ColumnImtiaz Aasi

مذاکرات کا کھیل ختم ہوا

تحریر ،امتیاز عاصی
حکومت پی ٹی آئی مذاکرات بالاآخر کسی نتیجہ کے بغیر اختتام پذیر ہوئے۔ ہم تو پہلے کالموں میں کہہ چکے تھے مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ اختیارات کا مرکز کہیں اور ہو تو حکومت سے مذاکرات بے معانی ہو جاتے ہیں۔ ظاہر بات ہے پی ٹی آئی کا مذاکرات کا مقصد اپنے گرفتار شدہ رہنمائوں کی رہائی کے سوا کیا ہو سکتا تھا۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن اور سینیٹر عرفان صدیقی نے راز افشاء کر دیا مذاکرات کے دوسرے دور میں عمران خان، شاہ محمود، محمودالرشید، اعجاز چودھری اور یاسمین راشد کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔ تعجب ہے عرفان صدیقی فرماتے ہیں وہ آج بھی مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ ہمیں تو عمران خان پر حیرت ہوتی ہے پہلے وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کی بجائے طاقتور حلقوں سے بات چیت کے خواہاں تھے طاقتور حلقوں کے انکار کے بعد وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے رضامند ہوئے۔ سابق وزیراعظم عمران خان یہ جانتے ہوئے کہ حکومت کے پاس پی ٹی آئی کے گرفتار شدگان کی رہائی کا اختیار نہیں ہے۔ جہاں تک پی ٹی آئی کے سانحہ نو مئی پر جوڈیشل کمیشن بنانے کی بات ہے وہ تو وقت ویسے گزر چکا ہے۔ اگرچہ ملک میں آئین اور قانون پر عمل درآمد مذاق بن چکا ہے اس کے باوجود حکومت اپنی جگہ ٹھیک ہے انکوائری کمیشن ایکٹ 1956کے تحت جب کوئی معاملہ عدالت میں ہو تو انکوائری کے لئے کمیشن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ بدقسمتی سے ملک میں کوئی حکومت ہو اپنے مفادات کے لئے آئین اور قانون کی مختلف تشریحات کر لی جاتی ہیں۔ بات اسی پر رکی ہوئی ہے کسی طریقہ سے عمران خان سانحہ نو مئی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے معذرت کر لے۔ عمران خان کو ہم زیرک سیاست دان نہیں کہہ سکتے البتہ یہ ضرور ہے وہ سانحہ نو مئی کی ذمہ داری کسی صورت قبول نہیں کرے گا نہ ہی معافی مانگے گا۔ عمران خان کا دعویٰ ہے سانحہ نو مئی طاقتور حلقوں کا کیا دھرا ہے لہذا معافی کس بات کی مانگے۔ بعض صحافتی حلقے عمران خان کو یہ ذمہ داری قبول کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے لوگوں کے علاوہ عمران خان کا اپنا خاندان مشکلات
میں گھیرا ہے۔ درحقیقت عمران خان کو سیاسی اکھاڑے میں اتارنے والے طاقتور حلقوں کے لوگ تھے جس کے بعد اسے اقتدار میں لایا گیا ۔ معاملات اس وقت خراب ہوئے جب عمران خان نے طاقتور حلقوں کو آنکھیں دکھانی شروع کیں اور ان کی خواہشات پر اترنے سے انکار کیا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے قائدین کے خلاف ایک عرصہ سے مقدمات چل رہے تھے اگر کسی کا فیصلہ ہو بھی گیا تو فیصلوں کے خلاف اپیلیں آج بھی عدالتوں میں زیرالتواء ہیں۔ جن قوموں میں انصاف میں امتیاز برتا جائے ان اقوام کا انجام ہم جیسا ہوتا ہے اس کے باوجود ہم عبرت حاصل نہیں کرتے۔ سانحہ نو مئی میں ملوث پی ٹی ائی کے بہت سے ورکرز کو سزائیں ہو چکی ہیں جن کی سزائوں کا عرصہ مکمل ہو چکا تھا انہیں رہائی مل چکی ہے۔ جن پی ٹی آئی رہنمائوں کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں ان کے مقدمات کی نوعیت کچھ مختلف ہے۔ ہمارا تو پی ٹی آئی والوں کو یہی مشورہ ہے اپنے خلاف مقدمات کی جلد از جلد سماعت کے لئے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کریں تو امید کی جا سکتی ہے عدلیہ انصاف ضرور کرے گی۔ آخر عدلیہ میں باضمیر منصفوں کی کمی نہیں ہے عمران خان کو عدلیہ سے ریلیف پہلے بھی ملا ہے اور آئندہ بھی اسے اللہ سبحانہ تعالیٰ کے بعد عدلیہ پر امید رکھنی چاہیے۔ جس ملک میں آزادی اظہار پر قدغن ہو حصول انصاف ناپید ہو جاتا ہے اس کے باوجود پی ٹی آئی والوں کو امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ موجودہ حکومت کی کامیابیوں کی بات کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے مخالفین کو جیلوں میں بند رکھا جائے اور آزادی اظہار کی کسی صورت اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ہم تو یہی کہیں ہے حکومت آج جو قوانین متعارف کرا رہی ہے آنے والے وقتوں میں اپنے بنائے ہوئے قوانین ان کے لئے گلے کی ہڈی بن جائیں گے۔26ویں آئینی ترمیم من پسند ججوں کی تقرری کے لئے جو راستہ اپنایا گیا ہے اس سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا اس حکومت نے اقتدار میں رہنے کے لئے دس سالہ منصوبہ بنا یا ہے۔ سیاست دان شائد بھول جاتے ہیں اقتدار ہمیشہ حق تعالیٰ ہے اور رہے گا یہ دنیاوی منصب اور عہدے وقتی ہیں۔ انتخابات میں جس طرح عوامی مینڈیٹ کی توہین کی گئی نگاہیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ قومی خزانے کے اربوں روپے خرچ کرکے الیکشن کا یہی کچھ نتیجہ نکالنا تھا تو انتخابات کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ یہ حقیقت تسلیم کرنے کے باوجود بانی پی ٹی آئی عوام کا مقبول ترین لیڈر ہے جیل میں رکھ کر اسے عوام میں پہلے سے زیادہ شہرت ملی ہے۔ الیکشن میں عجیب کھیل کھیلا گیا ایک صوبے میں پی ٹی آئی کو اقتدار دے کر منہ بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے ورنہ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ نون کو اپنی مقبولیت کا بخوبی اندازہ ہو گیا تھا۔ پی ٹی آئی رہنمائوں اور ورکر کو جیلوں میں رکھ کر حکمرانی کا مزہ تو لیا جا سکتا ہے اس کے دور رس نتائج کے لئے حکمرانوں کو تیار رہنا چاہیے۔ ملک کے عوام پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون سے مایوس ہو چکے ہیں۔ نواز شریف کی ہونہار بیٹی مسلم لیگ نون کی عظمت رفتہ واپس لانے کے لئے سر توڑ کوشش جاری رکھے ہوئے اس کے باوجود ان کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ حکومت کی بے بسی کا یہ عالم ہے دوبئی سی ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ ہونے کے باوجود پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کو واپس لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ عدلیہ میں من پسند ججوں کا تقرر اور آزادی اظہار پر قدغن کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔ عوام کا سیلاب ایک روز سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لئے دیگر اپوزیشن جماعتوں سے رابطے کر رہی ہے۔ بہرکیف حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات میں ناکامی کے بعد دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button