آگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے

صفدر علی حیدری
نائن الیون کا سانحہ ہوا تو اکثر پاکستانی خوشی سے بغلیں بجا رہے تھے کہ اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے ۔ خود کو سپر پاور کہتا تھا۔ کہتا تھا زمین کے کسی کونے میں زمین پر رکھی کتاب کا سرورق تک ہماری نظروں سے پوشیدہ نہیں ۔ ہم کتاب کا نام پڑھ سکتے ہیں ، ایسی ٹیکنالوجی کا کیا فائدہ جسے اتنے بڑے طیارے نظر نہیں آئے ۔ اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے
جو مسلمانوں پر اس نے ظلم کیا ہے ، اس کی سزا تو ملنی ہی تھی
غرض جتنا منہ اتنی باتیں
میں بھی ان عام پاکستانیوں میں شامل تھا جو اس تباہی پر مسرت کا اظہار کر رہے تھے۔ اسی دوران میں نے ڈاکٹر اسرار احمد کا بیان اخبار میں پڑھا،انہوں نے مسلمانوں سے اپیل کی تھی کہ وہ سجدے میں سر رکھ کر دعائیں مانگیں کہ اللہ تعالیٰ عالم اسلام کو امریکہ کے غصے سے بچائے۔ مجھے یہ پڑھ کر شدید حیرت ہوئی مگر بعد میں وقت نے ثابت کیا کہ وہ درست فرما رہے
تھے۔ امریکہ نے پہلے افغانستان اور پھر عراق کو تباہ و برباد کر ڈالا۔ پاکستان کو امریکہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے اپنی تاریخ کی بد ترین دہشت گردی جھیلنی پڑی۔ اس کے اثرات اب تک باقی ہیں۔
یہ واقعہ یوں یاد آیا کہ امریکہ ایک بار پھر تباہی سے دوچار ہے۔ جنگل میں لگنے والی آگ نے شہر کو جنگل میں بدل دیا ہے۔لاس اینجلس میں پگھلے اے ٹی ایم، انگاروں کے ڈھیر اور سلگتی گاڑیاں دیکھ کر لگتا ہے جیسے یہاں کسی نے ایٹم بم گرایا ہو ۔ ہیرو شیما اور ناگاساکی کے مناظر نظروں کے سامنے گھومنی لگتے ہیں ۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں چار پانچ روز قبل لگنے والی آگ پر اب بھی قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کے نتیجے
میں اب تک 24افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ متاثرہ علاقوں سے سامنے آنے والی تباہی کے مناظر پر تبصرہ کرتے ہوئے لاس اینجلس کائوئنٹی کے شیرف رابرٹ لونا نے شہر کا موازنہ ایٹم بم کے بعد کی تباہی کے مناظر سے کیا۔ انہوں نے پریس کانفرنس کے دوران بات کرتے ہوئے کہا ’’ ایسے لگ رہا ہے جیسے ان علاقوں پر کسی نے ایٹم بم گرایا ہو ‘‘۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ان علاقوں میں رہنے والے 2لاکھ سے زائد افراد کو نقل مکانی کے احکامات
جاری کیے جا چکے ہیں ۔ ریاست کی اتھارٹی ’’کیل فائر‘‘ کے مطابق اب بھی آگ پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ ادارے کے مطابق سب سے بڑی آگ پیلیسیڈز کے علاقے میں لگی ہے، جس نے 21ہزار
500ایکڑ سے زیادہ کی زمین کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ ایٹن کے علاقے میں لگنے والی آگ نے 14ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین کو متاثر کیا۔ اس کے باعث اب تک ہزاروں عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ کینتھ میں لگنے والی آگ نے ایک ہزار ایکڑ کے علاقے کو متاثر کیا اور اس پر 50فیصد قابو پایا گیا جبکہ ہرسٹ کے علاقے میں لگنے والی آگ نے 770ایکڑ کے علاقے کو متاثر کیا اور اس پر 70فیصد قابو پایا گیا ہے۔ لڈیا فائر جو لاس اینجلس کے شمالی پہاڑیوں پر لگی ہے، نے اب تک 395ایکڑ کی زمین کو متاثر کیا اور اس پر تقریباً مکمل طور پر قابو پا لیا گیا ہے۔ تازہ ترین آگ آرچر کے مقام پر لگی اور اب تک اس نے 19ایکڑ زمین کو متاثر کیا ہے اور اس وقت یہ بے قابو ہے۔ کیلی ورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے پانی کی قلت کے باعث آگ بجھانے کے عمل میں مشکلات کی اطلاعات کے بعد اس حوالے سے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ نقل مکانی کرنے والوں میں سے ایک کلائمیٹ رپورٹر لوسی شیرف بھی شامل تھیں۔ وہ کہتی ہیں ’’ لاس اینجلس کو ایک دوزخ نما مقام میں تبدیل ہوئے کئی روز گزر چکے ہیں لیکن میرا گھر اب بھی دہکتے انگاروں کا ڈھیر ہے۔ میں اب شہر کے شمال میں ایک علاقے میں اپنی دوست کے گھر پر موجود ہوں جو پیلیسڈز جہاں اب تک کی سب سے بڑی آگ لی ہے، سے 30میل کے فاصلے پر ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ ہم یہاں محفوظ ہوں گے لیکن کیونکہ پورے شہر میں اب بھی چھ مقامات پر آگ لگی ہوئی جو پھیل رہی ہے اس لیے کوئی جگہ بھی محفوظ نہیں ۔ میں ایسے بہت سے لوگوں کو بھی جانتی ہوں جنھوں نے سوچا تھا کہ انھیں پناہ مل گئی لیکن انھیں دوبارہ نقل مکانی کرنی پڑی، ہمیں اپنے بیگ پیک کر کے دروازے کے پاس رکھنے پڑے ہیں تاکہ اگر کوئی نئے احکامات آئیں تو ہم 48گھنٹے میں دوسری مرتبہ نقل مکانی کر سکیں۔ پھر وہی ہوا جس کا ہمیں ڈر تھا، ہمیں فوری طور پر نقل مکانی کا حکم دیا گیا، تاہم یہ الارم غلط ثابت ہوا۔ ایک ایسی غلطی جس نے امریکہ کے دوسرے سب سے بڑے شہر کو ہلا کر رکھ دیا، جو پہلے ہی مشکلات کا شکار تھا۔ کلائمیٹ رپورٹر کے طور پر میں نے سنگین موسمی صورتحال پر رپورٹ کرنے کی عادی ہوں، کچھ روز پہلے تک میں مالیبو میں لگنے والی آگ کے باعث نقل مکانی کرنے والوں کا انٹرویو کر رہی تھی، اب میں کہانی کی دوسری طرف ہوں ۔ دو روز بعد جب ہمیں لوٹ مار کے بارے میں معلوم ہوا جو پیلیسیڈز میں ہو رہی تھی تو ہم نے سوچا کہ ہمیں واپس جا کر اپنے گھر کو دیکھنا چاہیے اور کچھ اہم اشیا اٹھا لینی چاہئیں جیسے فوٹو گرافس ، جرنلز اور خاندانی سونا۔ جب ہمیں بدھ کی دوپہر میرے صحافی ہونے کے باعث واپس جانے کا موقع ملا اور ہم اپنے گھر جاتی سڑک کے قریب پہنچے تو اپنے گھر کے سامنے آگ کے شعلے اور فائر انجن دیکھ کر میرا دل ڈوب گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا ہم اپنے گھروں کے سامنے سے گزرے تو پورے کے پورے گھر ہی زمین بوس ہو چکے تھے۔ ہم نے اپنی گاڑی پارک کی اور پیچھے کی طرف بھاگے۔ جیسے ہی میں نے وہ منظر دیکھا، میں نے ایسے کچھ قدم پیچھے ہوئی جیسے مجھے سے کوئی چیز ٹکرائی ہو۔ جہاں ایک وقت تک 20گھر کھڑے تھے اب صرف انگاروں کے ڈھیر تھے۔ فائر فائٹرز جن کے چہرے راکھ سے اٹے ہوئے تھے ہم سے معذرت کر رہے تھے کہ وہ ہمارا گھر نہیں بچا پائے۔ میں رو رہی تھی اور ان کا شکریہ ادا کر رہی تھی کہ انھوں نے ہمارے لیے اتنا کچھ کیا ہے۔ مجھے اپنے ہمسائیوں کو کال کر کے یہ بتانا پڑا کہ ان کے گھر جل کر راکھ ہو چکے ہیں۔ مجھے الفاظ کے چنائو میں بھی مشکل درپیش ہے، وہ کہتی ہیں کہ ہمارے علاقے کا زیادہ تر حصہ، میں کہوں گی 90فیصد ختم ہو چکا ہے۔ سب ختم ہو چکا ہے ۔ میں اب بھی اس دھچکے سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہوں، اس تباہی سے اور خیال سے کہ میری کمیونٹی نے سب کچھ کھو دیا ہے۔ میں شہر چھوڑنا کا منصوبہ رکھتی ہوں اور اپنے دوستوں کے پاس شمال میں جانے کے بارے میں سوچ رہی ہوں جہاں تحفظ بھی ہو گا اور آگ بھی نہیں ہو گی ۔ ان کا مزید کہنا تھا میرے خیال میں اب مجھے لاس اینجلس واپس آنے میں کافی وقت لگے گا۔ یہ سوچنا بھی مشکل ہے کہ میرے پاس واپس جانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ کوئی گھر، نہ کوئی لائبریری، نہ سٹور، نہ تھیٹر نہ کمیونٹی سینٹر۔ یہ سب ہی ختم ہو چکا ہوں۔ میں یہی سوچتی رہتی ہوں کہ مجھے بھاگنے سے پہلے مزید سامان اٹھانا چاہیے تھا ۔ لیکن پھر مجھے وہ واضح لمحہ یاد آیا جب اپنے گھر سے نکلنے سے پہلے اپنے بیڈروم میں کھڑے ہو کر میں فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ مجھے اپنے ساتھ کون سی بالیاں لے کر جانی چاہئیں۔ میں نے خود کو با آوازِ بلند کہا صرف وہی لے کر جائو جو تمہیں چاہیے۔ تمہیں کیا چاہیے؟ اور مجھے اپنے پسندیدہ کپڑوں، جوتوں اور جیولری کو دیکھتے ہوئے اس لمحے میں خیال آیا کہ مجھے اس میں سے کچھ بھی نہیں چاہیے۔ میں نے اپنی نانی کی انگوٹھی، پاسپورٹ اور برتھ سرٹیفکیٹ اٹھائے اور باقی سب جلنے کے لیے چھوڑ گئی۔
’’ امریکی تاریخ کی سب سے مہنگی آتشزدگی اور لاس اینجلس کے پُرتعیش گھروں کی تباہی کسی ہالی وڈ فلم جیسی ہے‘‘۔
’’ جنہوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کیا ہے یقینا انہیں ہم عنقریب آگ میں جھلسا دیں گے، جب بھی ان کی کھالیں گل جائیں گی ( ان کی جگہ) ہم دوسری کھالیں پیدا کریں گے تاکہ یہ لوگ عذاب چکھتے رہیں، بے شک اللہ غالب آنے والا، حکمت والا ہے ‘‘۔
اس قرآنی آیت میں قیامت کے بعد جہنم کی منظر کشی کی گئی ہی، مگر یوں لگتا ہے کہ قیامت سے پہلے قیامت کی جھلکی دکھائی جا رہی ہے۔ ابھی ایک سانحہ ٹلا نہیں تھا کہ امریکہ ایک اور سانحے سے دو چار ہوا۔ آگ اور برف ( پانی) ایک دوسرے کے مخالف عناصر ہیں لیکن امریکہ میں ان متضاد عناصر نے ایک ہی وقت میں لاکھوں افراد کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ دنیا یہ دیکھ کر حیران ہے کہ ایک طرف امریکہ میں آگ کی تباہ کاریاں پھیلی ہوئی ہیں تو دوسری طرف برفانی طوفان نے نظام زندگی کو مفلوج بنا دیا ہے۔
اس درجے کی تباہی قیامت صغریٰ سے کم نہیں۔ یہ فخر و انبساط کا نہیں عبرت کا مقام ہے۔ خدا کے حضور رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی کا وقت ہے۔ یہ وقت ہے کہ انسان سنبھل جائے، سمجھ جائے ، عقل سے کام لے مگر جناب امیر کے فرمان کے بموجب ’’ عبرت کے مقامات بہت سے ہیں، افسوس عبرت حاصل کرنے والے کتنے چھوڑے ہیں ‘‘۔ امریکہ میں تباہ حال علاقوں میں لوٹ مار کے واقعات تو یہی بتاتے ہیں کہ انسان نے اپنی روش نہیں بدلی ۔ وہ خود کو تبدیل کرنے کو تیار نہیں ۔ ایک فیس بک صارف نے ان واقعات پر بڑا اچھا تبصرہ کیا ہے ’’ ہالی ووڈ کے اداکاروں کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ ایک اکیلا اداکار پوری سوسائٹی کھڑی کر سکتا ہے۔ لاس اینجلس کی دوبارہ تعمیر ان کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے ، بلکہ وہ تو اسے پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت بنائیں گے۔ مسئلہ آپ کا ہے، اپنے بارے میں سوچو۔ خدا نہ کرے اگر پھر زلزلہ یا سیلاب آ گیا اور امریکی ایڈ نہ آئی تو تمہارا کیا ہو گا ؟ امریکہ سارا بھی جل جائے تو وہ ہماری طرح امداد کی بھیک نہیں مانگے گا اور مزے کی بات پھر اسی بھیک سے عیاشی تو ہرگز نہیں کرے گا‘‘۔
اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے
آگ ہے، اولاد ابراہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
آخر میں ایک واقعہ بنا تبصرے کے پیش کیا جاتا ہے ’’ ایک بزرگ ہر وقت استغفار کیا کرتے تھے۔ ان کے معتقدین اس بات سے سخت حیرت زدہ تھے۔ آخر ایک دن ان لوگوں نے اسی کی وجہ پوچھی تو وہ بزرگ بولے، میری بازار میں دکان تھی۔ ایک بار میں گھر کسی کام کے لیے آیا تو اچانک شور اٹھا کہ بازار کو آگ لگ گئی ہے۔ میں بھاگا وہاں پہنچا تو یہ دیکھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا کہ تین سو کی تین سو دکانیں جل گئی تھیں، سوائے میری دکان کے۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا ’’ الحمدللہ‘‘ ۔ پھر اچانک میرے دل میں خیال آیا کہ کیا مسلمان بھائیوں کا نقصان تیرا نقصان نہیں ہے۔ میں شرم سے پانی پانی ہو گیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، پچیس سال سے میں استغفار کر رہا ہوں مگر میری شرمندگی کم ہونے کا نام نہیں لیتی‘‘۔