کرپشن کی روک تھام میں ناکامی کیوں؟

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
جو ہمیں ایک قوم بن کر کرنا چاہئے اس کی طرف سرکاری اداروں یا فرد کا کوئی رجحان نہیں رہا اور جو نہیں کرنا چاہئے اس کی طرف پوری ریاستی مشینری لگی پڑی ہے، ہمارے ہاں جن فیصلوں سے قوم کی تعمیر ہوتی ہے ان سے فیصلہ ساز بہت دور جاچکے ہیں۔ جنہوں نے ریاست کا سوچنا تھا وہ کرپشن کے حصہ دار ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اور ان کے بچے پہلے سے باہر سیٹل ہیں۔ فکری سوچ ختم ہے۔ جب یہاں رہنا نہیں تو سوچ کیسی۔ ان کو وقت سے پہلے سرکاری این او سی بھی میسر ہو جاتا ہے۔ ہم ایک ایسی منزل کی طرف چل نکلے ہیں جہاں تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں، قوم کی سوچ صرف خود تک محدود ہوتی جارہی ہے جس کے معاشرتی اثرات سامنے آ رہے ہیں۔ فسادات اپنے عروج پر ہیں۔ حکومتوں کی گرتی ساکھ، سیاسی محاذوں پر اپنے اپنے مفادات کی بھرمار، ایسی صورت حال میں ملکی بہتری کیسے ممکن ہوسکتی ہے؟ ایسے میں ہمارے منتخب نمائندے بھی حاجی ہوں۔ پی ڈی ایم اتحادی اور اب فارم 47کے اتحادیوں نے درجنوں قانون بنا ڈالے ہیں۔ شہباز حکومت نے ان دس ماہ میں کوئی 36بلز ایکٹ آف پارلیمنٹ بنائے ہیں جبکہ 14آرڈیننس بھی پیش کئے۔ قومی اسمبلی 79ویں دن اجلاس کیلئے کھولی گئی۔ ان فیصلوں کے اثرات کیوں نظر نہیں آتے؟ کیوں معاشرہ میں بے چینی ہے؟ فرد کی خوشی حال ناممکن نظر آتی ہے، منفی رجحانات میں مسلسل اضافہ ہے، مذہبی انتہا پسندی میں بھی اضافہ ہے، کیا چل رہا ہے منتخب حکومت سمجھ نہیں رہی، تو عوام کو سمجھ کیسے آسکتی ہے؟ اداروں کی استعداد کار کو بہتر کرنے کے بجائے، رشوت کا بازار گرم ہے۔ رشوت کا مطلب اگر معاملہ پبلک آفس ہولڈر کے پاس زیر التوا ہو تو اس ایپلکانٹ/ شخص سے کوئی بھی چیز لینا رشوت کے زمرے میں آتا ہے۔ اس سناریو میں تو ملک کا کوئی حصہ رشوت سے محفوظ نہیں ہے۔ اعلیٰ سطح کی قیادت کی نظر میں رشوت کوئی مسئلہ یا جرم نہیں سمجھا جاتا ہے۔ احتسابی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ملک میں بڑھتی ہوئی رشوت کے کیا اثرات مرتب ہوں گے، اس حوالہ سے عام سادہ انسان کو کوئی سمجھ نہیں کہ یہ مشکلات درپیش ہی اسی جرم کی پاداش میں ہیں۔ رشوت زر کی گردش کو روکتی ہے، پیسہ چند خاندانوں کے پاس سمٹ جاتا ہے جس سے معاشی صورت حال خراب ہو جاتی ہے، دولت کے چند ہاتھوں میں جمع ہونے سے ریاست پر دبائو آتا ہے، چند سو خاندان آئین کی پامالی شروع کر دیتے ہیں۔ منی لانڈرنگ ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ ملک کو بیرونی قرضوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ غیر ملکی مالیاتی ادارے ملکی معیشت کے ساتھ پالیسیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں جیسے کہ ہمارے ہاں صورت حال کا سامنا ہے۔ اس صورت حال کے ذمہ دار وہی لوگ یا ادارے ہیں جو رشوت ستانی کو جرم تصور نہیں کرتے اور ملک کا بھٹہ بٹھا دیا ہے، 190ملین پائونڈ کو لیکر نیب ایک دفعہ پھر متحرک ہے اور ملک ریاض کو واپس لاکر عدالت کے حضور پیش کرنے کی تمنا کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ ملک ریاض صاحب تو ان 5 فیصد کا ایک فرد ہے، باقی قابضین کو کیسے روکا جائیگا۔ ملک ریاض کے سہولت کاروں کو کون پوچھے گا جنہوں نے اپنی مرضی کی فرمائشیں پوری کی تھیں اور دستخط کئے ہوں گے۔ نامکمل احتساب سے حکومت وقتی ریلیف حاصل ضرور کر سکتی ہے لیکن جو نوالہ سہولت کاروں کے منہ میں چلا گیا ہے اس کے اثرات تو باقی رہیں گے، ملک لٹتا رہے گا۔ یقیناً ملک کو نقصان ہی اس طرح کے شارٹ ٹرم نعروں یا احتسابی عمل سے ہوا ہے۔ ملک کے کمزور ہونے کی بنیادی جڑ رشوت کیخلاف کارروائی نہ ہونا ہے اور سیاسی اثر و رسوخ کا ہونا ہے۔ انصاف کی فراہمی میں درجہ بندی بنیادی ظلم ہے۔ ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ کوئی بھی وزیراعظم سیاسی مقدمات اور کرپشن سکینڈل سے نہ بچ سکا، سرکاری اداروں میں جرم کھلے عام جاری ہے۔ سزا کا خوف ختم ہوتا جارہا ہے کیوں کہ پلیٹلٹس کی رپورٹ، پانی شہد بن جانا، جب چالیس چور والا بیانیہ پاک ہو جائے تو پھر پیچھے کچھ نہیں بچتا۔ سرکار کے اثاثوں کو کوڑیوں میں نیلام کرنا آسان کام ہے کیوں کہ کسی قسم کا کوئی حساب نہیں ہوگا۔ انصاف کی کوئی مثال سیٹ نہیں ہے۔ طاقتور اپنی طاقت کے گھمنڈ میں ہے اور غریب اپنے گھروں کے برتن بیچ کر بجلی کے بلوں اور سکولوں کی فیس بھر رہا ہے، پھر یہ حکومتی اعلان کسی فرد کی سمجھ میں کیسے آئیں گے۔ رشوت دے کر کام ہوگا تو انصاف پھر زندہ نہیں رہتا۔