Column

جنوبی کوریا میں مارشل لا کا نفاذ اور اختتام

تحریر : محمد ناصرف شریف
کوریا 1910سے 1945تک جاپان کے تسلط میں رہا، دوسری عالمی جنگ کے بعد کوریا دو حصوں شمالی اور جنوبی زونزمیں بٹ گیا، شمالی کوریا روس کے جبکہ جنوبی کوریاامریکا کے زیر تسلط چلا گیا۔ 8ستمبر 1945سے 15اگست 1948تک امریکا جنوبی کوریا کا حکمران رہا۔ مئی 1948میں عام انتخابات کے بعد 16اگست کو پہلی جمہوریہ کوریا کی حکومت تشکیل پائی۔ صدارتی نظام نافذ ہوا۔ جنوبی کوریا کے قیام کے چند ماہ بعد ہی ملک میں فوجی بغاوت کو کچلنے کیلئے صدر نے امریکی تعاون سے مارشل لگا دیا۔ 1948کے بعد سے اب تک جنوبی کوریا میں یہ 17بار مارشل لا لگایا گیا جن میں سے 12بار ایمرجنسی مارشل لا کا اعلان کیا گیا۔ اس سے پہلے اکتوبر1979کو مارشل نافذ ہو ا، اس کے 44سال بعد تین دسمبر 2024کو جنوبی کوریا مارشل لا کی زد میں آیا۔ ملکی آئین کے آرٹیکل 77کے مطابق، صدر جنگ یا دیگر قومی ہنگامی صورت حال میں، فوجی ضروریات کو پورا کرنے یا عوامی امن و امان کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہو فوجی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مارشل لا کا اعلان کر سکتا ہے۔ مارشل لا کے اعلان کے بعد صدر کو قومی اسمبلی کو مطلع کرنا ہوتا ہے۔ اگر اسمبلی اکثریتی ووٹ سے مارشل لا کو مسترد کرتی ہے تو صدر کو اسکی تعمیل کرنی ہوتی ہے ۔ جنوبی کوریا میں اگلے سال کے بجٹ بل پر یون کی قدامت پسند پیپلز پاور پارٹی کا لبرل اپوزیشن ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ تعطل چلا آ رہا ہے اور حالیہ عرصے میں انہیں اپنا ایجنڈا آگے بڑھانی میں مشکلات پیش آئی ہیں۔
میرے ہم وطنو! منگل کے روز جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے اپوزیشن پر غیر ریاستی سرگرمیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے کا اعلان کر دیا، پارلیمنٹ کو سیل کر دیا گیا۔ جنوبی کوریا کے موجودہ صدر کا برتاؤ ایک ایسے سربراہ جیسا تھا جو سمجھتے ہیں کہ ان کا محاصرہ کیا جا چکا ہے۔ منگل کی رات کو خطاب میں انہوں نے اپوزیشن کی جانب سے حکومت مخالف رویے کا ذکر کیا اور پھر کہا کہ وہ مارشل لا نافذ کر رہے ہیں تاکہ ’’ تباہی پھیلانے والے ریاست مخالف عناصر کو کچلا جا سکے’’ ان کے اعلان کے تحت فوج کو اختیارات سونپ دیئے گئے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار، بشمول فوج اور پولیس، قومی اسمبلی کی عمارت کے باہر تعینات کر دیئے گئے جس کی چھت پر ہیلی کاپٹروں کو اترتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ مسلح فوجی اہلکار ماسک پہنے اسمبلی کی عمارت میں داخل ہوئے تو اسمبلی کے عملے نے آگ بھجانے والے آلات کی مدد سے ان کو روکنے کی کوشش کی۔ جنوبی کوریا کے سیاست دانوں نے فوری طور پر صدر کے اعلان کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا۔ خود صدر کی اپنی سیاسی جماعت کنزرویٹیو پاور پارٹی کے سربراہ نے ان کے عمل کو’’ غلط ’’ قرار دیا۔ ملک کی سب سے بڑی حزب اختلاف جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ لی جائی میونگ نے اراکین اسمبلی کو پارلیمان پہنچنے کی درخواست کی تاکہ مارشل لا کیخلاف ووٹ ڈالا جائے اور انہوں نے عام شہریوں سے بھی التجا کی کہ وہ پارلیمان پہنچ کر احتجاج کریں۔ اس کے بعد ہزاروں مظاہرین اور 190ارکان پارلیمنٹ سکیورٹی حصار توڑتے ہوئے پارلیمنٹ پہنچ گئے، 300ارکان کے ایوان میں سے 190نے مارشل لا کیخلاف ووٹ دیا اور اسے کالعدم قرار دے دیا ۔ صدر کا کہنا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کے مطالبے کے بعد کابینہ کے اجلاس میں مارشل لا ہٹانے کا اعلان کریں گے۔ جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول کی سڑکوں پر فوجی ٹینکوں نے گشت کیا اور اس دوران سکیورٹی فورسز اور مظاہرین میں معمولی جھڑپیں بھی رپورٹ ہوئیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے مارشل لا ہٹائے جانے کے اعلان کے باوجود صدر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جمہوری حکومت کے خاتمے کی کوشش پر ان کا مواخذہ کیا جانا چاہئے ۔ اسمبلی میں مارشل لا کیخلاف قرارداد کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی کے سپیکر وو وون شیک نے مارشل لا کو ’’ غیر قانونی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ قانون ساز عوام کے ساتھ ملکر جمہوریت کا تحفظ کریں گے۔ وو کی جانب سے واپسی کا مطالبہ کرنے کے بعد پولیس اور فوجی اہلکار اسمبلی کے ایوانوں سے نکل گئے۔
صدر یون سک یول کے مارشل لا کے اعلان پر جنوبی کوریا کے عوام میں حیرت اور خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔ اعلان کے بعد جنوبی کوریائی وان کی قیمت گر کر 1423وان فی ڈالر پر آگئی، جو 25ماہ میں سب سے کم ترین سطح ہے، روس اور امریکا نے صورتحال پر اظہار تشویش، جبکہ چین، فرانس، اٹلی جاپان، سنگاپور برطانیہ ،فلپائن اور روس نے اپنے شہریوں کو محتاط رہنے کی ہدایت کردی تھی۔ جنوبی کوریا میں چینی سفارتخانے نے ملک میں اپنے شہریوں سے کہا کہ وہ پرسکون رہیں اور سیاسی تبدیلیوں پر توجہ دیں۔ حفاظتی آگاہی کو مضبوط کریں، غیر ضروری باہر نکلنے کو کم کریں اور احتیاط کے ساتھ سیاسی رائے کا اظہار کریں۔ فرانس اور اٹلی نے خطے کیلئے ٹریول الرٹ جاری کر دیا۔ اٹلی نے اپنے شہریوں پر زور دیا کہ وہ مقامی حکام کی رہنمائی پر عمل کریں اور عوامی اجتماعات سے گریز کریں۔
اس نے انٹرنیٹ کنکشن کی کچھ ممکنہ خرابیوں کے بارے میں بھی خبردار کیا۔ جاپان کی وزارت خارجہ نے جنوبی کوریا میں اپنے شہریوں کو ہوشیار رہنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ مارشل لا کے اقدامات کی تفصیلات ابھی تک واضح نہیں ہیں جنوبی کوریا میں سنگاپور کے سفارت خانے نے ایک فیس بک پوسٹ کی، جس میں ملک میں سنگاپور کے باشندوں سے کہا گیا کہ وہ پرسکون رہیں اور خبروں پر نظر رکھیں۔ کہا کہ مارشل لا کے اعلان کا کسی فوجی مداخلت سے کوئی تعلق نہیں لگتا ہے۔ برطانیہ کی طرف سے خطے کیلئے ٹریول الرٹ جاری کئے گئے۔ جنوبی کوریا میں برطانوی سفارت خانے نے ایک ہنگامی نوٹس میں کہا ہے کہ وہ مارشل لا کے اعلان کے بعد ہونے والی پیش رفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس نے برطانوی شہریوں پر زور دیا کہ وہ مقامی حکام کی رہنمائی پر عمل کریں اور سیاسی مظاہروں میں ملوث ہونے سے گریز کریں۔ فلپائن کے محکمہ خارجہ نے ملک میں فلپائنیوں پر زور دیا کہ وہ پرسکون رہیں اور مقامی ایڈوائزری پر دھیان دیں۔
جنوبی کوریا کی حکمران جماعت، اپوزیشن اور عوام نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اپنے اتحاد اور احتجاج کے ذریعے کسی بھی ایسے اقدام کیخلاف بھرپور احتجاج کر سکتے ہیں اور اس کو واپس لینے پر مجبور کر سکتے ہیں جو عوام اور انکے ملک کیلئے نقصان دہ ہو۔ اگر جنوبی کوریا کی اپوزیشن کے لیڈران او عوام سڑکوں پر نہیں نکلتے تو آج اس خطے میں بھی مارشل لا ہوتا۔ جنوبی کوریا کی اپوزیشن اور عوام کا ردعمل اور جدوجہد نہ صرف قابل تقلید ہے بلکہ حقوق کیلئے احتجاج کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔

محمد ناصر شریف

جواب دیں

Back to top button