افغان خواتین، لڑکیوں پر تعلیم پر پابندی کا کوئی جواز نہیں: سینیئر طالبان شخصیت

طالبان کی ایک سینئر شخصیت نے گروپ کے رہنما پر زور دیا ہے کہ وہ افغان خواتین اور لڑکیوں پر تعلیمی پابندی ختم کر دیں۔ حکومتی پالیسی پر غیر معمولی عوامی سرزنش کرتے ہوئے انہوں نے پابندی پر عذر کو مسترد کر دیا۔
وزارتِ خارجہ کے پولیٹیکل ڈپٹی شیر عباس ستانکزئی نے جنوب مشرقی صوبہ خوست میں ہفتے کو ایک تقریر میں یہ تبصرہ کیا۔
انہوں نے ایک دینی مدرسے کی تقریب میں حاضرین کو بتایا کہ خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم سے انکار کا کوئی عذر نہیں تھا "جیسا کہ ماضی میں اس کا کوئی جواز نہیں تھا اور ایسا بالکل بھی نہیں ہونا چاہیے۔”
حکومت نے خواتین کو چھٹی جماعت کے بعد تعلیم سے روک رکھا ہے۔ گذشتہ ستمبر میں ایسی خبریں آئی تھیں کہ حکام نے خواتین کے لیے طبی تعلیم و تربیت اور کورسز بھی روک دیئے تھے۔
افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کا علاج صرف خواتین ڈاکٹرز اور ماہرینِ صحت ہی کر سکتی ہیں۔ حکام نے ابھی تک طبی تربیت پر پابندی کی تصدیق نہیں کی ہے۔
ستانکزئی نے سوشل پلیٹ فارم ایکس پر اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں کہا، "ہم قیادت سے دوبارہ تعلیم کے دروازے کھولنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم 40 ملین کی آبادی میں سے 20 ملین لوگوں کو ان کے تمام حقوق سے محروم کرتے ہوئے ان سے ناانصافی کر رہے ہیں۔ یہ اسلامی قانون میں نہیں ہے بلکہ ہماری ذاتی پسند یا فطرت ہے۔”
ستانکزئی ایک زمانے میں ان مذاکرات میں طالبان ٹیم کے سربراہ تھے جو افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء کا باعث بنے۔
انہوں نے ایسا پہلی بار نہیں کہا ہے کہ خواتین اور لڑکیاں تعلیم کی مستحق ہیں۔ ستمبر 2022 میں لڑکیوں کے لیے سکولوں کی بندش کے ایک سال بعد اور یونیورسٹی پر پابندی کے نفاذ سے کئی ماہ پہلے انہوں نے اسی طرح کے تبصرے کیے تھے۔
لیکن تازہ ترین تبصرے پالیسی میں تبدیلی کا اولین تقاضہ اور طالبان رہنما ہیبت اللہ اخوندزادہ سے براہِ راست اپیل ہیں۔
کرائسز گروپ کے جنوبی ایشیا پروگرام کے تجزیہ کار ابراہیم باحس نے کہا، ستانکزئی وقتاً فوقتاً لڑکیوں کی تعلیم کو تمام افغان خواتین کا حق قرار دیتے ہوئے بیانات دیتے رہے ہیں۔
باحس نے کہا، "تاہم یہ تازہ ترین بیان اس لحاظ سے مزید آگے ہے کہ وہ عوامی طور پر پالیسی میں تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور موجودہ نکتہ نظر کے جواز پر سوال اٹھا رہے ہیں۔”
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اس ماہ کے شروع میں نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے مسلم قائدین پر زور دیا کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم پر طالبان کو چیلنج کریں۔
انہوں نے اسلامی تعاون تنظیم اور رابطہ عالمِ اسلامی کی جانب سے منعقدہ کانفرنس سے خطاب کیا۔
اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ جب تک خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر پابندیاں برقرار ہیں، طالبان حکومت کو تسلیم کرنا تقریباً ناممکن ہے اور خواتین مرد سرپرست کے بغیر عوامی مقامات پر نہیں جا سکتیں۔
کوئی بھی ملک طالبان کو افغانستان کے جائز حکمران تسلیم نہیں کرتا لیکن روس جیسے ممالک ان کے ساتھ تعلقات استوار کر رہے ہیں۔
بھارت بھی افغان حکام کے ساتھ تعلقات استوار کر رہا ہے۔
اس ماہ کے شروع میں دبئی میں ہندوستان کے اعلیٰ سفارت کار وکرم مستری اور وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے درمیان ہونے والی ملاقات میں ان کے درمیان گہرا تعاون سامنے آیا۔