سائبر کرائم ترمیمی بل اور فیک نیوز
تحریر : امتیاز عاصی
خبروں کی تصدیق کے بارے میں حق تعالیٰ کی آخری کتاب میں فرمان الٰہی ہے ’’ جب کوئی تمہارے پاس خبر لے کر آئے تو پہلے اس کی تصدیق کر لیا کرو‘‘۔
چنانچہ قرآنی آیت سے پتہ چلتا ہے جھوٹی خبروں کا یہ سلسلہ قبل از اسلام جاری ہے۔ اللہ کریم کے ان احکامات کی روشنی میں ہم سب پر لازم ہے کوئی خبر آئے تو اس کی تصدیق کر لیا کریں۔ ٹی وی چینلوں کے متعارف کرانے سے قبل اخبارات میں جھوٹی خبروں کی اشاعت شاذ و ناظر ہوتی تھی ورنہ دوسری صورت میں قومی اخبارات ایسی خبروں کی تردید شائع کرتے تھے، خبر دینے والے رپورٹر سے باز پرس ہو تی تھی اور بعض صورتوں میں رپورٹر کو ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا تھا۔ قومی اخبارات میں جھوٹی خبروں کی تردید کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ایک اچھے رپورٹر کی یہ خوبی ہے وہ کوئی خبر دینے سے پہلے اس کی تصدیق کرلیا کرے تو خبر کی تردید کی ضرورت نہیں رہتی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز کا آغاز ہوا تو صحافت سے تعلق رکھنے والے بہت کم اور کاروباری طبقہ سے منسلک زیادہ لوگوں نے اپنے معاملات کو تحفظ دینے کی خاطر ٹی وی چینلز کے اجازت نامے حاصل کرنے شروع کر دیئے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ملک میں نجی ٹی وی چینلز کی بھرمار ہو گئی اورجس کا جو جی چاہا ٹی وی چینلز پر آکر کہہ دیا۔ پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے بعض سیاسی رہنمائوں نے من پسند صحافیوں کی خدمات لینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ موجودہ دور میں نجی ٹی وی چینلز کی طرف نگاہ ڈالیں تو نگاہیں مارے شرم کے جھک جاتیں ہیں ایسے ایسے صحافی حضرات چینلز پر باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں جیسے وہ کسی سیاست دان کے زر خرید ہیں۔ بعض اینکر اپنے پسندیدہ سیاست دانوں کی شان میں قصیدے پڑھتے نظر آتے ہیں۔ عوام کو سمجھ نہیں آتی وہ کس کی بات پر یقین کر یا نہ کریں ہر طرف جھوٹی خبروں کی یلغار ہے۔ دیکھا جائے تو صحافت ایک طرح سے امانت ہوتی ہے جسے عوام کو ایک امانت سمجھ کر پیش کیا جانا چاہیے۔ عوام بعض پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی خبروں اور سیاست دانوں کی ٹی وی ٹاک سے پریشان تھے کہ سوشل میڈیا نی قدم جمانے شروع کر دئیے۔ آج ہمارے ملک میں سوشل میڈیا کا یہ عالم ہے جس کا جو جی چاہیے جس کی پگڑی اچھال دے کوئی باز پرس کرنے والا نہیں۔ دو روز قبل کی بات ہے ایک یوٹیوبر نے ٹیوٹر پر یہ خبر چلا دی بانی پی ٹی آئی عمران خان کو سینٹرل جیل راولپنڈی سے کہیں اور منتقل کیا جا رہا ہے، ساتھ اس کا یہ دعویٰ تھا عمران خان کو فوج کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ خبر کی اہمیت کے پیش نظر یہ ناچیز سینٹرل جیل اڈیالہ جہاں زندگی کے قریبا پندرہ برس گزار کر آیا تھا اپنے خاص ذرائع سے اس خبر کی تصدیق چاہی تو اس نے ہنس کر کہا یار وہ آج صبح تک تو یہیں تھا۔ یہ بات بتانے کا مقصد یہ تھا کہ سوشل میڈیا شتر بے مہار ہو چکا ہے، جسے نکیل ڈالنا وقت کی ضرورت ہے۔ ہمیں تو سمجھ نہیں آتی یہ لوگ کیسی صحافت کرتے ہیں، نہ انہیں صحافت کے آداب بارے معلومات ہیں، نہ ہی ان لوگوں نے کہیں تربیت حاصل کی ہے۔ جھوٹی خبروں کے طوفان نے معاشرے کی چولیں ہلا دیں ہیں چنانچہ حکومت نے جھوٹی خبروں اس یلغار کو روکنے کی خاطر سائبر کرائم قانون میں ترمیم اور ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سائبر کرائم قانون میں ترمیم کے بعد فیک نیوز پر پانچ سال قید یا دس لاکھ جرمانہ ہو سکے گا۔ دراصل ریاست پاکستان میں جب تک قانون پر عمل داری نہیں ہو گی معاشرے میں پیدا ہونے والا بگاڑ درست نہیں ہو سکے گا۔ ہمارے ہاں کون سا قانون نہیں ہے مہنگائی سے لے کر قتل کے جرائم میں ملوث افراد کو سزائیں دینے کے لئے قوانین موجود ہیں۔ آج تک کوئی حکومت ملک سے مہنگائی کی روک تھام میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کے پی کے کے دورہ کے موقع پر اپنے کپڑے بیچ کر عوام کو سستا آتا فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی یا ملک میں آٹے کی قیمتیں یکساں ہیں؟ قانون پر موثر طریقہ سے عمل درآمد نہ ہونے کے نتیجہ میں ایک ہی شہر میں اشیائے ضرورت کی چیزوں کی قیمتیں مختلف ہیں۔ دنیا کے کسی ملک جا کر دیکھ لیں مذہبی تہواروں کے موقع پر اشیائے ضرورت کی قیمتیں کم سے کم تر سطح پر ہوتی ہیں لیکن اسلامی ریاست پاکستان میں قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ پی ٹی آئی کے اسلام آباد میں احتجاج کے بعد حکومت کو سائبر قانون اور سوشل میڈیا کی یلغار روکنے کے لئے اقدامات کی ضرورت پیش آئی ہے ۔کیا حکومت کو اس سے قبل ان چیزوں کا ادراک نہیں تھا۔ ہم تو حکومتی اقدام کو سراہتے ہیں اگر یہی کام بہت پہلے ہو جاتا تو ملک میں سوشل میڈیا نے جو اودھم مچایا ہوا ہے دیکھنے میں نہ آتا۔ ہم حکومت سے یہ بھی کہیں گے سوشل میڈیا کی یلغار کی آڑ میں کہیں ایک ہی سیاسی جماعت کو ٹارگٹ کرنے کے لئے نئے اقدامات تو نہیں کئے جا رہے ہیں؟ جہاں تک سوشل میڈیا سے وابستہ یو ٹیوبرز کی بات ہے ٹی وی چینلز کی بھرمار سے اخبارات میں ملازمتوں کا حصول ناممکن ہو گیا ہے۔ بے شمار صحافیوں کو ملازمتوں سے فارغ کئے جانے سے ان لوگوں نے سوشل میڈیا کی طرف رخ کرکے اپنے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کا راستہ نکالا ہے لہذا حکومت قوانین میں ترامیم ضرور کرے جو لوگ جھوٹی افواہیں پھیلانے کے مرتکب ہوں ان کے خلاف کارروائی ضرور ہونی چاہیے شرط یہ ہے اس مقصد کے لئے سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر قانونی کارروائی کی جائے۔ حکومت کو بے روز گار صحافیوں کے لئے روزگار کے مواقع بھی پیدا کرنے چاہیں تاکہ جو لوگ برسوں سے پیشہ صحافت سے وابستہ تھے روز گار کے حصول کے لئے دربدر ہیں، ان کی داد رسی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سوشل میڈیا سے وابستہ حضرات کو چاہیے کوئی خبر دینے سے قبل اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ان احکامات کو ذہن میں رکھیں جس میں خبر کی تصدیق کا حکم دیا گیا ہے ۔