انسانیت کی تباہی کرنے والے ہتھیاروں کی فروخت میں اضافہ کیوں ؟

تحریر : عبد الرزاق برق
دنیا میں پہلی بار انسانیت کو تباہ کرنے والے ہتھیاروں کی زیادہ فروخت کے اعداد و شمار ایسے ممالک کی جانب سے سامنے آئے ہیں جوکہ اپنے ملکوں میں انسانوں کی قدر کرنے اور انہیں انسانی حقوق دینے کے علاوہ جانوروں میں سے بلی کتوں کا اپنے ہسپتالوں میں ڈاکٹروں سے علاج کرواتے ہیں۔ زیادہ ہتھیار فروخت کرنے والے طاقتور ممالک میں کتوں اور بلی کا علاج کرنے کے علاوہ ان جانوروں کا گوشت بھی شوق سے کھایا جاتا ہے۔ مگر دوسری طرف یہ طاقتور ممالک انسانوں کو ان کے حقوق دیتے ہیں اور وہاں انسانوں کے حقوق سب سے زیادہ محفوظ بھی ہیں لیکن یہی ممالک چند پیسوں اور چند مفادات کی خاطر خطرناک ہتھیار بناکر انسانوں کی نسل کشی کرتے ہیں۔ آخر یہ طاقتور ممالک کیوں یہ دوغلی پالیسی اپناتے ہیں؟۔
اگرچہ دنیا میں دس ممالک ایسے ہیں جو اسلحہ کے کاروبار پر اجارہ داری رکھتے ہیں، ان ممالک میں امریکا ، چین ، روس فرانس، برطانیہ، اٹلی، جنوبی کوریا ، اسرائیل اور سپین شامل ہیں لیکن اس بار زیادہ اسلحہ فروخت کرنے والے ممالک کے جو نام سامنے آئے ہیں ان میں امریکہ، چین، اسرائیل اور روس شامل ہیں۔ ان میں سے اسرائیل نے غزہ کی جنگ سے اسلحہ فروخت کرنے میں بڑی کامیابیاں حاصل کی اور اس کی فروخت 14ارب ڈالر کے قریب رہی جواس کی تاریخ کی سب سے بڑی سیل ہے ۔ اسرائیل نے مشرق وسطیٰ میں جدید امریکی اسلحہ استعمال کیا اور اس کی مدد سے فضائی برتری حاصل کی ۔ ایک حالیہ مثال اس کا ایران پر دوسرا حملہ تھا جس
میں اس نے جدید ترین لڑاکا طیارے ایف 35کا استعمال کیا ۔ اسرائیل نے ان طیاروں کے ذریعے ایران کے بیلسٹک میزائل تیار کرنے والی فیکٹریز اور نیوکلیئر تنصیبات کو نشانہ بناکر انہیں خاصا نقصان پہنچایا ۔ یہ طیارہ ایک سو میل کی دوری سے ٹارگٹ کو ہٹ کر سکتا ہے۔ غزہ میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ کی بڑی ناکامی کی وجہ جدید اسلحے کی کمی ہے ۔ اسلحہ بنانے والوں میں امریکہ کی 41اسلحہ ساز کمپنیز نجی شعبے کی تحویل میں ہیں تاہم ان کے لئے پالیسی وضع کرنے کا اختیار امریکی حکومت کے پاس ہے اور وہ حکومتی اجازت کے بغیر ایک گولی کسی ملک کو فروخت نہیں کر سکتیں۔ ان کی اسلحہ ساز فیکٹریز جنگی جہاز ، راکٹ ، میزائل، طیارے اور ڈرونز سمیت دوسرے بہت سے ہتھیار تیار کرتی ہیں جنہیں ایک پالیسی کے تحت دنیا میں فروخت کیا جاتا ہے، اسلحہ کے خریداروں میں اتحادی ممالک جیسے یورپ اور اسرائیل سرفہرست ہیں۔ روسی کمپنیز نے 25ارب ڈالرز کے ہتھیار فروخت کئے جوکہ گزشتہ سال کے مقابلے میں40فیصد سے زیادہ ہیں۔ ایک سو بڑی اسلحہ سازکمپنیز میں چین کی 9 کمپنیز بھی شامل ہیں ۔ چین نے 103 ارب ڈالرز کا اسلحہ فروخت کیا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانیت کا قتل کرنے والے ہتھیاروں کی فروخت میں کیوں اضافہ ہوا ہے ؟ اس سوال کا جواب سادہ سا یہ دیا جارہا ہے کہ بظاہر یوکرین اور غزہ کی جنگیں ہتھیاروں کی مانگ میں
اضافے کی وجہ بنیں ہیں۔ اس کے علاوہ خطرناک ہتھیاروں کی فروخت میں اضافہ طاقتور ملکوں کے اپنے مفاد کے ساتھ پیسوں کا حاصل کرنا بھی ایک فیکٹر ہے۔ مثال کے طورپر 2023 میں سب سے زیادہ اسلحہ امریکی کمپنیز نے بنایا جو دنیا کے کل اسلحے کا پچاس فیصد تھا اور انہوں نے اس اسلحہ کی فروخت سے 317 ارب ڈالرز کمائے جبکہ چین دوسرے نمبر پر رہا جس نے 30ارب ڈالرزکا اسلحہ فروخت کیا ۔ روس اور اسرائیل نے چھوٹے ہتھیاروں کی تیاری میں ریکارڈ اضافہ کیا ۔ اس کاروبار میں اضافہ یوکرین جنگ اور غزہ پر اسرائیل جارحیت کے سبب بھی ہوا ۔ ویسے افریقہ سے لے کر جنوبی امریکا تک تنازعات اور سیاسی بحرانوں کی کوئی کمی نہیں جو کسی بھی وقت جنگ یا خانہ جنگی میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور جنہیں جاری رکھنے کیلئے بڑی مقدار میں اسلحہ درکار ہوتا ہے اور جنگ کے طویل ہونے میں ہتھیاروں کے سوداگروں کا بھی ہاتھ ہے۔ ابھی امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنا عہدہ چھوڑنے سے قبل یہ اعلان کیا کہ امریکہ اسرائیل کو آٹھ ارب
ڈالر کے ہتھیار فروخت کرے گا۔ اصل میں جوبائیڈن جاتے جاتے اپنی ہار کا بدلہ فلسطین کے مسلمانوں سے لے رہا ہے کیونکہ انتخابات میں امریکی مسلمان ہی جوبائیڈن کی ہار کا سبب بنے ہیں، اب وہ اسرائیل کے ذریعے بدلہ لے گا ۔ کیا دنیا کے امن کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرنے والے آٹھ ارب ڈالر کی مالیت والا اسلحہ انسانیت کی خدمت کے لئے نہیں بلکہ معصوم فلسطینیوں کے قتل عام کے لئے فراہم کر رہے ہیں ۔ اب غزہ میں کیا بچا ہے جس کو ان میزائلوں سے نشانہ بنایا جائے گا ۔ اگر یہی انصاف اور امن ہے تو دنیا کو دوبارہ انصاف کی تعریف پر غور کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ امن کے نعرے لگانے والے وہی لوگ ہیں جو جنگ کی منڈی چلارہے ہیں اگر جنگ بند ہوگئی تو ان کا اسلحہ کون خریدے گا؟ فلسطین میں بہنے والاخون ان کے لئے منافع کا کاروبار ہے۔ یہی امریکہ عمران خان کے لئے انسانی حقوق کی بنیاد پر پاکستانی حکومت پر رہائی کے لئے پریشر ڈالے گا یہ ہوتا ہے دوہرا معیار ۔ کیا اب بھی امریکہ کو تسلی نہیں ہوئی ہے اتنی معصوم جانوں کو میزائل سے اڑانے کے باوجود اب مزید بم اور میزائل دینا چاہتا ہے۔ یہ کون سا طریقہ ہے، یہ تو انسانیت کو ہی ختم کرنے کے مترادف ہے ۔ امریکہ کی یہی پالیسی ہے کہ ان کا زیادہ سے زیادہ اسلحہ بکے، بدلے میں ہزاروں لاکھوں جانیں جائیں، انہیں کوئی پرواہ نہیں ، کہاں
ہیں وہ لبرلز ،کہاں ہیں وہ انسانی حقوق کی تنظیمیں ،کیا وہ سوئی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ مغرب میں انسانیت ہے۔ کیا آج انہیں امریکہ کے انسانی حقوق دکھائی نہیں دے رہے۔ یہ ہے وہ منافقانہ کردار کہ مسلم ممالک میں انسانی حقوق کی باتیںکر رہے ہیں اور خود ایک غاصب صیہونی ریاست کو میزائل اور بم کے ساتھ مالی امداد بھی دے رہے ہیں۔ یہی وہ سوچ ہے جو دنیا کو تباہی کی طرف لے جارہی ہے، جس کی وجہ سے انسانیت کا خون ہورہا ہے، جنگیں مزید طول پکڑ رہی ہیں، یہ امریکہ جیسے کردار ملکوں کو آپس میں لڑا کر اپنا اسلحہ بیچتے اور انسانیت کا خون کرواتے ہیں۔ امریکہ انسانی حقوق کا خود ساختہ علمبردار بنا ہوا ہے لیکن سب سے زیادہ انسانی خون اسی نے گرایا ہے چاہے وہ عراق میں ہو افغانستان میں ہو، چاہے فلسطین میں ہو اس کے دیئے گئے اسلحہ سے لوگ مارے جارہے ہیں۔ ویسے امریکہ اسرائیل کا ساتھ اس لئے دے رہا ہے تاکہ جنگ طول پکڑنے سے اپنا اسلحہ فروخت کر سکے کیونکہ امریکی معیشت کا زیادہ انحصار ہتھیاروں کی فروخت پر ہے۔ اگر دنیا میں امن قائم ہوگیا تو امریکی معیشت کا بھٹہ بیٹھ جائے گا۔ ویسے یہ بھی کتنی عجیب بات ہے اگر وہ آٹھ ارب ڈالر کا میزائل پروگرام دے تو وہ جائز ہے لیکن پاکستان اپنا میزائل پروگرام جو خالصتاً اپنے دفاع کے لئے شروع کرے تو وہ مکمل طور پر ناجائز ہو جاتا ہے ۔ یہ کہاں کا قانون ہے؟ اور کہاں کا انصاف ہے۔ یہ کہاں کی مساوات ؟ اور یہ بین الاقوامی امن کا جھوٹا داعی امریکہ پھرکہتا ہے کہ دنیا میں امن ضروری ہے ۔ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ مسلمانوں کا بڑے دشمن امریکا کا فلسطین میں نسل کشی کیلئے اسرائیل کو بم فراہم کرنا کونسی نئی بات ہے جو سالوں سال سے مظلوم فلسطین بچوں عورتوں کی نسل کشی میں لگی ہے۔ تاریخ میں ہم پڑھ چکے تھے کہ تاتاریوں نے بغداد کے مسلمانوں کا اتنا قتل عام کیا تھا کہ دجلہ اور فرات کے پانی کا رنگ سرخ ہوگیا تھا لیکن آج اہل غزہ کی حالت نے اسی تاریخ کو دوبارہ دہرا دیا ہے۔ غزہ کے ٹھٹھرتے نونہال آنکھوں سے اوجھل نہ ہوں، نسل کشی کے مجرموں اور ان کے ہمدردوں کا تعاقب جاری ہے، لہو جو غزہ میں بہہ چکا ہے، لہو جو غزہ میں بہہ رہا ہے ہم اس لہو کا خراج لیں گے ۔ ویسے دنیا میں دہشت گردوں کے سرپرست اعلیٰ کا ایوارڈ امریکہ کو دینا چاہئے جو پاکستان میں کسی فوجی عدالت سے سزا پر انسانی حقوق کا رونا روتا ہے مگر وہیں پر50ہزار سے زائد بے گناہ فلسطنیوں کو انسان ہی نہیں سمجھتا ، وہاں پر انسانی حقوق مر جاتے ہیں مگر اپنے گھٹیا قسم کے قتل انسانیت کے کاموں کو جاری رکھا ہوا ہے ، جب تک یہ تشدد والی سوچ ختم نہ ہوگی دنیا میں امن نہیں آسکے گا اور انسانیت کا خون بہتا رہے گا۔ امریکہ جس کو مرضی اربوں ڈالر کے میزائل فراہم کرے لیکن کوئی غریب ملک اپنے دفاع کے لئے کبھی کوشش نہ کرے۔ امریکی پالیسی ہے کہ اسرائیل کو وجود میں رکھ کر خود محفوظ رہے اور تمام مشرقی ممالک ان سے لڑتے رہیں ،خود ترقی کریں، امریکہ کا تو یہ کاروبار ہے پھر بھی امریکہ انسانی حقوق کا علمبردار بنا ہوا ہے۔ معصوم فلسطینیوں کا خون ان کے ہاتھوں ٹپک رہا ہے۔ ظالم کا ساتھ دینے والے اصل مجرم ہیں، نام نہاد مسلم بادشاہ امریکہ کو تیل دینے میں مصروف ہیں، دنیا کو اب جاگنا ہوگا اور مظلوموں کی حمایت اور حق میں آواز بلند کرنی ہوگی۔ اسرائیل نے فلسطین میں 50ہزار مسلمان شہید کر دیئے۔ فلسطینیوں کی آزادی کے لئے مسلمانوں کی عملی امداد صفر ہے۔ رسولؐ کے فرمان کے مطابق مسلمان ایک جان ہیں، لیکن اتنی بہادر اور طاقتور پاک فوج نے ایک گولی نہیں چلائی، فلسطین کی آزادی کے لئے مسلمانوں کے عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔