Column

غربت

تحریر : علیشبا بگٹی
یہ ایک تلخ حقیقت اور المیہ ہے کہ لوگ آپ سے نہیں بلکہ آپ کے حالات سے ہاتھ ملاتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ زندگی میں ہر دکھ اور تکلیف برداشت کی جاسکتی ہے، مگر غربت ایسا بوجھ ہے۔ جو انسان کی خود داری، عزتِ نفس، اور خوابوں کو بے دردی سے روند دیتی ہے۔ جب وسائل نہ ہوں تو دنیا کا رویہ بدل جاتا ہے۔ آپ کی بات کا وزن کم ہو جاتا ہے، اور لوگ آپ کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے آپ میں کوئی عیب یا کوئی بڑی کمی ہے۔ بے روزگاری جوانی میں ذلت و رسوائی کا دوسرا نام بن جاتی ہے، اور کبھی تو یہ لگتا ہے کہ فقر و افلاس موت سے بھی بدتر ہے۔ غربت صرف جیب کو خالی نہیں کرتی، بلکہ دل و دماغ پر بھی گہرے زخم چھوڑ جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا ’’ عیب‘‘ بن جاتی ہے، جو انسان کی تمام خوبیاں چھپا دیتی ہے۔ لوگ وسائل کے بغیر آپ کی محنت اور خلوص کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے، اور یہ دنیا کی بے رحمی کو ظاہر کرتا ہے۔ کیا واقعی انسان کی قدر صرف اس کی دولت سے کی جاتی ہے؟ کیا عزت اور خودداری صرف پیسے کی محتاج ہے؟ یا یہ ہم ہیں جنہوں نے اپنی اقدار کو دولت کے پیمانے پر تولنا شروع کر دیا ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو دل کو جھنجھوڑ دیتے ہیں اور ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ اس دنیا کی حقیقت پر غور کریں۔ غربت انسانی زندگی سے خوشیاں اور سکون کسی دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ جب سر پر بھوک منڈلائے اور بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لیے معقول وسائل نہ ہوں، تو خوشحال زندگی کسی دیوانے کا خواب معلوم ہوتی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کے ہم، ہماری آنے والی نسلوں کو غربت و جہل زدہ معاشرہ وراثت میں سونپ کر جا رہے ہیں۔
وسائل کی کمی کے سبب یہ سب غریب پسماندہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ غربت بنیادی مسئلہ ہے جو کسی بھی معیشت کی ترقی کے لیے مضر سمجھا جاتا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں نے غربت کا معیار ایک سے دو ڈالر فی کس روزانہ یا اس سے بھی کم آمدنی مقرر کیا ہے۔ عالمی بینک کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح 51فیصد ہے۔ 75فیصد غربا دیہات میں رہتے ہیں۔ جنہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں۔ ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس وقت 100ملین سے زیادہ افراد غربت کی دلدل میں پھنس چکے ہیں۔ مہنگائی کے ہاتھوں ان غریبوں کی قوت خرید ساکن رہی یا پہلے سے بھی کم ہوگئی ہے۔ مشتاق احمد یوسفی لکھتے ہیں کہ مڈل کلاس غریبی کی سب سے قابل رحم اور لا علاج قسم وہ ہے جس میں آدمی کے پاس کچھ نہ ہو لیکن اسے کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہو۔ غربت کی بنیادی طور پر 4 اقسام ہیں، پہلی مطلق غربت، یہ غربت کی ایسی قسم ہے جس میں انسان زندگی کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتا مثلاً کھانا، تعلیم، رہائش وغیرہ۔ دوسری قسم نسبتاً غربت ہے، یہ ایک ایسی قسم ہے کہ جو تب وجود میں آتی ہے، جب ایک معاشرہ مخصوص معیارات کا تعین کر لیتا ہے اور جب کوئی شخص ان معیارات پر پورا نہیں اتر سکتا تو وہ شخص غریب نظر آتا ہے۔ تیسری قسم مواقعاتی غربت ہے، یہ قسم تب وجود میں آتی ہے، جب کسی قسم کی آفت آجائے مثلاً حال ہی میں کرونا وباء آئی تو لوگ بے روزگار ہوگئے اور نتیجتاً غربت بڑھی۔ ایسی غربت معاشرے میں وقوع پذیر ہونے والی اچانک تبدیلیوں کی وجہ سے وجود میں آتی ہے۔ چوتھی قسم نسلی غربت ہے، جو نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔ اگر غربت دو نسلوں میں رہ جائے تو اُسے نسلی غربت کہا جاتا ہے۔ انسان غریب کیوں ہوجاتا ہے؟ معاشرے کے اندر معاشی فاصلہ کیوں بڑھ جاتا ہے؟ امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر کیوں ہو جاتا ہے؟ کیا یہ سب قدرت کا نظام ہے یا اس معاشی بگاڑ میں انسان کا اپنا بھی کردار ہے؟ آخر کیا وجوہات ہیں۔ کمزور طرزِ حکومت غربت کی پہلی بڑی وجہ ہے ایک ملک میں جتنا زیادہ ٹیکس اکٹھا ہوگا، ملک اتنا ہی خوشحال ہوگا۔ جب ٹیکس زیادہ اکٹھا ہوگا تو حکومت عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دینے کے قابل ہوگی۔
پاکستان کی بدقسمتی دیکھئے کہ پاکستان میں صرف %35لوگ ایسے ہیں جو کہ انکم ٹیکس دیتے ہیں، باقی %65وہ ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے۔ غربت کی دوسری بڑی وجہ بھاری بھر کم ٹیکسز ہیں۔ جو طاقتور حلقوں کا بینک بیلنس بن جاتا ہے۔ پاکستان میں غربت کی تیسری بڑی وجہ کرپشن کا عام ہونا اور شفافیت کا فقدان ہے۔ چوتھی بنیادی وجہ زراعت کے شعبے میں ترقی کا فقدان ہے۔ غربت کی پانچویں بڑی وجہ کم شرح خواندگی ہے۔ اگر آپ غریب ہیں تو آپ نے آج ہی خود ہی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ غربت سے کیسے نکلنا ہے ؟۔

جواب دیں

Back to top button