Ali HassanColumn

سندھ کی سیاست میں کروٹ ؟

تحریر : علی حسن
کراچی میں الطاف حسین کے دو تین عدد پینا فلیکس بینر حال ہی میں آویزاں کئے گئے ، اس سے لوگوں نے یہ تاثر لیا کہ الطاف حسین کے لئے اسٹیبلشمنٹ میں نرم گوشہ پیدا ہوا ہے۔ حیدرآباد میں بھی ایم کیو ایم لندن کے حامی بعض نوجوانوں نے الطاف حسین کے حق میں نعرے بازی کی۔ اس سے قبل الطاف حسین کا نام لینا بھی ممنوع تھا۔ کراچی میں پینا فلیکس آویزاں ہونے کے دوسرے روز حیدرآباد میں ایم کیو ایم کے ایک رکن قومی اسمبلی کے بیٹے کی دعوت ولیمہ تھی، جس میں رابطہ کمیٹی کے سربراہ خالد مقبول صدیقی جو موجودہ حکومت میں وفاقی وزیر بھی ہیں، فارق ستار، مصطفیٰ کمال، انیس قائم خانی ، وفاقی وزیر امین الحق وغیرہ موجود تھے لیکن سب کے چہروں پر ہوائیاں آڑ رہی تھیں۔ اکثر حواس باختہ تھے۔ تمام لوگ ہی دوران تقریب واپس لوٹ گئے۔ کراچی میں الطاف حسین کے حق میں بینر لگنے سے پاکستان میں ایم کیو ایم کے نام پر سیاست کرنے والوں میں یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کے رویہ الطاف حسین کے ساتھ نرم رہا تو ان کے چراغ گل ہو جائیں گے۔ کراچی اور حیدرآباد میں الطاف حسین کو لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ الطاف حسین کی اگست
2016میں کی گئی ایک تقریر متنازعہ قرار پائی تھی جس کے بعد ان کی تقاریر پر پابندی لگا دی گئی تھی اور ان کا نام لینے پر بھی سخت پابندی عائد ہو گئی تھی۔ جب پابندی لگائی گئی تھی تو فاروق ستار اور دیگر لوگوں نے ایم کیو ایم پاکستان قائم کر لی تھی اور الطاف حسین سے اپنے ہر طرح کے رابطوں اور حمایت سے دست برداری کا اعلان کر دیا تھا جس کے بعد ان لوگوں کو سیاسی سرگرمیاں کرنے کی اجازت مل گئی تھی۔ ایم کیو ایم پاکستان نے 2018اور2023کے انتخابات میں حصہ لیا اور عمران خان کی حکومت کے تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں خاتمہ کے بعد قائم حکومتوں میں بھی حصہ داری ملی تھی۔ انہیں ایسی وزارتیں دی گئیں جو ان کی مقبولیت میں اضافہ کا سبب نہیں بن سکی ہیں۔ حکومتوں میں شمولیت کے باوجود ایم کیو ایم پاکستان لوگوں کے دلوں میں گھر نہیں بنا سکی تھی۔ ایم کیو ایم پاکستان کے یہ رہنما جنہیں عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد اپنے دھڑے بندی ختم کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود ان لوگوں کو مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی۔ عمران خان کی مقبولیت کی وجہ اور ان کے خلاف قائم مقدمات کے باری باری خارج ہو رہے ہیں جس سے تاثر یہ پیدا ہو رہا ہے کہ عمران خان کی رہائی عنقریب ممکن ہو گی۔ اگر عمران خان رہا ہو جاتے ہیں اور الیکشن کو اعلان بھی کر دیا جاتا ہے تو تحریک انصاف مقبولیت کے عروج پر ہوگی جس کا کراچی اور حیدرآباد میں مقابلہ کیا جائے۔ الطاف حسین کو ڈھیل کا لوگ ایک سب یہ بھی قرار دیتے ہیں۔
تحریک انصاف کے صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کے ایک مشیر بیرسٹر سیف نے جنہوں ترجمان کی حیثیت بھی حاصل ہے، کراچی آکر مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر پگاڑو سے ملاقات کی۔ پیر پگاڑو بعض سیاسی جماعتوں کے اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ( جی ڈی اے) کی سربراہ بھی ہیں۔ سیف یقینا کوئی
پیغام لے کر ہی آئے ہوں گئے۔ یہ ملاقات کسی موقع پر سندھ میں پیر صاحب کی سرپرستی کے لئے ممکن ہو سکتی ہے۔ فنکشنل ہو یا پیپلز پارٹی مخالف حلوے ہوں پیپلز پارٹی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں کہ ان کا الزام ہے کہ پیپلز پارٹی اپ نے دور اقتدار میں سندھ میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں لا سکی ہے۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے بارے میں یہ اطلاعات گردش کر رہی تھیں کہ پیپلز پارٹی انہیں تبدیل کر رہی ہے۔ ان کے حلقوں نے یہ تاثر دیا تھا کہ مراد علی شاہ کی بیٹی کی شادی ہو رہی ہے انہوں نے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے شادی ہونے تک کہ مہلت طلب کی تھی۔ شادی تو ہو چکی۔ پھر یہ افواہیں بھی گردش میں آئیں کہ پیپلز پارٹی نے وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کا منصوبہ موخر کر دیا ہے۔ بلاول کے حلقوں سے یہ تاثر بھی دیا گیا تھا کہ ضلع گھوٹکی کے نوجوان مہر سردار محمد بخش مہر کے وزیر اعلیٰ مقرر ہونے کی توقع ہے۔ محمد بخش پیپلز پارٹی کی حکومت میں صوبائی وزیر بھی ہیں۔ اگر چہ مراد علی شاہ کی تبدیلی کی اطلاعات دم توڑ گئی ہیں اسی لئے پیپلز پارٹی کی صوبائی کے خاتمے کے امکانات بھی معدوم ہو گئے ہیں۔ جی ڈی اے بھی اپنے حامیوں کے دبائو میں ہے کہ گزشتہ پندرہ سالوں سے قائم پیپلز پارٹی کی حکومت کی تبدیلی کے لئے اقدامات کئے جائیں۔جی ڈی اے میں بھی دولت مند اور طاقت ور لوگ شامل ہیں لیکن پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری رہتا ہے۔ یہ بھاری پن ہی سندھ اسمبلی میں اس کی اکثریت کا سبب بنتی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان پیپلز پارٹی کی ہم پلہ اس لئے نظر نہیں آتی ہے کہ اس کے امیدوار کراچی اور حیدرآباد میں متوسط یا نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بعض نے پیسے بھی کمایا ہے لیکن اپنے عادت کے ہاتھوں مجبور ان رہنمائوں کے ہاتھ الیکشن میں خرچ کرنے کے لئے ان کی جیبوں میں نہیں جاتے ہیں۔ یہ لوگ الطاف حسین کے دور کی طرح توقع رکھتے ہیںکہ کوئی معجزہ انہیں منتخب کرا دے گا۔ ایم کیو ایم سے وابستہ تما م لوگ ہی درمیانے یا نچلے درجے سے تعلق رکھتے ہیں۔ الطاف حسین کی نظر عنایت کی وجہ سے انہیں معاشرتی حیثیت ملی اور ان کے معاشی حالات بھی بہتر ہوئے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے اکثر رہنما اپنے ووٹروں، ہمدردوں یا حامیوں سے ملاقاتیں ہیں نہیں کرتے ہیں۔ یہ لوگ اب تک اسی خواب میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ وہ ماضی کی طرح منتخب ہو جائیں گے لیکن2018 اور2023 کے انتخابات میں تو ایسا نہیں ہو سکا تھا اور آئندہ بھی ہونے کا امکان نہیں ہے۔

جواب دیں

Back to top button