Column

سوچو پاکستان کی خاطر

تحریر : صفدر علی حیدری
’’ سوچو پاکستان کی خاطر ‘‘ مانا یہ ایک نعرہ ہے، سوچیں تو ایک عملی بات ہے۔ قابل ذکر ہی نہیں قابل عمل بھی۔ ہم اکثر سنتے ہیں کہ یہ ملک ہے تو ہم ہیں۔ مگر بہت سے لوگ اپنی صلاحیتوں کے بل پر اجنبی سر زمینوں پر اپنے لیے جگہ بنا لیتے ہیں، ملک بدل لیتے ہیں ، نیا آشیانہ ڈھونڈھ لیتے ہیں۔ وہ اپنا ٹھکانہ بدلتے ہیں تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا ۔ پھولے نہیں سماتے کہ انھیں ایک بہتر سر زمین مل گئی ہے جہاں وہ پر امن ہر سکون اور پر آسائش زندگی بسر کریں گے ۔
ہم لاکھ کہیں کہ اپنی ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے اسے چھوڑ جانا کوئی اچھی بات تو نہیں۔ جب فصل کی کٹائی کا وقت ہوا تو آپ کے ملک سے جانے کا وقت آ گیا۔ وہ یہ کہہ کر خاموش کروا دیتے ہیں کہ ریاست واقعی ماں کے جیسے ہوتی ہے پر اپنی مترائی ہے۔ سوتیلے باپ کے ہاتھوں میں یرغمال۔
سرائیکی میں کہتے ہیں ’’ ماں مترائی تے پیو قسائی ‘‘ کتنے ہی اعلیٰ ذہن یہ ملک چھوڑ گئے۔ ان صلاحیتوں کو جو انہوں نے ملک میں رہتے ہوئے پائی ہوتی ہیں، اپنے ساتھ پردیس لے کر چلے جاتے ہیں۔ ایک بہتر مستقبل کی امید میں ۔ ایک اچھی زندگی کی چاہ میں ۔
المیہ تو یہ ہے کہ جو کسی وجہ سے جا نہیں پاتے، وہ بھی کڑھتے پائے جاتے ہیں۔ اس ملک، اس کے سسٹم اور اس کی ایلیٹ کلاس کی برائیاں کرتے نہیں تھکتے۔ ملک چھوڑ جانے اور یہاں رہ کر کڑھنے والے کچھ ایسے غلط بھی نہیں۔ وہ ملک جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ نوجوانوں کی تعداد کے لحاظ سے وہ دوسرے نمبر پر ہیں، ان کے لیے اس ملک ہے کیا ۔ نہ روزگار کے مواقع ، نہ کاروبار کے لیے ضروری وسائل۔ ایسے میں وہ ملک سے بھاگیں گے نہیں تو اور کیا کریں گے ۔ مایوس ہو کر تاریک راہوں پر نہ چلیں تو اور کیا کریں ۔
موجودہ سیاسی دور ( جس کا آغاز 1988ء سے ہوا ) کو میں اس لیے سیاہ دور کہتا ہوں کہ اس نے ملک کو تباہی کے دہانے تک جا پہنچایا ہے۔ اس سیاہ دور میں کوئی ترقی تو کیا ہوتی ، تنزلی کی داستان رقم ہوئی۔ ملک کو قرضوں کے دلدل میں منہ کے بل دھنسا دیا گیا۔ مہنگائی ، بے روزگاری، کرپشن ۔۔ کیا کیا ذکر کیا جائے۔ اب اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ جمہوریت کوئی بری طرز حکمرانی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جمہوریت ہے کہاں ۔ کیا یہی جمہوریت ہے کہ الیکشن کوئی جماعت جیتے اور ملک کسی دوسری جماعت کے حوالے کر دیا جائے۔ کراچی کے میئر کا انتخاب اس کی زندہ مثال ہے۔ پھر 26ویں ترمیم کے لیے جو کچھ کیا گیا وہ بھی دنیا نے دیکھا۔ کیا یہی جمہوریت ہے کہ جو پریس کانفرنس کرے اور اپنی جماعت کو چھوڑنے کا اعلان کرے اس کو پوتر قرار دے دیا جائے۔ باقیوں کو جیل میں ڈال دیا جائے ، ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جائے۔
ملک وہ ترقی کرتا ہے جس میں افراد نہیں ادارے مضبوط ہوتے ہوں۔ جہاں ہر ادارہ آئین میں اپنے طے شدہ دائرے میں متحرک ہو۔ جہاں پائوں کا ہاتھ سے اور سر کا کام گھٹنے سے نہ لیا جاتا ہو مگر ۔۔۔ اکثر کہا جاتا ہے یہاں سب چلتا ہے ۔ پھر وہ ملک نہیں چلتا۔
ملک میں امن امان کی مخدوش صورتحال کسی فرد سے پوشیدہ نہیں۔ پارا چنار کا امن پارہ پارہ ہے۔ افغانستان جیسا بے وفا ملک الگ آنکھیں دکھا رہا ہے۔ خارجی فتنہ خانہ جنگی جیسا ماحول پیدا کر رہا ہے۔ اب اس کا حل کیا ہو سکتا ہے۔ یہی ناں کہ تمام سٹیک ہولڈر سر جوڑ کر بیٹھیں ۔ ریاست کا سوچیں۔ ایک پیج پر آئیں۔ کوئی مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیں۔ ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی کو ختم کریں۔ یہ ملک کسی بھی طرح کے ایڈونچر ازم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس ملک کو بچانا ہے اور اسے تنزلی کی دلدل سے نکال کر ترقی کی شاہراہوں پر گامزن کرنا ہے تو امن کا قیام ضروری ہے۔ وحدت کی فوری اور ہمہ وقت ضرورت ہے۔
اقبالؒ نے کہا تھا:
وحدت ہو تباہ جس سے وہ الہام بھی الحاد
ترقی کا خواب حقیقت کا روپ تبھی دھارے کا جب ملک میں امن کے قیام عمل میں لایا جائے گا۔ ترقی اور امن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس ملک کی بقا ، ترقی اور خوش حالی کی چابی قیام امن میں مضمر ہے۔ اس کے لیے سب کا ایک ہونا لازمی شرط ہے۔
اس سے قبل کہ شیرازہ بکھر جائے، اس سے پہلے کہ وقت گزر جائے، اس سے پیشتر کہ دامن میں حسرت کے سوا کچھ نہ بچے، ہوش میں آئیے، اختلافات بھلائیے، ہوش کے ناخن لیجئے اور اس ملک کو بچانے کا سوچئے۔ یہ ملک ہے تو ہم ہیں، سیاست ہے، حکومت ہے، اختیار ہے۔
اس ملک کو بنانے والوں نے تو شروع میں کہہ دیا تھا:
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
اس ملک کو رکھنا میرے بچوں سنبھال کے
بہت ہوا کھلواڑ۔ مذاق بھی بہت ہو گیا۔ اب بس کر دیجئے بس۔ بڑے ہیں تو بڑے دل دکھائیے۔ سوچ کو بڑا کیجئے۔ ذہن کو وسعت دیجئے۔ اسی میں سب کی بھلائی ہے۔

جواب دیں

Back to top button