Column

شیخ المشائخ حضرت پیر سید عبد الرحمان شاہ با با چشتی صابریؒ

ضیاء الحق سرحدی
تاریخ عالم ایسے ان گنت واقعات سے لبریز ہے کہ جو کام سلاطین بزور شمشیر نہ کر سکے وہ کام اولیائے کرام کی نگاہ کرم نے پلک جھپکتے میں کر دیا تمبر پورہ شریف ناصر پور پشاور میں ایک صدی قبل رشد و ہدایت کی جو قندیل روشن ہوئی اس کی ضیاء پاشیوں سے زمانہ آج تک منور ہو رہا ہے ۔ ان عظیم ہستیوں کا تذکرہ اس مختصر مضمون میں تحریر کر نا نا چیز فقیر اور خاکپائے مرشد کے بس کی بات نہیں یہ میری خوش نصیبی ہے اور میرے پیر و مرشد زینت رئیس الفقراء حضرت پیر سید مستان شاہ سر کار حق با با جی چشتی صابریؒ دامت بر کاتہم کی مجھ پر خاص نظر کرم ہے کہ مجھے یہ سعادت نصیب ہو رہی ہے کہ میں اپنے پیر مر شدی کے دا دا حضوراور ان کے مرشد شیخ المشائخ حضرت پیر سید عبد الرحمان شاہ بابا چشتی صابریؒ کے بارے میں کچھ تحریر کروں یہ میرے پیر و مرشدی حق با با محترم کا ہی فیض ہے کہ میں تصوف اور اہل تصوف سے گہری عقیدت رکھتا ہوں۔ اس بزرگ ہستی کا نام شیخ المشائخ حضرت سید عبد الرحمان شا ہ با با ؒ چشتی صابری ہے جن کا شمار صاحب طریقت اور صاحب کشف بزرگوں میں ہوتا ہے۔بلکہ حضرت قبلہ سید محمد امیر شاہ قادری گیلانیؒ المعروف مولوی جی نے اپنی کتاب تذکرہ علماء و مشائخ سرحد جلد دوم زمانہ طباعت 1972ء میں حضرت پیر طریقت حضرت پیر سید عبدالرحمان شاہ بابا چشتی صابریؒ کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ ظاہری شریعت کی پابندی، باطنی فیوض و برکات کی فراوانی اور اخلاقِ محمدیؐ سے متصف ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں آپ کو خوب مقبولیت عطاء فرمائی ہوئی تھی، جیسا کہ ان بزرگوں کو ایسی مقبولیت حاصل ہوئی کہ ان میں کوئی پیران پیر، کوئی گنج بخش، کوئی غریب نواز، کوئی قطب الاقطاب، کوئی گنج شکر، کوئی مخدوم، کوئی محبوب الٰہی اور کوئی چرغ دہلی کہلایا۔ آپ کے والد کا اسم شریف حضرت پیر سید محمد شاہؒ اور دا دا کا نام حضرت پیر سید غریب شاہؒ ہے ۔ آپ کا سلسلہ نسب چالیس واسطوں سے امام المتقین سید الشہداء مظلوم کربلا سید نا امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ سے ہوتا ہوا امیر المومنین حضرت علیؓ ابن ابی طالب شیرِ خدا سے جا ملتا ہے۔ جبکہ اب شجرہ طریقت بھی سرتاج اولیا ء حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکر ؒسے ہو کر امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے ، گویا کہ آپ حسینی سید ہیں ۔آپ کے والد سید محمد شاہ ولی کامل اور عارف با اللہ تھے۔ عمر کا بیشتر حصہ جذب اور سلوک میں گزارہ، حضرت سیدنا مخدوم علائوالدین احمد صابر پیرانِ کلیر شریف کے مزار پر کافی عرصہ معتکف رہے اور عشق و مستی سے سر شار رہے ۔شیخ المشائخ پیر طریقت حضرت پیر سید عبد الرحمان شاہ با با چشتی صابری خانوادہ چشتیہ صابریہ تمبر پورہ شریف ( جوکہ ناصر پور ریلوے سٹیشن جی ٹی روڈ پشاور شہر سے دس ، بارہ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے) کے جلیل القدر بزرگ تھے جو تصوف ، طریقت اور روحانیت کے اعلیٰ و ارفع مرتبہ پر فائز تھے اور اپنے وقت کے غوث الزمان اور علماء مشائخ سرحد کہلائے ۔تصوف و طریقت کی عظیم الشان دنیا میں تمبر پورہ شریف کے معتقد روحانی سلسلہ خاندان چشتیہ صابریہ کو منفرد مقام حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس خانوادے کو ایسی بے مثال بر گزیدہ ہستیوں سے نوازا جنہوں نے اسلام اور شریعت کے فروغ کے لئے کارہائے نمایاں سر انجام دیئے اور اپنے روحانی فیوض و کرامات کی برکت سے ایک عالم کو تصوف کی روشنی سے منور کیا پیر طریقت حضرت پیر سید عبد الرحمان شاہ با با چشتی صا بری  تصوف کے چار طریقوں کے عامل اور مجاز تھے ۔آپ ان چاروں طریقوں سے فیض عطا کرتے اور اکثر فر ا تے کہ وہ کیسا فقیر ہے کہ ایک ہی طریقے کو چلائے ،تاہم آپ مریدین کو عموماً چشتیہ سلسلہ میں بیعت کرتے ۔ ابو الحسن نوریؒ کا مشہور قول ہے کہ تصوف ایک اخلاقی شے ہے جو اللہ تعالیٰ کے اخلاق و عادات اختیار کرنے سے حاصل ہو تا ہے۔ دنیا دشمنی اور خدا دوستی کا نام تصوف ہے ۔ صوفیاء کی روحیں غلاظت بشریٰ سے آزاد ،کدورت نفسانی سے صاف اور خواہشات سے مبرا ہوتی ہیں ۔ تصوف نہ تو رسم ہے اور نہ علم کیونکہ اگر رسم ہوتا تو مجاہدات سے اورعلم ہوتا تو تعلیمات سے حاصل ہو جاتا حق تعالیٰ نے حدیث میں مرد مومن کی شان اس طرح بیان کی ہے کہ ’’ ہم اس کے کان بن جاتے ہیں، اس کی آنکھ بن جاتی ہیں اور اس کی زبان بن جاتے ہیں‘‘ جبکہ ڈاکٹر علامہ اقبالؒ نے اس کو اپنے شعر میں بند کر لیا کہ
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کارکشا کارساز
تمبر پورہ شریف کی ان مبارک ہستیوں کے دست حق پرست پر ہزاروں بے دین ،دولت ِ ایمان سے بہرہ مند ہوئے پیر مرشدی پیر حضرت سید عبد الرحمان شاہ با با چشتی صابری پیر طریقت حضرت پیر سید قاسم شاہؒ چشتی صابری کے والد بزرگوار تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی خلقِ خدا کو راہ حق دکھانے اور انہیں شریعت و طریقت کے اسرارورموز سے آگاہ کرنے کے لئے وقف کر رکھی تھی۔
پیر سید قاسم شاہؒ کے دو صاحبزادے رئیس الفقراء پیر سید مستان شاہ سرکار حق بابا ( جنہوں نے اس دنیا فانی سے پردہ فرما لیا ہے) اور پیر سید عالم شاہ ( بابو جان سرکار جنہوں نے اس دنیا فانی سے پردہ فرما لیا ہے) ہیں ۔پیر عبد الرحمان شاہ بابا چشتی صابری نے حلقہ ارادت سے منسلک افراد کی روحانی اصلاح پر ہمیشہ بھر پور توجہ دی روحانیت میں آپ کا پتہ اس بات سے چلتا ہے کہ آپ کے تربیت یافتہ مریدوں اور خلفاء کی زندگیاں بھی خالص اسلامی سانچے میں ڈھلی ہوئی تھیں ، سینکڑوں لا علاج مریضوں کو آپ کی روحانی نگاہ سے شفاء کاملہ نصیب ہوئیں آپ نے سلسلہ چشتیہ صابریہ کی ترویج و اشاعت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ،با قا عدہ اپنے مشائخ کے اعراس پر ختم خواجگان منعقد فر ماتے اور خصوصاً ہر مہینہ کی چٹھی تاریخ کو خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی سنجری اجمیری کی یاد میں محفل سماع منعقد فر ماتے یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ آپ کا درباری قوال برصغیر پاک و ہند کا مشہور و معروف قوال میراں بخش پشاوری تھا جوکہ ایسی محافل کو اپنی قوالی سے آراستہ کر تا تھا، آپ محفل سماع اور عارفانہ کلام کو پسند فر ما تے تھے کہ یہ اولیاء چشت کو محبوب ہے روایت ہے کہ سماع فیضان حق ہے ( کشف المحجوب ) اور تمام رات صاحب ذوق حضرات ’’ وجد‘‘ و ’’ حال ‘‘ میں مصروف رہتے اور دوران سماع میں جس شخص پر بھی آپ کی توجہ کاملہ کی نظر پڑ جاتی وہ مرغ نیم بِسمل کی طرح گھنٹوں تڑپتا رہتا ۔حضرت پیر سید عبد الرحمان شاہ با باچشتی کرامت ولی اللہ تھے۔ آپ کی دعائیں امر کا درجہ رکھتی تھیں اور حق تعالیٰ قبولیت کے دربار میں فوراً قبول ہو جاتی تھیں۔ آپ کی زبان مبارک سے جو الفاظ نکلتے اللہ تعالیٰ ان کی لاج رکھتا آپ جو کہتے وہی ہو جاتا آپ اپنے والد گرامی مرتبت حضرت پیر سید محمد شاہ چشتی صابری سے بیعت ہوئے جنہوں نے زبد العارفین حضرت صوفی محمد حسین مراد آباد شریف ( بھارت ) سے کسب فیض کیا تھا ۔ آپ حق تعالیٰ اور رسول مقبولؐ کے عشق حقیقی سے سر شار تھے اور آپ کی زندگی قرآن و سنت کا عملی نمونہ تھی۔ آپ ہر ملنے والے کی دلجوئی فر ما تے اور کسی کو خالی ہاتھ واپس نہ لوٹا تی ۔اپنے مریدین پر آپ کی نظر کرم ہر وقت رہتی اگرچہ آپ روحانی تصوف کے بلند مقام پر فائز تھے لیکن آپ پر فقر کا حقیقی رنگ بہت غالب تھا اور آپ کی زندگی کے کسی پہلو سے یہ ظاہر نہیں ہو تا تھا کہ اللہ کے بندوں میں آپ کو ظاہراً کوئی امتیاز حاصل ہے ۔ آپ کی زندگی انتہائی سادہ تھی ، ظاہری نمود و نمائش سے گریز فرماتے جس کا اندازہ اس امر سے بخوبی ہوتا تھا کہ آپ حلقہ مریدین و تابعین میں بھی اپنے آپ کو نمایاں نہ کرتے آپ مریدوں کو نصیحت فر ماتے کہ اپنے اندر انکساری پیدا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کو عاجزی پسند ہی اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں آپ کو خوب مقبولیت عطا فر مائی صوبہ خیبر پختونخوا اور گرد و نواح کے علاوہ دوسرے شہروں سے مخلوق خدا جوق در جوق آتی اور فیوضات و بر کات کی نعمت سے ما لا مال ہو کر جاتی۔ آپ نہایت ہی منکسر المزاج صاحب علم و کرم تھے بحشش و عطا آپ کا خاصہ تھا۔ مریدین کو محنت سے حلال رزق کمانے کا حکم فر ماتے اور اکثر فر ماتے کہ کسب کرو اور اپنی اولاد کو حلال روزی کھانے کا عادی بنائو ایک بار ارشاد فر ما یا ’’ رزق حلال کے لئے کسب کرنا ایک خاص عبادت ہے اور اس میں فقر بھی چھپ جاتا ہے اور فقیر کسی کا محتاج بھی نہیں ہو تا کیونکہ فقر میں سوال کرنا حرام ہے ‘‘۔ آپ اکثر فر ماتے ’’ بہ لباس امیرانہ بہ خیال فقیرانہ ‘‘۔ آپ کی تعلیمات شریعت محمدیؐ سے لبریز ہیں۔ آپ مریدین کو نصیحت فر ماتے کہ صاف ستھرے کپڑے پہنو اس میں فقر چھپ جاتا ہے اور فقیر ریا سے محفوظ رہتا ہے ۔
آپ شہرت کے انتہائی خلاف تھے یہاں تک کہ مریدین نے آپ کی بہت تعظیم کرنی شروع کردی تو آپ نے سختی سے منع فر ما یا اور تلقین فر مائی کہ زیادہ تعظیم مت کرو بلکہ اپنے مرشد کو باطن میں دل کے قریب جانو اور فر ماتے، پیر کا حکم ماننا ادب سے زیادہ درجہ رکھتا ہے ۔ پیر طریقت حضرت پیر سید عبدا لرحمان شاہ با با چشتی صابری کو شریعت کے سوا کوئی دوسرا فعل پسند نہ تھا آپ نے ایک بار فر ما یا فقیر جتنی بھی رسائی رکھتا ہو مگر مالک کے دربار میں سنت نبوی ٔ کے بغیر سخت مجرم ہو گا ۔ آپ اکثر فر ماتے کہ شیخ کی با مرشد کی دل سے عزت اور قدر کی جانی چاہئے ۔مرید کو شیخ کی ذات میں فنا ہو جا نا چاہئے ،با لکل اسی طرح جس طرح شیخ اپنے مرشد وشیخ کی ذات میں فنا ہو کرکچھ حاصل کرتا ہے مریدین جب آپ کی خدمت میں حاضر ہو تے تو آپ بڑی خندہ پیشانی سے پیش آتے اور گفتگو کے دوران شریعت و معرفت کے مختلف پہلوئوں پر اظہار خیال کر کے ان کی تربیت فر ماتے آپ مریدین کے ظاہر کو شریعت سے آراستہ کر تے اور بعد ازاں باطن کو با لیدگی عطا کرتے ۔آپ دربارعالیہ تمبر پورہ شریف کی جامع مسجد شیخ المشائخ پیر عبد الرحمان شاہ میں خطابت کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے اور مذہبی موضوعات پر آپ تقریروں سے علم و فضل اور معرفت الٰہی سے لوگوں کو آگاہ کرتے رہے ،حضرت پیر سید عبدالرحمان شاہ بابا زینت رئیس الفقراء پیر مرشدی حضرت پیر سید مستان شاہ سرکار حق با با چشتی صابری دامت بر کاتہم کے مرشد اوردا دا حضور تھے جنہوں نے اس جہان فانی سی پردہ فرمانے سے قبل اپنے صاحبزادے حضرت سید قاسم شاہ کی حیات ہی میں حق با با کو اپنا روحانی فیض رحمت فر ماتے ہوئے دربار عالیہ تمبر پورہ شریف کی سجادہ نشینی کے شرف سے مشرف فر ما یا درگاہ عالیہ تمبر پورہ شریف کے موجودہ سجادہ نشین قطب دوراں مجسمہ فقرو شرع رئیس الفقراء پیر و مرشدی حضرت پیر سید مستان شاہ سر کار حق با با چشتی صابری دامت بر کاتہم اپنے زہدُ و تقویٰ کے لئے مشہور تھے ،اورایک سچے عاشق رسولٔ اور عقیدت مند محبت کے سمندر میں ڈوبے ہوئے عاشقِ فرید تھے۔ آپ کی با با فریدؒ کے ساتھ نسبت خاص نے صوبہ سرحد میں رنگ فریدی میں ایک ایسا روح پرور نکھار ابھارا ہے کہ صوبہ سرحد میں یہ رنگ پھیلتا ہی جا رہا ہے اور عاشقان فرید کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے ۔ اور ان کی برکتوں کی طفیل ہمیں بھی دنیا و آخرت کی سرخروئی حاصل ہورہی ہے ، بے شک اولیاء اللہ کا قول و فعل سب کا سب رسول ٔ کی تعلیمات کا عملی نمونہ ہے ۔ آستانہ عالیہ تمبر پورہ شریف کے اکابرین علمی سر گرمیوں میں بھی پیش پیش ہیں آستا نہ عالیہ میں جامعہ رحمانیہ کے نام سے ایک بہت بڑی درس گاہ قائم ہے جس کی سر پر ستی سید مستان شاہ سر کار حق با با دامت بر کاتہم کے فر زند سید عنایت علی شاہ بادشاہ موتیاں والی سرکار کر رہے ہیں ۔ پیر حضرت عبد الرحمان شاہ چشتی صابری نے وصال سے چند روز قبل حاضرین کو پند و نصائح فر مائیں اور دعائوں ،فیوض و بر کات سے نوازا ۔یہ بڑا رفت اور وجد انگیز منظر تھا ۔ اس دوران بعض مریدین نے عرض کی کہ آپ کا جسم اطہر تو ہم سے بچھڑ جانے کو ہے آپ ہم سب کو کس کے سپرد کئے جاتے ہیں آپ نے فر ما یا کہ یہ بحر ختم نہیں ہو گا اور یہ روحانی سلسلہ میرے بعد سید قاسم شاہ اور سید مستان شاہ کے سپرد ہے جو آپ کی ظاہری و باطنی تربیت کر سکیں گے اور انہیں سے تمہارا مدعا حاصل ہو گا ۔وصال سے کچھ روز پہلے آپ نے خود قبر شریف پسند فر مائی۔ آپ بروز ہفتہ 14فروری 1953ء بمطابق 29جما دی الاول 1372ھ صبح صادق کے وقت واصل بحق ہوئے اس روز بارانِ رحمت تھی ہزاروں کی تعداد میں مریدین اور عشاق جنازہ میں شریک تھے اور ہر کوئی غمزدہ و گریہ بار تھا ۔ سہ پہر چار بجے آپ پسند کردہ جگہ پر آسو دہ خاک ہوئے زائرین کے لئے مزار مبارک تمبرپورہ شریف کے قریب ایک بلند مقام پر مرجع خاص و عام ہے جہاں سلطان المشائخ حضرت پیر سید محمد شاہؒ کے علاوہ خانوادہ تمبر پورہ شریف کی بعض دوسری بزرگ ہستیوں کے مزار مبارک بھی موجود ہیں۔ آپ ہی کی وجہ سے علاقہ میں چشتیہ صابریہ سلسلہ خوب پھلا پُھولا ۔ یہ آپ ہی کی فیضان نظرہے کہ یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ آپ کا عرس مبارک ہر سال کی طرح رواں برس بھی 29جمادی الاول بمطابق 2دسمبر 2024ء بروز پیر کو پیر صاحب تمبر پورہ شریف رئیس الفقراء حضرت پیر سید مستان شاہ سرکار حق با با کے صاحبزادے پیر سید عنایت شاہ باچا عرف موتیاں والی سرکار کے زیر سرپرستی ختم خواجگان میلاد ہائوس گلبہار پشاور میں منعقد ہوا، جس میں شجرہ شریف ، چشتیہ صابریہ پڑھا گیا اور محفل سماع میں عارفانہ کلام پیش کیا گیا، شرینی و لنگر تقسیم ہوا، اس کے علاوہ سید عنایت شاہ باچا بے خصوصی دعا کی۔ عقیدت مند گلہائے عقیدت پیش کر کے روحانی کیف و سرور کے ساتھ دنیا و آخرت کی سر بلندی و سر فرازی کی دولت سے ما لا مال ہو کر واپس گئے۔
نہ تخت و تاج نہ لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے

جواب دیں

Back to top button