دنیا

ترکیہ اب "نئے” شام سے کیا چاہتا ہے ؟

شام میں مسلح اپوزیشن کے ہاتھوں بشار الاسد کی حکومت کے سقوط کے بعد ترکیہ کو وہاں بڑ اثر ر رسوخ حاصل ہو گیا ہے۔ الاسد خاندان کی حکومت پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصے رہی۔

نیٹو اتحاد کا رکن ترکیہ اب ایسے مقام پر ہے جہاں وہ سفارتی، اقتصادی اور عسکری طور پر اپنے پڑوسی ملک کے مستقبل پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

ترکیہ اہم کیوں ہے ؟
شام کے ساتھ ترکیہ کی مشترکہ سرحد 911 کلو میٹر طویل ہے۔ انقرہ حکومت شام میں بشار الاسد کے خلاف 13 برس تک جاری رہنے والی مزاحمتی تحریک میں مسلح اپوزیشن بالخصوص "سیریئن نیشنل آرمی” کا مرکزی حامی رہا۔ سال 2012 میں ترکیہ نے دمشق کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے۔

خانہ جنگی کے سبب ملک سے فرار ہونے والے شامیوں کی سب سے بڑی تعداد یعنی تقریبا 30 لاکھ افراد ترکیہ میں پناہ گزین بنے۔

سال 2016 کے بعد سے ترکیہ نے اپنے شامی اتحادیوں کے ساتھ سرحد پار کرد مسلح عناصر کے خلاف کئی فوجی آپریشن کیے۔ شام کے شمال مشرق میں قدم جمائے ان کردوں کو ترکیہ اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ شمار کرتا ہے۔

شام میں نئی انتظامیہ انقرہ حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات میں مربوط ہے۔ترکیہ کیا چاہتا ہے ؟
شام میں نئی قیادت کے ساتھ اپنے مضبوط تعلقات کو دیکھتے ہوئے ترکیہ تجارت اور کئی شعبوں میں تعاون بڑھانے کی تیاری کر رہا ہے۔ ان شعبوں میں تعمیر نو، توانائی اور دفاع شامل ہے۔

بشار الاسد کی حکومت کے سقوط نے انقرہ کو موقع دے دیا ہے کہ وہ اپنی سرحد کے ساتھ پھیلے ہوئے کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹس کی موجودگی کو ختم کر دے۔

انقرہ حکومت کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹس تنظیم کو کردستان ورکرز پارٹی کا دھڑا شمار کرتی ہے جس نے 1984 سے ترکیہ کی ریاست کے خلاف بغاوت کا علم اٹھایا ہوا ہے۔ ترکیہ ، امریکا اور یورپی یونین نے کردستان ورکرز پارٹی کو ایک دہشت گرد جماعت کا درجہ دے رکھا ہے۔

پروٹیکشن یونٹس شام میں سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کی قیادت کر رہی ہے جو داعش کے خلاف جنگ میں امریکا کی مقامی شراکت دار ہے۔ ایس ڈی ایف شمال مشرقی شام میں وسیع اراضی کا کنٹرول رکھتی ہے۔

واشنگٹن کی جانب سے کرد گروپوں کے لیے طویل مدتی حمایت ترکیہ اور امریکا کے درمیان کشیدگی کا ذریعہ رہی ہے۔ تاہم ترک وزیر خارجہ حاخان ویدان کے مطابق وہ سمجھتے ہیں کہ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک مختلف روش اپنائیں گے۔

دوسری جانب شام میں نئی انتظامیہ کے قائد احمد الشرع کا کہنا ہے کہ وہ یہ نہیں چاہتے کہ شام کردستان ورکرز پارٹی کے لیے ترکیہ پر حملوں کا پلیٹ فارم بن جائے۔

گذشتہ ماہ دمشق پر شامی مسلح اپوزیشن کے کنٹرول کے بعد ترکیہ کی حمایت یافتہ فورسز اور کردوں کے زیر قیادت ایس ڈی ایف کے درمیان ملک کے شمال مشرق میں لڑائی شروع ہو گئی۔

سیرین ڈیموکریٹک فورسز نے ترکیہ کے بعض مطالبات پر لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔ روئٹرز نیوز ایجنسی نے گذشتہ ماہ بتایا تھا کہ اگر انقرہ حکومت فائر بندی پر آمادہ ہو گئی تو ایس ڈی ایف کے غیر ملکی جنگجو جن میں کردستان وررکز پارٹی سے تعلق رکھنے والے عناصر شامل ہیں، شام سے کوچ کر جائیں گے۔

علاقے میں تنازع ختم کرانے کے لیے بات چیت کا بھرپور سلسلہ جاری ہے۔

بشار الاسد کی حکومت کے سقوط کے بعد ترکیہ کی انٹیلی جنس کے سربراہ ابراہیم کالن نے دمشق کا دورہ کیا اور ترک وزیر خارجہ حاخان فیدان شام کا دورہ کرنے والے پہلے وزیر خارجہ تھے۔ اسی طرح ترکیہ پہلا ملک ہے جس نے شام میں دوبارہ سے اپنا سفارت خانہ کھولا۔

فیدان کا کہنا تھا کہ ترکیہ کو فخر ہے کہ وہ شام میں "تاریخ کی درست جانب” ہے اور وہ شام پر "غلبہ” پانے کا خواہش مند نہیں ہے۔

ترکیہ نے شام میں تعمیر نو کی سپورٹ کا عزم ظاہر کیا اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو، نئے آئین کی تیاری، بجلی کی فراہم اور فضائی پروازوں کی بحالی کے سلسلے میں مدد کی پیش کش کی۔

ترکیہ نے امید ظاہر کی کہ اس کے ہاں بطور مہمان موجود شامی شہری اپنے گھروں کو لوٹیں گے تاہم انقرہ کے مطابق وہ انھیں کوچ پر مجبور نہیں کرے گا۔

اسی طرح ترکیہ نے بارہا کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹس کی تحلیل کا مطالبہ کیا جب کہ وہ خبردار کر چکا ہے کہ اگر دمشق میں حکام نے اس مسئلے کا علاج نہ کیا تو ترکیہ نیا فوجی حملہ کرے گا۔

دوسری جانب سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کا کہنا ہے کہ وہ شامی وزارت دفاع میں ضم ہونے کے لیے تیار ہے تاہم اس شرط کے ساتھ کہ اسے ایک عسکری گروپ شمار کیا جائے۔

جواب دیں

Back to top button