Column

کب سے تکتا تھا مکاں اپنے مکیں کا رستہ

تحریر : صفدر علی حیدری
روایت میں ملتا ہے کہ جناب فاطمہ بنت اسد کعبہ کے قریب بیٹھی تھیں، اتنے میں انہیں درد زہ کی تکلیف شروع ہوئی۔ انہوں نے خدا سے درد زہ کی تکلیف میں آسانی کی دعا کی ۔ اتنے میں کعبے کی دیوار شق ہوئی اور جیسے ہی فاطمہ بنت اسد اندر داخل ہو گئیں۔ دیوار کعبہ دوبارہ آپس میں مل گئی۔ یزید بن قعنب کہتے ہیں کہ::ہم نے کعبہ کا دروازہ کھولنے کی بہت کوشش کی لیکن نہ کھلا، اس سے ہم سمجھ گئے کہ یہ واقعہ خدا کی جانب سے رونما ہوا ہے۔ فاطمہ بنت اسد چار دن بعد ایک نومولود بچے کو گود میں لئے خانہ کعبہ سے باہر آگئیں ۔
ایک اور روایت کے مطابق حضرت علیؓ کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد طواف کعبہ میں مشغول تھیں اتنے میں انہیں درد زہ شروع ہوئی اور گھر واپس جانے کی طاقت نہ رہی، اس وجہ سے انھوں نے کعبہ کی طرف رخ کیا تو خانہ کعبہ کا دروازہ کھلا اور وہ اندر داخل ہو گئیں۔ اس کے بعد خانہ کعبہ کا دروازہ دوبارہ بند ہو گیا اور کعبے کے اندر ہی ان کا بچہ متولد ہوا، فاطمہ بنت اسد تین دن خانہ کعبہ کے اندر رہیں ۔
کسی نے کہا خوب کہا ہے
شق ہوئی کعبے کی دیوار بڑھو بنت اسد
کب سے تکتا تھا مکاں اپنے مکیں کا رستہ
پیدائش کے بعد سے بیٹے کی آنکھیں بند تھیں، ماں پریشان تھیں کہ کہیں بچہ نابینا تو نہیں ہے ۔ جونہی رسالت مآبؐ کی گود میسر آئی امامت مآب نے آنکھیں کھول کر چہرہ انور کا دیدار کیا۔
یہ علیؓ ابن ابی طالب ہیں، جن کی عظمت کے اعتراف میں کتب احادیث کا دامن چھلکتا ہے۔ تاریخ نے آپؓ کے ڈھائی سو القابات اپنے دامن میں محفوظ کیے ہیں لیکن انھیں سب سے زیادہ پسند ابو تراب تھا۔ یہ دیگر بات کہ منافقین اسے بطور تضحیک مخاطب کیا کرتے تھے۔ آپؓ میں متضاد صفتیں جمع تھیں۔ آپؓ تلوار کے دھنی تھے تو علم کے بحر بیکراں بھی ۔ فقر آپؓ کا فخر تھا تو سخاوت آپؓ کا شعار۔ زاہدوں کے امام تھے، مگر چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ سجی ہوئی ہوتی تھی ۔ مخالفین اسے آپؓ کا عیب گردانتے تھے۔ ان بے خبروں کو کیا پتہ کہ مومن کا دل مغموم ہوتا ہے ، چہرہ پر مسکراہٹ ہوتی ہے۔
آپؓ کی شان کیا بیان کی جائے کہ سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے۔
آپؓ کو سرکار رسالت مآبؐ نے علم کا در قرار دیا تھا۔
آئیں ان کے پر از حکمت کلام سے کچھ موتی چنتے ہیں:
جسے اس کے اعمال پیچھے ہٹا دیں اسے حسب و نسب آگے نہیں بڑھا سکتا۔
مرض میں جب تک ہمت ساتھ دے چلتے پھرتے رہو۔
بہترین زہد، زہد کا مخفی رکھنا ہے۔
مجھ سے چار اور پھر چار باتیں یاد رکھو، ان کے ہوتے ہوئے جو کچھ کرو گے وہ تمہیں ضرر نہ پہنچائے گا۔
مستحبات سے قرب الٰہی نہیں حاصل ہو سکتا جبکہ وہ واجبات میں سد راہ ہوں۔
وہ گناہ جس کا تمہیں رنج ہو اللہ کے نزدیک اس نیکی سے کہیں اچھا ہے جو تمہیں خود پسند بنا دے۔
انسان کی جتنی ہمت ہو اتنی ہی اس کی قدر و قیمت ہے، اور جتنی مروت اور جوانمردی ہو گی اتنی ہی راست گوئی ہو گی، اور جتنی حمیت و خود داری ہو گی اتنی ہی شجاعت ہو گی، اور جتنی غیرت ہو گی اتنی ہی پاکدامنی ہو گی۔بھوکے شریف اور پیٹ بھرے کمینے کے حملہ سے ڈرتے رہو۔
لوگوں کے دل صحرائی جانور ہیں، جو ان کو سدھائے گا اس کی طرف جھکیں گے۔
عقل سے بڑھ کر کوئی ثروت نہیں اور جہالت سے بڑھ کر کوئی بے مائیگی نہیں۔ ادب سے بڑھ کر کوئی میراث نہیں اور مشورہ سے زیادہ کوئی چیز معین و مددگار نہیں۔
صبر دو طرح کا ہوتا ہے: ایک ناگوار باتوں پر صبر اور دوسرے پسندیدہ چیزوں سے صبر۔
قناعت وہ سرمایہ ہے جو ختم نہیں ہو سکتا۔
دنیا والے ایسے سواروں کے مانند ہیں جو سو رہے ہیں اور سفر جاری ہے۔
سب سے بڑی ثروت عقل و دانش ہے، اور سب سے بڑی ناداری حماقت و بے عقلی ہے، اور سب سے بڑی وحشت غرور و خود بینی ہے، اور سب سے بڑا جوہر ذاتی حسنِ اخلاق ہے۔
اے فرزند! بیوقوف سے دوستی نہ کرنا، کیونکہ وہ تمہیں فائدہ پہنچانا چاہے گا تو نقصان پہنچائے گا، اور بخیل سے دوستی نہ کرنا، کیونکہ جب تمہیں اس کی مدد کی انتہائی احتیاج ہو گی وہ تم سے دور بھاگے گا، اور بدکردار سے دوستی نہ کرنا، ورنہ وہ تمہیں کوڑیوں کے مول بیچ ڈالے گا، اور جھوٹے سے دوستی نہ کرنا، کیونکہ وہ سراب کے مانند تمہارے لئے دور کی چیزوں کو قریب اور قریب کی چیزوں کو دور کر کے دکھائے گا۔
مطلب کا ہاتھ سے چلا جانا نااہل کے آگے ہاتھ پھیلانے سے آسان ہے۔
تھوڑا دینے سے شرمائو نہیں، کیونکہ خالی ہاتھ پھیرنا تو اس سے بھی گری ہوئی بات ہے۔
عفت فقر کا زیور ہے اور شکر دولت مندی کی زینت ہے۔
جاہل کو نہ پائو گے، مگر یا حد سے آگے بڑھا ہوا اور یا اس سے بہت پیچھے۔
جب عقل بڑھتی ہے تو باتیں کم ہو جاتی ہیں۔
جب کسی کام میں اچھے برے کی پہچان نہ رہے تو آغاز کو دیکھ کر انجام کو پہچان لینا چاہیے۔
بوڑھے کی رائے مجھے جوان کی ہمت سے زیادہ پسند ہے۔
بہت سے پڑھے لکھوں کو ( دین سے) بے خبری تباہ کر دیتی ہے اور جو علم ان کے پاس ہوتا ہے انہیں ذرا بھی فائدہ نہیں پہنچاتا۔
اس شخص پر تعجب ہوتا ہے کہ جو توبہ کی گنجائش کے ہوتے ہوئے مایوس ہو جائے۔
یہ دل بھی اسی طرح اکتا جاتے ہیں جس طرح بدن اکتا جاتے ہیں، لہٰذا ( جب ایسا ہو تو) ان کیلئے لطیف حکیمانہ نکات تلاش کرو۔
فتنہ و فساد میں اس طرح رہو جس طرح اونٹ کا وہ بچہ جس نے ابھی اپنی عمر کے دو سال ختم کئے ہوں کہ نہ تو اس کی پیٹھ پر سواری کی جا سکتی ہے اور نہ اس کے تھنوں سے دودھ دوہا جا سکتا ہے۔
یہ انسان تعجب کے قابل ہے کہ وہ چربی سے دیکھتا ہے، اور گوشت کے لوتھڑے سے بولتا ہے، اور ہڈی سے سنتا ہے، اور ایک سوراخ سے سانس لیتا ہے۔
لوگوں سے اس طریقہ سے ملو کہ اگر مر جائو تو تم پر روئیں، اور زندہ رہو تو تمہارے مشتاق ہوں۔
جب تک تمہارے نصیب یاور ہیں تمہارے عیب ڈھکے ہوئے ہیں۔
دشمن پر قابو پائو تو اس قابو پانے کا شکرانہ اس کو معاف کر دینا قرار دو۔
جب تمہیں تھوڑی بہت نعمتیں حاصل ہوں تو ناشکری سے انہیں اپنے تک پہنچنے سے پہلے بھگا نہ دو۔
جسے قریبی چھوڑ دیں اسے بیگانے مل جائیں گے۔
ہر فتنہ میں پڑ جانے والا قابل عتاب نہیں ہوتا۔
تمہیں ایسی پانچ باتوں کی ہدایت کی جاتی ہے کہ اگر انہیں حاصل کرنے کیلئے اونٹوں کو ایڑ لگا کر تیز ہنکائو تو وہ اسی قابل ہوں گی: تم میں سے کوئی شخص اللہ کے سوا کسی سے آس نہ لگائے اور اس کے گناہ کے علاوہ کسی شے سے خوف نہ کھائے، اور اگر تم میں سے کسی سے کوئی ایسی بات پوچھی جائے کہ جسے وہ نہ جانتا ہو تو یہ کہنے میں نہ شرمائے کہ: ’’ میں نہیں جانتا‘‘، اور اگر کوئی شخص کسی بات کو نہیں جانتا تو اس کے سیکھنے میں شرمائے نہیں، اور صبر و شکیبائی اختیار کرو کیونکہ صبر کو ایمان سے وہی نسبت ہے جو سر کو بدن سے ہے۔ اگر سر نہ ہو تو بدن بیکار ہے، یونہی ایمان کے ساتھ صبر نہ ہو تو ایمان میں کوئی خوبی نہیں۔

جواب دیں

Back to top button