف پروگرام چل رہے ہیں جس میں کمپیوٹر، الیکٹریشن، بڑھئی، بیکری، دستکاری، پلمبر اور دیگر ہنر کی تربیت دی جا رہی ہے تاکہ قیدی جیل سے باہر جا کر روزگار کمائیں اور معاشرے کا ایک اچھا شہری بن کر ملک و قوم کی خدمت کر سکیں، مختلف جیلوں میں کروڑوں روپے سے54کمروں پر مشتمل فیملی رومز فعال ، پندرہ جیلوں میں الیکٹریکل وائرنگ ، ٹیلرنگ اور بیوٹیشن کے کورسز سے سیکڑوں اسیران مستفید، جیلوں میں88سا ئیکاٹریسٹ کی تعیناتی اور قیدیوں کی تربیت سے خود کشی کی واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے، بچوں کی جیلوں کو بحالی مراکز میں تبدیل کر رہے ہیں۔ جیلوں کو مزید محفوظ بنانے کیلئے 5ہزار جدید کیمرے لگا رہے ہیں،پہلے مرحلے میں ہائی پروفائل جیلوں میں اضافی کیمرے لگائے جائیں گے، آئی جی جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر سے گفتگو میں مجھ کو جیل پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے کچھ تلخ سوالات بھی کرنے پڑے لیکن پھر بھی انہوں نی انتہائی تحمل سے جوابات کے ذریعے مجھے مطمئن کرنے کی کوشش کی، جس کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ موجودہ حالات میں محکمہ جیل خانہ جات قیدیوں اور جیل حکام کی بہبود پر خاص توجہ دے رہی ہے، یقینا یہ بڑی اچھی بات ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کا تمام تر کریڈٹ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے۔