CM RizwanColumn

تنقید و فساد نہیں تعمیری تحریک کی ضرورت

تحریر : سی ایم رضوان
نہایت افسوس کی بات ہے کہ چھ سال قبل جب ملک میں عمران پراجیکٹ لانچ کیا گیا تو ملک کے تعلیمی ماحول میں ملک دشمنی اور اپنی ہی ملت سے نفرت کا بیج بو دیا گیا اور آج صورتحال یہ ہے کہ ملک کی یوتھ میں فیک نیوز، گالی اور دشنام طرازی کا مقابلہ اس طرح سے جاری ہے کہ سخت ترین ریاستی اقدامات کے باوجود بھی یہ طوفان بدتمیزی ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ یہی ملک ہے کہ جب ہماری یوتھ میں تعلیم اور ہنرمندی کا مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ تب ارفع کریم رندھاوا نامی ایک ہونہار بچی نے پوری قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا۔ یہ 2فروری 1995ء کی ایک خوشگوار اور خوش کن صبح تھی جب پنجاب کے شہر فیصل آباد کے مضافات میں واقع سبزے سے ڈھکے چک رام دیوالی کے ایک چھوٹے سے گھر میں ستاروں جیسی چمکدار آنکھوں والی ایک بچی پیدا ہوئی آغوش مادر میں ہی بچی کی بڑی بڑی غلافی آنکھوں سے ذہانت چھلک رہی تھی، اس کی فراخ پیشانی پر پیدائشی طور پر ہی خوش بختی کی اک مہر لگی ہوئی تھی جو اس امر کی گواہی دے رہی تھی کہ وہ غیر معمولی ذہانت کی حامل بچی تھی، ویسے تو وہ عام انسانوں کی مانند 16 برس تک اپنے والدین اور خاندان والوں کے درمیان جیتی رہی مگر اپنے عزم، حوصلے اور ذہانت سے دنیا کو یہ باور کرا گئی کہ اگر مواقع میسر ہوں تو پاکستان کی خواتین اور بیٹیاں بھی کسی دوسرے ملک کی ذہین و فطین خواتین سے پیچھے نہیں، یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ملک میں خواتین کو عموماً ہانڈی چولہے اور جھاڑو، پونچھے تک محدود ہی سمجھا جاتا ہے حالانکہ ہمارے پیارے اور قابل فخر وطن میں ارفع کریم اور ملالہ جیسی چٹان جیسے حوصلے اور عزم کا پیکر بچیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ ارفع کریم رندھاوا اس حوالے سے ایک قابل فخر مثال ہے کہ معمولی گاں چک رام دیوالی میں پیدا ہو کر کم سنی میں ہی مائیکرو سافٹ ہیڈ کوارٹرز تک جا پہنچی اور بل گیٹس تک کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا۔
بلاشبہ ارفع کریم اپنے بعد آنے والے پریوں کی داستانوں اور رومانوی ناولز میں جی کر زندگی گزارنے والی ’ ایوریج‘ پاکستانی لڑکیوں کے لئے ایک رول ماڈل بھی ہے جس کی زندگی سے ملک کی کئی بیٹیاں تحریک حاصل کر سکتی ہیں کیونکہ ارفع کریم صرف بقول بل گیٹس کے ہی مائیکرو سافٹ کی ’ شہزادی‘ نہ تھی بلکہ پوری پاکستانی قوم کا فخر تھی، وہ اپنے گھر یا خاندان کی آنکھوں کا تارا ہی نہ تھی بلکہ ہر پاکستانی عورت کا مان اور غرور تھی، اس کی پوری زندگی ہزاروں پاکستانی لڑکیوں کے لئے بلاشبہ قابل تقلید ہے کہ جن کے پاس بہت کچھ کر دکھانے کا عزم تو ہے مگر پائوں میں روایتی اور مصنوعی مجبوریوں کی آہنی بیڑیاں ہیں، جن کو توڑ کر آگے بڑھنا موجودہ وقت میں بیٹیوں کے لئے ازحد ضروری ہے۔ اس حوالے سے لفظ ناممکن کو ذہن اور زبان پر لانا یقیناً گناہ عظیم ہے۔ ارفع، کریم کرنل امجد کریم رندھاوا کے گلشن میں کھلنے والا پہلا پھول تھی، چند سال بعد جب اس کا بھائی اس دنیا میں آیا تو یہ ننھی گڑیا اس وقت تک بہت سمجھدار ہو چکی تھی، وہ دیگر بچوں کی طرح کھلونوں سے کھیلنا پسند نہیں کرتی تھی، اس کی ساری عادات سب سے الگ تھلگ اور انوکھی تھیں۔ دو برس کی عمر میں اس نے کمپیوٹر میں دلچسپی لینا شروع کر دی تھی، کچھ عرصے تک وہ دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کو سمجھتے اور پرکھتے رہے، وہ اپنے بھائی سے بہت زیادہ پیار کرتی تھی مگر اس کی دنیا اور دلچسپی الگ ہی تھی۔ دو سال کی عمر میں ہی ارفع کریم کی کمپیوٹر سے دوستی کی بنیاد پڑی جو وقت کے ساتھ بڑھتے بڑھتے اس کا جنون بن گئی، وہ عمر جس میں لڑکیاں گڈے اور گڑیوں کی شادی رچایا کرتی ہیں، وہ اس عمر میں سکول کی تعلیم کے ساتھ کمپیوٹر ٹریننگ کا باقاعدہ آغاز کر چکی تھی۔ اس کی غیر معمولی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے، اس کے ٹرینرز بھی اسے بھرپور توجہ اور زیادہ ٹائم دیتے رہے، یوں محض 9برس کی عمر میں ارفع کریم نے زندگی کا ایک سنگ میل عبور کرتے ہوئے دنیا کی کم عمر ترین مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کا اعزاز حاصل کرلیا۔
یہ ریکارڈ دنیا بھر کے نوجوانوں اور بچوں کے لئے ایک زبردست تحریک ثابت ہوا، بہت سے بچے اسے چیلنج سمجھ کر کمپیوٹر کی فیلڈ میں آئے اور 4سال بعد 2008ء میں 9برس 27دن کے بابر اقبال اس ریکارڈ کو توڑنے میں کامیاب ہوئے اور پھر 8سالہ شافع بھوتانی، 7سالہ شایان اختر اور 5سالہ ایان قریشی (2014)یکے بعد دیگرے اس ریکارڈ کو توڑنے کا کارنامہ سر انجام دے چکے تھے۔ یہ ایک تحریک، ماحول اور قومی خواہشات کا کمال ہے کہ جب میڈیا اور انٹرنیٹ پر تعلیم اور ہنر مندی کا مقابلہ اور اہمیت بیان کی جائے تو ملک کے طلباء تعلیم و ہنر مندی میں آگے بڑھتے ہیں لیکن جب میڈیا ٹاک اور معاشرتی ماحول میں سیاسی مداریوں کا غلبہ ہو اور طلباء و اساتذہ کو ایک سازش کے تحت سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جانا شروع کر دیا جائے تو پھر سارا وقت۔ مار دھاڑ اور تنقید و فساد میں گزر جاتا ہے اور ملک کی خیر خواہی کی بجائے بدخواہی اور فتنہ و فساد کا دور دورہ رہتا ہے۔ جس طرح کہ ملک میں بدقسمتی سے عمران پراجیکٹ لانچ کئے جانے کے بعد پچھلے پانچ چھ سالوں سے ملکی ذہانت اور یوتھ کو سیاست کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے اور ارفع کریم جیسی کوئی اور بچی یا بچہ تعلیم کے میدان میں آگے نہیں آ رہا بلکہ
نوجوانوں کے مابین فیک نیوز کا نہ ختم والا لعنتی قسم کا کھیل جاری ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ارفع کریم صرف کمپیوٹر کی فیلڈ میں ہی کامیابی کے جھنڈے نہیں گاڑ رہی تھی بلکہ وہ بہترین مقررہ، نعت خواں اور ایک اچھی شاعرہ بھی تھی، ایک طرف اس کے ذاتی کمرے کا شیلف ٹرافیوں، گولڈ میڈلز اور سرٹیفیکٹس سے بھرتا گیا، تو دوسری جانب عالمی اُفق پر بھی اس کی اچیومنٹس سب سے جدا تھیں، آئے روز اس کی وجہ سے پاک وطن کا نام عالمی سطح پر جگمگاتا نظر آنے لگا، 2005ء میں اس کی غیر معمولی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے مائیکروسافٹ نے اسے ایک اعزاز سے نوازا، مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے اسے ملاقات کے لئے اپنے ہیڈ کوارٹر مدعو کیا۔ اس وقت دنیا کے امیر ترین، ذہین اور نہایت سحر انگیز شخصیت کے حامل شخص کے سامنے بھی اس کم عمر بچی کا اعتماد دیدنی تھا، ایسی صورتحال میں جہاں بڑے بڑے کوالیفائیڈ لوگوں کی زبانیں لڑکھڑا جاتی ہیں، وہاں بھی یہ 10سالہ بچی بھرپور اعتماد کے ساتھ وہ پوائنٹس سامنے لاتی رہی کہ بل گیٹس بھی چند لمحوں کے لئے ہکا بکا ہو کر اسے دیکھتے رہ گئے۔
دنیا کے مایہ ناز اور بہترین کمپیوٹر سافٹ ویئر ادارے کا دورہ کرتے ہوئے بھی وہ انہی خواتین کے بارے میں سوچ رہی تھی، جن کے لئے وہ رول ماڈل بننا چاہتی تھی، یہ بل گیٹس اور ارفع کریم کی شارٹ ٹرم ریلیشن شپ کا آغاز تھا اور دونوں کو پوری امید تھی کہ وہ مستقبل میں اکٹھے بہت کچھ کر دکھائیں گے، مگر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ہاں ایک برس بعد ارفع کریم کو مائیکرو سافٹ کی طرف سے بارسلونا میں منعقد ہونے والی ایک ٹیکنیکل ایجوکیشن کانفرنس میں رول ماڈل کے طور پر مدعو کیا گیا، جس کا عنوان تھا ’ دنیا سے دو قدم آگے‘ اور بلاشبہ دنیا بھر سے شرکت کرنے والے مدعوین جن میں اکثریت سینئر آئی ٹی پروفیشنلز کی تھی، میں ارفع کریم اپنی عمر سے بڑھ کر کام کرنے والوں میں سب سے آگے تھی، اس کے بعد بھی مائیکرو سافٹ ہی نہیں، کئی اور انٹرنیشنل ادارے مختلف فورمز پر ارفع کریم کو مدعو کرتے رہے اور ہر جگہ اپنے بھرپور اعتماد کے ساتھ ارفع اپنی پاک دھرتی کی نمائندگی کرتی رہی۔
چند برس بعد اسے ایک بار پھر مائیکرو سافٹ کے ہیڈ کوارٹر بلایا گیا، تب تک اس کی صلاحیتیں کچھ اور نکھر کر سامنے آ چکی تھیں اور کئی فورمز سے اسے مسلسل آفرز آ رہی تھیں کہ وہ بیرون ملک اپنی تعلیم مکمل کرے، مگر اس ننھی پری کا اپنے وطن سے رشتہ اٹوٹ تھا، جس مٹی سے اس کا خمیر اٹھا تھا، وہ جانتی تھی کہ پہلا حق اسی کا ہے، وہ یہیں اپنی تعلیم جاری رکھتے ہوئے اپنے مستقبل کی پلاننگ کرتی رہی۔ یوں ایک ننھی سی محب وطن جان ایک ساتھ کئی محاذوں پر ڈٹی ہوئی تھی اور آئندہ اس سے بڑھ کر کچھ غیر معمولی کر دکھانے کا عزم رکھتی تھی، پاکستان میں عموماً ٹیلنٹ کو آگے بڑھنے کے مواقع اور سہولیات کم ہی فراہم کی جاتی ہیں، مگر ارفع کریم اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہی رہی کیونکہ اسے حکومتی سطح پر ہی نہیں بلکہ نجی سیکٹر سے بھی بھرپور پذیرائی مل رہی تھی۔ ایک طرف وہ ایوان صدر کے معزز، معتبر اور سینئر مہمانوں میں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی’ پرائڈ آف پرفارمنس‘ پانے والوں میں سب سے کم عمر تھیں تو دوسری جانب ’ سلام پاکستان ایوارڈ‘ اور ’ فاطمہ جناح ایوارڈ آف ایکسیلنس ان سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘ جیسے اعزازات اس کے قد میں اضافہ کرتے چلے گئے۔ وہ مختصر سی عمر میں ہی نوجوانوں کا ہیرو بن گئی تھی، اس کے نئے خیالات پر بہت سے محب وطن پاکستانی سرگرم ہوئے اور انہی میں سے ایک اچھوتا تصور انڈیا کی ’ سیلیکون ویلی‘ کے طرز پر پاکستانی یوتھ کے لئے ایک ’ ڈیجی کون ویلی‘ کا قیام تھا، اور اپنے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے وہ پوری طرح مستعد اور سرگرم تھی، اس کی ہمت، حوصلے اور اعلیٰ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے سب کو یقین تھا کہ یہ بچی کچھ نہ کچھ کر کے دکھائے گی، مگر ارفع کے پاس وقت بہت کم تھا، یہ تو عارضی پڑائو تھا، اسے جلد اپنی حقیقی منزل کو روانہ ہوجانا تھا۔
21دسمبر 2011ء کی ایک سرد رات کو ارفع کریم نے اپنی ماں سے سر میں درد کی شکایت کی تو انہوں نے اسے حد سے زیادہ پڑھائی اور کمپیوٹر استعمال کرنے پر سرزنش کرتے ہوئے میڈیسن دے کر آرام کرنے کے لئے لٹا دیا، مگر اس رات وہ ایسی گہری نیند سوئی کہ پھر کبھی جاگ ہی نہ سکی، اگلی صبح ہارٹ اٹیک اور برین ہیمبرج کے باعث بہت افراتفری میں اسے لاہور کے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال لے جایا گیا تو اس خبر نے پاکستان ہی نہیں ساری دنیا میں ارفع کے مداحوں پر تاسف کا کوہ گراں گرا دیا، وہ ہم سب سے ہمیشہ کے لئے بچھڑ کر خالق حقیقی سے جا ملی۔ ڈاکٹرز کے مطابق ارفع کریم کا دماغ شدید متاثر ہوا تھا اور پاکستان میں اس کا علاج ممکن نہ تھا اور اس کے والدین فوری طور پر اسے ملک سے باہر لے کر جانے کے وسائل نہیں رکھتے تھے۔ ارفع کریم 22روز تک لاہور کے ہسپتال میں موت سے جنگ لڑتی رہی، پوری قوم اپنی اس ننھی پری کے لئے دعا گو تھی۔ ارفع کی حالت روز بروز گرتی جا رہی تھی، اور وہ صرف لائف سیونگ مشین پر زندہ تھی، عین ممکن تھا کہ اگر اسے بیرون ملک علاج کے لئے لے جاتے تو وہ تب بھی نہ بچتی، کیونکہ موت تو بہرحال اپنے وقت پر آتی ہے، مگر کم سے کم دل کی یہ خلش یوں ناسور تو نہ بنتی کہ ہم بدنصیب اللہ کریم کے اس انمول تحفے کی صحیح طرح قدر نہیں کر پائے، اب اس جیسے کسی اور کی امید بھی کریں تو کیسے؟ کیونکہ آج کے نوجوانوں کو ذہنی طور پر تنقید اور فساد پھیلائے پر لگا دیا گیا ہے اور ملک و قوم کے مفاد کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کر کے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بہت بڑا کام کیا ہے حالانکہ اس وقت ملک کو فتنہ و فساد کی نہیں تعمیری تحریک کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

Back to top button