منفی سیاست کا بڑھتا رجحان
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
میکاولی کے اس نظریے کی صداقت آج پاکستان کی سیاسی صورتحال کو دیکھ کر مزید واضح ہو جاتی ہے کہ ’’ لیڈر پیدا ہوتا ہے، بنایا نہیں جا سکتا‘‘۔ یہ جملہ نہ صرف قیادت کے جوہر کو سمجھنے کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے بلکہ ان چیلنجز کو بھی عیاں کرتا ہے جو ہمارے ملک میں قیادت کے فقدان کی صورت میں درپیش ہیں۔ قیادت، جو کسی قوم کی سمت متعین کرتی ہے، پاکستان میں ایک ایسی صلاحیت بن چکی ہے جو شخصیات کے گرد گھومتی ہے، نہ کہ اصولوں اور پالیسیوں کے۔ موجودہ سیاسی حالات میں جہاں بانی تحریک انصاف کی رہائی اور عدالتی معاملات سے جڑی خبریں مرکز نگاہ ہیں، وہاں ان کے جانشیوں کی حکمت عملی اور طرز سیاست بھی زیر بحث ہے۔ بانی پی ٹی آئی کو ان کے حامی ایک لیڈر مانتے ہیں، جبکہ مخالفین انہیں صرف ایک سیاستدان سمجھتے ہیں جو عوامی جذبات کو اپنی حمایت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہی سوال دیگر سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنمائوں پر بھی لاگو ہوتا ہے، چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت کی قیادت ہو اس اصول کو ہمیشہ سمجھنا ہوگا کہ کیا یہ افراد اپنے عمل اور کردار سے حقیقی قیادت کے اصولوں پر پورا اترتے ہیں، یا یہ صرف اپنے سیاسی خاندانی ورثے کا تسلسل ہیں؟ ۔
ایک حقیقی لیڈر، جیسا کہ بنجمن فرینکلن نے وضاحت کی، اپنے اصولوں اور عوام کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کرتا ہے۔ وہ نہ صرف عوام کے مسائل کو سمجھتا ہے بلکہ ان کے حل کے لیے عملی اقدامات بھی اٹھاتا ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاست اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہاں قیادت کے دعویدار عوام کے جذبات کو بھڑکانے، سیاسی مفادات کو ترجیح دینے، اور طاقت کے حصول کے لیے ہر قسم کی مصلحتوں سے کام لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام ان سیاستدانوں پر اعتماد کرنے کے بجائے مایوسی اور بداعتمادی کا شکار ہیں۔ ملک میں سیاسی انتشار عروج پر ہے۔ دہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں، معیشت کی سمت متعین ہو جانے کے حکومتی دعوئوں کو چیلنج کرنے کی ضرورت بڑھ چکی ہے۔ اس سب کے بیچ، کوئی ایسا رہنما نظر نہیں آتا جو قوم کو ان بحرانوں سے نکال سکے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف ہیں، اور عوام اپنی حالت زار پر ماتم کرتے رہ گئے ہیں۔ موجودہ سیاسی قائدین کو اس امر کا ادراک کرنا ہوگا کہ محض طاقت کے حصول سے قیادت کا حق ادا نہیں ہوتا۔ انہیں اپنی جماعتوں کو اصولوں اور نظریات کے مطابق چلانا ہوگا، نہ کہ محض ذاتی یا خاندانی مفادات کے لیے۔ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ نوجوان نسل کو تعلیم، مواقع، اور رہنمائی دی جائے تاکہ وہ مستقبل میں حقیقی قیادت کے معیار پر پورا اتر سکیں۔ اگر ہم اس وقت قیادت کے بحران پر قابو نہ پا سکے تو یہ بحران آنے والی نسلوں کے لیے مزید مسائل پیدا کرے گا۔ ہمیں اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں ایسے رہنما چاہئیں جو عوامی خدمت کو اپنا مقصد بنائیں، یا وہ جو محض اقتدار کے لیے ہر اصول کو قربان کر دیں۔ یہی فیصلہ پاکستان کے مستقبل کا تعین کرے گا۔
اللہ کی اصل نعمت خوشی، سکون اور قناعت ہے، لیکن سیاست اور اقتدار ان سب کو چھین لیتا ہے۔ یہ حقیقت پاکستانی معاشرت اور سیاست پر بھی پوری طرح صادق آتی ہے۔ اقتدار کی کشش ایک ایسا جال ہے جو نہ صرف انسان کی روحانی سکون کو متاثر کرتا ہے بلکہ معاشرتی اور اخلاقی اقدار کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی کہانی اس کی بہترین مثال ہے، جو ایک قومی ہیرو، سماجی کارکن، اور عوام کے دلوں میں جگہ بنانے والے رہنما سے ایک متنازع سیاستدان بن گئے۔ ان کی سماجی زندگی کے ابتدائی دور پر نظر ڈالیں تو یہ ایک ایسی جدوجہد کی تصویر پیش کرتی ہے جو امید، محنت اور خدمت سے بھری ہوئی تھی۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال اور نمل یونیورسٹی ان کے وہ کارنامے ہیں جنہوں نے انہیں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں عزت بخشی۔ وہ ایک ایسا انسان بن کر ابھرے جس نے اپنی شہرت اور وسائل کو معاشرے کی فلاح کے لیے استعمال کیا۔ اس وقت ان کے مخالفین بھی ان کی کاوشوں کی تعریف کرتے تھے، کیونکہ وہ ایک ایسا مقصد رکھتے تھے جو ذاتی مفاد سے بالاتر تھا۔ لیکن پھر سیاست کی کشش انہیں اپنی طرف لے گئی۔ سیاست، جو اقتدار اور طاقت کا کھیل ہے، ایک ایسا میدان ہے جہاں اصول اور اخلاق اکثر نظرانداز کر دیے جاتے ہیں بانی پی ٹی آئی، جو عوام کی خدمت اور سماجی اصلاحات کے لیے مشہور تھے، اس سیاسی کھیل میں شامل ہو گئے۔ ان کے ارادے کی نوعیت ہمیشہ متنازع رہی، سیاست کا ماحول، جہاں ذاتی مفادات اور مخالفین کو نیچا دکھانے کا رجحان غالب ہو، ان کے کردار اور مقبولیت پر منفی اثر ڈالنے لگا۔ وزیر اعظم بننے کے بعد وہ وہی شخص نہ رہے جو پہلے لوگوں کے دلوں پر راج کرتا تھا۔ ان کے فیصلے، پالیسیز اور طرز حکومت نہ صرف سیاسی مخالفین بلکہ ان کے اپنے حامیوں کے لیے بھی تنازع بن گئے۔ ان پر الزامات کی بوچھاڑ ہوئی، اور ان کے نظریات پر سوالات اٹھائے گئے۔ سیاست نے نہ صرف ان کے سکون کو چھینا بلکہ انہیں ایک ایسے راستے پر ڈال دیا جہاں وہ محبت کی بجائے تنقید اور نفرت کا سامنا کرنے لگے۔
آج بانی تحریک انصاف جیل میں ہیں، اگر وہ صرف سماجی خدمات تک محدود رہتے تو آج بھی وہ ملک بھر میں محبت اور احترام کی علامت ہوتے۔ لیکن منفی سیاست نے ان سے وہ مقام چھین لیا جو انہوں نے اپنی سماجی خدمات کے ذریعے کمایا تھا۔ ان کی رہائی کے لئے فائنل کال کے ساتھ کارکنان کو بار بار سڑکوں پر نکالا جاتا ہے ، قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی رٹ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں لا کھوں کی تعداد میں وہ عوام پریشانی شکار ہوجاتی ہے جو پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے اور ان کے مسائل کے حل کی صورت کسی طور نظر نہیں آتی۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ میں اکثر دہرایا جانے والا سبق ہے۔ اقتدار کی جنگ صرف سیاستدانوں کو ہی نہیں بلکہ قوم کو بھی تقسیم کرتی ہے، اور اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اصل کامیابی اقتدار کے حصول میں نہیں بلکہ سکون، قناعت، اور عوام کی خدمت میں ہے۔ سیاست اگر انسان کی خدمت کے لیے ہو تو نعمت ہے، لیکن اگر صرف طاقت اور ذاتی مفادات کے لیے ہو تو یہ نہ صرف انسان کو برباد کرتی ہے بلکہ معاشرے کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ سیاست نام پر آخری حدود بھی کراس کی جانے لگی ہیں اور مملکت و قوم کے مفاد پر اپنے فروعی مفادات کو فوقیت دینے کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جس نے ایک نئی کہانی کی بنیاد رکھی۔