Column

مکارم اخلاق

شہر خواب ۔۔۔۔
صفدر علی حیدری
جب جسم تکامل کے مراحل طے کرتا ہے تو اسے خلق ( زبر) کہتے ہیں، جب روح تکامل کے مراحل طے کرتی ہے تو اسے خلق ( پیش) کہتے ہیں ۔
خوش اخلاقی کسی بھی انسان کی سب سے بڑی خوبی شمار ہوتی ہے۔ اسے بآسانی کسی بھی انسان کا طرہ امتیاز ہے کہا جا سکتا ہے۔ یہ کسی کی معاشرے میں بسنے والے کسی بھی شخص کے کردار کا حسن کہلائے جانے کے لائق ہے ۔ خَلق کا لفظ شکل و صورت پر بولا جاتا ہے، جس کا تعلق بصر سے ہوتا ہے، اور خُلق کا لفظ قوائے باطنہ اور عادات و خصائل کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے، جس کا تعلق بصیرت سے ہے۔
سرکار ختمی مرتبتؐ کی زندگی بنی نوع انسان کے لیے بہترین نمونے ہے۔ آپؐ کے ہر عمل پر تائید و رضائے الٰہی کی مہر لگی ہے۔
سو آپ ؐ کا اخلاق بھی اس قدر اعلیٰ اور مثالی ہے کہ ارشاد قدرت ہوا ’’ یقینا آپ خلق عظیم کے مالک ہیں ‘‘۔
خود آپؐ کا ارشاد ہے ’’ میں اخلاق حمیدہ کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوا ہوں‘‘۔
لہٰذا جو ذات اخلاق حمیدہ کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوئی ہے وہ خود اخلاق حمیدہ ہی کی تکمیل کا مظہر ہو گی۔مولا علیؓ اخلاق کے بارے فرماتے ہیں’’ سب سے بڑا جوہر ذاتی حسنِ اخلاق ہے ‘‘۔
حضرت صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ ’’ آپؐ کا خلق قرآن تھا‘‘۔
یعنی جس چیز کو حق تعالیٰ نے اچھا فرمایا ہے وہی آپؐ کی طبیعت چاہتی تھی اور جس چیز کو حق تعالیٰ نے قرآن شریف میں برائی سے یاد کیا ہے اس سے آپؐ کی طبیعت کو نفرت تھی۔
آنحضرتؐ نے ان سب مرتبوں کو انتہا کے درجے تک پہنچایا تھا کہ اس سی زیادہ کسی بشر کی طاقت نہیں ہے کہ کر سکے۔ آنحضرتؐ کا دستور یوں تھا کہ جب آپؐ فجر کی نماز سے فراغت پاتے تھے تو اس وقت لونڈیاں اور غلام مدینے والوں کے برتن میں پانی لے کر آتے تھے کہ آنحضرتؐ اس پانی کو اپنے دستِ مبارک سے چھو لیں، تاکہ وہ پانی متبرک ہو جائے اور اس کو اپنے کھانے اور پینے کی چیزوں میں ڈالیں اور کبھی سردی کا موسم بھی ہوتا تھا اور برتن بہت سے ہوتے تھے، سب میں ہاتھ ڈالنے سے آپؐ کو تکلیف بھی ہوتی، لیکن باوجود اس رنج اور تکلیف کے آپؐ کسی کی دل شکنی نہیں کرتے تھے اور سب برتنوں میں اپنا دست مبارک ڈالتے تھے ۔
خلق کے معنی اعتدال اور زندگی کے تمام معاملات میں تناسب و توازن پایا جانا ہے، اور یہ صفت نبی کریمؐ کی ذات گرام میں بلند ترین سطح پر تھی۔
حضور پاکؐ کے پیکر میں انسانیت کے سامنے دستور حیات اور سیرت و کردار کی مکمل اور واضح تصویر ہے، بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان اخلاق کی ایک صفت میں کمال حاصل کر لیتا ہے مگر دوسری صفت سے عاری رہتا ہے ، مثلاً اگر وی انکسار کی وصف پیدا کر لیتا ہے تو شجاعت کا جوہر کھو بیٹھتا ہے، اگر رحم میں افراط ہوتی ہے تو عدل کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتا ہے، لیکن یہ حضور ؐ کی پر نور شخصیت کا اعجاز ہے کہ ہر وصف اخلاق کو انتہائے کمال تک  لے گئی ہے۔
حسن خلق کی اہمیت یہ ہے کہ یہ دراصل دین کی غرض و غایت ہے ۔ حسن اخلاق اللہ تعالیٰ کا بہترین عطیہ ہے ، حضور پاکؐ نے متعدد مواقع پر حسن اخلاق کی فضیلت بیان فرمائی ہے اور اپنے عملی نمونہ کے علاوہ ترغیب و تلقین کے ذریعے بھی اخلاق کی اہمیت کو انسان کے دل میں جاگزین کرنے کی کوشش کی ۔
نبی کریمؐ فرماتے ہیں’’ تم میں سے اچھا وہ ہے جو اخلاق کے لحاظ سے بہتر ہو‘‘، پھر فرمایا’’ کامل ترین ایمان ان لوگوں کا ہے جو اخلاق کے لحاظ سے اچھے ہیں ‘‘۔
حُسن خلق انتہائی وسیع صفات کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ اس میں خوش گفتاری، خوش کرداری اور خاکساری کے تمام پہلو آجاتے ہیں ۔
رحمۃ للعالمینؐ کے مزاج میں نرمی اور محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، لوگ نرم خو انسان سے زیادہ رابطہ رکھتے ہیں اور اس طرح نیکی پھیلتی ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضور پاک نے فرمایا ’’ میں تم کو ایسے شخص کی خبر نہ دوں جو دوزخ کے لئے حرام ہے اور دوزخ کی آگ اس پر حرام، دوزخ کی آگ حرام ہے اس شخص پر جو مزاج کل تیز نہ ہو، نرم ہو، لوگوں کے قریب آنے والا ہو‘‘۔
مولا علیؓ بیان فرماتے ہیں ’’ حسن اخلاق تین چیزوں میں ہے: (1)محرمات سے اجتناب کرنا۔ (2)حلال طلب کرنا۔(3)اہل و عیال کے ساتھ بہت عمدہ برتائو کرنا۔
سیدنا عبداللہ بن مبارکؒ فرماتے ہیں کہ ’’ اخلاق خندہ پیشانی یا چہرے کی شگفتگی اور قولی و فعلی بھلائی کی کوشش کرنے اور قولی و فعلی تکلیف دینے سے رک جانے کو کہتے ہیں‘‘۔
امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ ’’ حسن خلق یہ ہے کہ تو غصہ سے اجتناب کر اور کینہ اور بغض نہ رکھ‘‘۔
رسولؐ اللہ نے فرمایا ’’ مومنوں میں ایمانی اعتبار سے اکمل وہ ہیں جن کا اخلاق اچھا ہے، جو اپنے پہلوئوں کو لوگوں کیلئے جھکانے والے ہیں اور لوگوں سے محبت کرتے ہیں اور لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔ اس آدمی میں بھلائی نام کی کوئی چیز نہیں جو نہ لوگوں سے محبت کرتا ہے اور نہ ہی لوگ اس سے مانوس ہوتے ہیں، حسن اخلاق والا روزے دار اور تہجد گزار کے اجر کا ہم پلہ ہے‘‘۔
رسولؐ اللہ نے فرمایا ’’ انسان اپنے اچھے اخلاق کے سبب رات کا قیام اور دن کو روزہ رکھنے والے کے درجات کو حاصل کر لیتا ہے‘‘۔
رسولؐ اللہ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ کو تمام بندوں سے محبوب ترین بندہ وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہے‘‘، نیز فرمایا ’’ جب تمہارے پاس ایسا آدمی آ جائے جس کا دین اور اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس کی شادی کر دو ( یعنی اپنی بیٹی کا نکاح دے دو) وگرنہ زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو جائے گا‘‘۔
رسولؐ اللہ نے فرمایا ’’ ترازو میں اگر کوئی چیز سب سے زیادہ بھاری ہوگی تو وہ حسن اخلاق ہے۔ قیامت کے روز تم میں سے مجلس کے اعتبار سے میرے قریب وہ ہوگا جس کا اخلاق بہتر ہوگا‘‘۔
امام غزالیؒ فرماتے ہیں : ’’ اگر نفس میں موجود کیفیت ایسی ہو کہ اس کے باعث عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ اچھے افعال ادا ہوں تو اسے حسن اخلاق کہتے ہیں اور اگر عقلی اور شرعی طور پر ناپسندیدہ برے افعال ادا ہوں تو اسے بد اخلاقی سے تعبیر کیا جاتا ہے‘‘۔
رسولؐ اللہ نے حضرت ابوذر غفاریؓ سے ارشاد فرمایا ’’ لوگوں کیلئے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو‘‘۔
پھر رسول اکرمؐ نے اپنا دست مبارک ان کے سینے پر مارا اور ارشاد فرمایا ’’ اے ابوذر عقل جیسی کوئی تدبیر نہیں، گناہوں سے بچنے جیسی کوئی پرہیز گاری نہیں، حسن ِاخلاق جیسی کوئی کمائی نہیں‘‘َ
آج اکثر و بیشتر مسلمانوں میں خوش خلقی، خندہ روئی، کشادہ پیشانی اور فراخ دلی جیسی عمدہ صفات ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ حالاں کہ ہمارے مذہب اسلام اور پیغمبر اسلام نے حسن اخلاق کی بہت زیادہ اہمیت بتلائی ہے جن سے آگاہی ہر مسلمان کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔
کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کو زبان کی سختی پسند نہیں۔ اسی لیے تو اس نے زبان میں کوئی ہڈی نہیں رکھی۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حبیبؐ اور آپؐ کی آل پاک کے طفیل عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے اور اخلاق محمدیؐ پر کامل عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

جواب دیں

Back to top button