احتجاج سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان
پاکستان کی معیشت کا پہیہ کڑی محنتوں، ریاضتوں اور جدوجہد کے بعد پچھلے کچھ مہینوں سے چلنا شروع ہوا ہے۔ معیشت کی بحالی کا سفر جاری ہے۔ ملک پچھلے ساڑھے 6سال کے دوران پیدا ہونے والی مشکلات اور مصائب سے اُبھر رہا ہے۔ دوست ممالک کی جانب سے عظیم سرمایہ کاریوں کا آغاز ہوگیا ہے۔ گرانی میں بتدریج کمی کے سلسلے جاری رہے، کافی عرصے بعد مہنگائی کی شرح سنگل ڈیجیٹ پر آئی۔ اسی طرح شرح سود میں خاطرخواہ کمی پچھلے کچھ مہینوں کے دوران ممکن ہوسکی ہے۔ ساڑھے 22فیصد سے کم ہوکر وہ 15فیصد پر آگئی ہے۔ حالات تیزی سے بہتر ہورہے ہیں۔ پاکستان انتہائی سُرعت سے مصائب اور مشکلات کے بھنور سے نکل رہا ہے۔ ملک و قوم کی ترقی اور خوش حالی کا سفر کامیابی سے جاری ہے۔ مختلف عالمی ادارے بھی اس حوالے سے اپنی رپورٹس میں پاکستان اور اُس کے عوام کی بہتری کی نوید سناچکے ہیں۔ وہ گرانی میں مسلسل کمی اور معیشت کی بہتری کی پیش گوئیاں کررہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر پچھلے 9ماہ کے دوران کافی سال بعد غریب عوام کی حقیقی اشک شوئی ہوتی دکھائی دی۔ اس سے قبل وہ پچھلے 6سال تک انتہائی مصائب اور آلام کا شکار رہے تھے۔ ملک و قوم بلندی کی جانب بڑھ رہے ہیں اور لگنے لگا ہے کہ چند ہی سال میں تمام دلدر دُور ہوجائیں گے۔ پاکستان جمہوری ملک ہے۔ یہاں ہر ایک کو پُرامن احتجاج کا حق حاصل ہے، اگر کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی ہورہی ہے تو وہ پُرامن احتجاج کا حق محفوظ رکھتا ہے، لیکن احتجاج کی آڑ میں اکثر ملک کے امن و امان کو دائو پر لگانے کی بھونڈی کوششیں سامنے آتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں اس حوالے سے 9مئی 2023ء کی مثال دی جاسکتی ہے، اس دن کو بڑے سانحے میں تبدیل کردیا گیا تھا، عوام کے جذبات کو بُری طرح مجروح کیا گیا تھا۔ اب پھر ملک میں احتجاج کا ڈول ڈالا جارہا ہے، جس سے امن و امان کی صورت حال کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے، یہ امر کسی صورت مناسب نہیں ٹھہرایا جاسکتا، کیونکہ ملکی معیشت بحالی کے سفر پر تیزی سے گامزن ہے اور وہ موجودہ حالات میں ایسی کسی بھی رُکاوٹ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اس سے ترقی کے سفر کو بڑی زک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ اس حوالے سے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بھی اظہار خیال کیا ہے اور احتجاج سے ہونے والے نقصانات سے متعلق آگہی دی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ اپوزیشن کے احتجاج کی کال سے روزانہ190ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو میں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ لاک ڈائون اور احتجاج کی وجہ سے ٹیکس وصولیوں میں کمی ہوتی ہے، احتجاج کے باعث کاروبار میں رُکاوٹ سے برآمدات متاثر ہوتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اپوزیشن کے احتجاج کی کال سے روزانہ 190ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے، احتجاج کے باعث امن برقرار رکھنے کے لیے سیکیورٹی پر اضافی اخراجات آتے ہیں، آئی ٹی اور ٹیلی کام کے شعبے میں نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ٹی اور ٹیلی کام کی بندش سے سماجی طور پر منفی اثر پڑتا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ وزارت خزانہ نے اس سلسلے میں رپورٹ تیار کی ہے اور محتاط اندازے کے مطابق جی ڈی پی کو روزانہ 144ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے، ہڑتال کے باعث برآمدات میں کمی سے روزانہ 26ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ احتجاج کے دوران براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری متاثر ہونے سے روزانہ 3ارب روپے نقصان ہوتا ہے، احتجاج کے باعث صوبوں کو ہونے والے نقصانات علیحدہ ہیں، صوبوں کو زرعی شعبے میں روزانہ نقصان 26 ارب روپے کا ہوتا ہے، صوبوں کو صنعتی شعبے میں ہونے والا نقصان 20ارب روپے سے زیادہ ہے۔ روزانہ 190ارب روپے کا نقصان ملکی معیشت کے لیے سوہانِ روح ہے۔ اگر اس کے سلسلے جاری رہے تو اُبھرتی ہوئی معیشت کا بٹہ پھر سے بیٹھنے کا خدشہ ہے۔ وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کردہ اعداد و شمار حقائق پر مبنی ہیں۔ ماضی سے اب تک ہڑتالوں، احتجاجوں، دھرنوں اور دیگر طریقوں سے ملکی معیشت پر کاری ضرب لگانے کے سلسلے دراز رہے ہیں۔ احتجاج ہر ایک کا حق ہے، لیکن یہ اس طرح کیا جائے کہ جس سے امن و امان کی صورت حال کو نقصان نہ پہنچے۔ ملکی امیج متاثر نہ ہو۔ عوام کو اس کا خمیازہ نہ بھگتنا پڑے۔ دیہاڑی دار کے گھر کا چولھا ٹھنڈا نہ رہے۔ سیاست خدمت کا نام ہے۔ یہ اس طرح کی جائے کہ لوگوں کا بھلا ہو۔ سیاست کی آڑ میں شر پھیلانا کسی طور پسندیدہ عمل نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ سیاست تدبر، دُور اندیشی، بردباری کا تقاضا کرتی ہے۔ موجودہ حالات میں ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں سیاست دانوں کو سیاسی دانش کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ سیاست دان احتجاج ضرور کریں، لیکن اس بات کا لازمی خیال رکھیں کہ امن و امان پر حرف نہ آئے، عوام متاثر نہ ہوں۔ معیشت کا پہیہ رواں دواں اور ترقی و خوش حالی کی جانب سفر جاری رہے۔
بھارت: انتہاپسندوں کے ہاتھوں اقلیتوں کی زندگی اجیرن
بھارت کو اقلیتوں کے لیے جہنم بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے۔ مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کا اکثریت کی جانب سے بدترین استحصال جاری ہے۔ انتہاپسند ہندوئوں کو اکثریت اگر دن کو رات قرار دے دے تو وہ رات ہی ٹھہرتی ہے۔ سچ کا گلا گھونٹنے کی ڈھیروں مثالیں موجود ہیں۔ مسلمان تو انتہاپسند ہندوئوں کے خاص نشانے پر رہتے ہیں۔ دوسری اقلیتوں سکھ، پارسی، عیسائی و دیگر کا حال بھی کچھ اچھا نہیں۔ بھارت میں قدیم مساجد کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مندر ٹھہرا کر اُن کی مسماری اور اُن کی جگہ مندر تعمیر کرنے کے سلسلے جاری ہیں۔ مودی دور میں یہ گھنائونی سازش تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے۔ اب ایک اور مسجد کو مندر ٹھہرانے کی بھونڈی کوشش کی جارہی ہے، جس کی راہ میں حائل ہونے والے مسلمانوں پر پولیس کی جانب سے اندھا دھند گولیاں برسادی گئیں، جس کے نتیجے میں تین مسلمان شہید ہوگئے جب کہ انڈین پولیس کی جانب سے اُلٹا مسلمان خواتین سمیت 15 افراد کو گرفتار بھی کرلیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی ریاست اُترپردیش میں مسجد کی مسماری اور مندر کی تعمیر کے لیے کرائے جانے والے سروے کے دوران پولیس نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے براہ راست فائرنگ کردی، تین مسلمان شہید۔ بھارتی میڈیا کے مطابق اُترپردیش کے علاقے سنبھل کی جامع مسجد کے ماضی میں مندر ہونے کا دعویٰ کرکرکے انتہا پسند ہندوئوں نے عدالت میں مقدمح دائر کیا تھا، جس میں کہا گیا کہ جامع مسجد کو مغل دور میں ایک مندر کو گراکر تعمیر کیا گیا تھا۔ مسجد سے ملنے والے نوادرات کی اس کی تصدیق ہوتی ہے، جس پر مسجد کمیٹی نے کسی بھی ایسی چیز کے ملنے کو جھوٹ اور سازش قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ جامع مسجد کو ایک اور بابری مسجد بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عدالت نے فریقین کا موقف سننے کے بعد مسجد کے سروے کا حکم دیا تھا، جس پر پولیس عمل درآمد کے لیے پہنچی۔ انتہا پسند ہندو بھی جمع ہوگئے۔ ایک ہزار سے زائد مسلمان بھی مسجد کے باہر جمع ہوگئے اور پولیس کو عدالتی حکم نامہ دکھانے کو کہا اور اس کے بغیر پولیس کو اندر داخل ہونے سے روک دیا۔ اس دوران پولیس نے عوام کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔ پولیس نے براہ راست فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں تین مسلمان شہید ہوگئے۔ شہدا میں نعیم، بلال اور نعمان شامل ہیں۔ اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق مُراد آباد پولیس نے تین خواتین سمیت 15مسلمانوں کو گرفتار کرلیا۔ نوجوانوں کی شہادت اور خواتین کی گرفتاری پر علاقہ مکین مشتعل ہوگئے اور پولیس کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا۔ یہ واقعہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ تین مسلمانوں کو شہید کرنے کا واقعہ ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔ انتہاپسند مودی کے دور میں بھارت میں اقلیتوں کی زندگی بدترین عذاب کا شکار ہوگئی ہے۔ سب انتہائی مشکل سے گزر رہے ہیں۔ ہر شعبے میں اُنہیں بدترین تعصب کا سامنا ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کی بدترین پامالی پر مہذب دُنیا اور عالمی اداروں کو آواز اُٹھانی چاہیے۔