امریکہ کا صدر بننا ہمارے اور خطے کیلئے کیا معنی رکھتا ہے؟
عبدالرزاق برق
دنیا کی ایک سپرپاور اور بہت سے ممالک پر راج کرنیوالے ملک امریکہ کے دوسری بار نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ تو بن گئے مگر اہم سوال یہ ہے کہ امریکہ کا صدر بننا ہمارے اور اس خطے کیلئے کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا جس طرح امریکی صدر جوبائیڈن نے دنیا کے سب سے بڑے مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کو کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ تعاون کرکے انہیں قرضہ دیا جائے، کیا امریکہ کے 47ویں صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج آئی ایم ایف کو کہے گا کہ پاکستان کو قرضہ باقاعدگی سے جاری کیا جائے؟ کیا نئے صدر صاحب ہمارے عدالتی فیصلوں کا احترام کریں گے یا بل کلنٹن کی طرح پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کریں گے۔ اس وقت کے آرمی چیف کو فون کرکے یہ کہا گیا کہ میاں نوازشریف کو رہا کیا جائے اور انہیں سعودی عرب بھیجا جائے اور عین اس وقت کی حکومت نے نوازشریف کو پوری فیملی کے ساتھ جہاز میں سوار کرکے سعودی عرب بھیجا حالانکہ اس وقت ہماری عدالت نے نوازشریف کو سزادی تھی مگر یہ سزا امریکی صدر کی ایک ٹیلیفون کال سے ہوا میں اڑ گئی، کیا نئے صدر افغان طالبان کو کہیں گے کہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات بنائے جائیں اور ٹی ٹی پی کو افغانستان سے نکال کر پاکستان کے حوالے کیا جائے؟ کیا امریکہ کے نئے صدر جنوبی ایشیا میں بھارت کو چین کے مقابلے میں ایک چودھری کا کردار ادا کرنے کیلئے نہیں کہیں گے؟ کیا امریکی صدر صاحب چین کو پاکستان میں سی پیک بنانے اور مکمل ہونے دیں گے؟ کیا وہ ایران پر پابندیوں کا خاتمہ کریں گے؟ کیا امریکہ کے دوسری بار منتخب ہونیوالے صدر صاحب پاکستان کو یہ اجازت دیں گے کہ وہ ایران سے سستی گیس اور تیل حاصل کریں؟ کیا وہ پاکستان کے ایک مذہبی رہنما حافظ سعید پر نئی پابندی لگانے کیلئے پھر کہیں گے؟ کیا وہ کارگل کی طرح تعینات پاکستانی اہلکاروں کو واپس بلانے کا حکم تو نہیں دیں گے؟ کیا اقوام متحدہ کے معاملات میں پہلے کی طرح مداخلت تو نہیں کریں گے؟ یا مداخلت اسی طرح جاری رکھیں گے؟ یہ جو غزہ میں انسانوں کا قتل عام جاری ہے وہاں اسرائیل نے انسانیت کا جنازہ نکال دیا ہے، روزانہ بڑی تعداد میں بچے، عورتیں اور بے گناہ شہری قتل ہورہے ہیں، کیا امریکی صدر یہ جرأت کریں گے کہ وہ اسرائیل کی کوئی مذمت کر سکیں؟ کیا انہیں اب اسرائیل کی فلسطین میں انسانی حقوق کی پاسداری نظر آئے گی؟ جوکہ جنگی قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ سکول ہسپتال پر حملے کر رہے ہیں، نئے امریکی صدر اسرائیل کیخلاف ایک بات بھی نہیں کہہ سکتے اور نہ انہیں جنگ رکوانے پر مجبور کر سکتے ہیں کیونکہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل ایک بدمست ہاتھی بن چکا ہے، وہ فوری طور پر کسی کی بات سننے اور ماننے کیلئے تیار نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں بااثر یہودیوں نے ٹرمپ کی بھرپور حمایت کی تھی، چندہ بھی انہوں نے زیادہ دیاتھا امریکی معیشت کا دارمدار بھی یہودی کمپنیوں پر ہے، ٹرمپ یہودیوں کو ناراض کرنے کا رسک نہیں لیں گے۔ ٹرمپ اسرائیل کا بڑا حمایتی ہے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیل کا رقبہ تھوڑا سا کم ہے، اس کو بڑا ہونا چاہیے۔ جنگیں رکوانے کے بارے میں کیا وہ جنگیں روک سکتے ہیں یا نہیں؟ امریکہ نے جنگیں چھیڑنی ہیں اور صلح بھی کرانی ہے اور اس نے دنیا کی دوسری اقوام کی حمایت بھی حاصل کرنی ہے کیونکہ ان جنگوں کا بالواسطہ فائدہ امریکہ کو ہوتا ہے۔ وہ ایک وارمشین ہے، دنیا میں ہر جنگ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے اسلحے کے ساتھ لڑی جاتی ہے اور ہر جنگ کا معاشی فائدہ امریکہ کو ہوتا ہے یا اس کے اتحادی اسی آمدن سے امریکہ اپنے شہریوں کو سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ اگر یہ جنگیں ختم ہوجائیں تو اس کا بڑا ذریعہ آمدن ختم ہو جائیگا، پاکستان میں امریکہ کی مداخلت کے بارے میں ایک بات تو سیدھی ہے کہ امریکہ بہادر ہمارے اندرونی معاملات میں ہمیشہ مداخلت کرتا رہا ہے اور اس ملک میں امریکہ کی مرضی کے بغیر نہ آرمی چیف بنتا ہے نہ وزیراعظم لہٰذا جب بھی امریکہ کا دل چاہے گا وہ ہوسکتا کیونکہ امریکہ امریکہ ہے، اس کا صدر جو بھی چاہے وہ کروا سکتا ہے، امریکہ اگر رجیم چینج آپریشن کرا سکتا ہے تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اگر امریکہ چاہے تو پاکستان میں بھی کیا کچھ نہیں ہوسکتا؟ لیکن یہ بھی امریکہ کی پاکستان میں کچھ بھی کرنے کی تاریخ رہی ہے کہ ٹرمپ اور اوبامہ نے پاکستان کے شکیل آفریدی جوکہ امریکہ کیلئے چودہ لاکھ روپے کے عوض پاکستان میں save the children ایک فرنچ این جی او کے ذریعے سیمپل بنانے کا کام کیا تھا اور انہیں ان دونوں صدور نے ہیرو قرار دیا تھا مگر اب تک کوئی بھی امریکی حکومت انہیں رہا نہ کروا سکی۔ اسی امریکہ نے پاکستان کو ایٹمی دھماکے کرنے سے نہ روک سکا۔ سی پیک کو پاکستان میں شروع کرنے سے نہ روک سکا ؟ اسی امریکہ نے 2مئی 2011میں اسامہ بن لادن کے اوپر امریکہ نے کارروائی کی۔ انہوں نے اسامہ بن لادن کو مار دیا اور اس کی لاش اپنے ساتھ لے گئے۔ امریکی صدر کی کامیابی پر یہاں پاکستان کی ایک سب سے بڑی پارٹی پی ٹی آئی صدر ٹرمپ کی کامیابی پر بڑی خوشیاں منا رہی ہے اور ٹرمپ کی اس کامیابی کو پی ٹی آئی امریکہ میں ایک بین الاقوامی تبدیلی قرار دیا جارہا ہے۔ ا نکا عمل یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ اگر ٹرمپ کی کامیابی ان کے حق میں نہیں تو ان کیخلاف بھی نہیں اور ٹرمپ کی کامیابی سے کم از کم کچھ بہتری تو ان کیلئے آئی ہے۔ پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ امریکہ کے صدارتی الیکشن کے بعد پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عالمی توجہ حاصل کرنا آسان ہوگا لیکن امریکہ میں حکومت کی تبدیلی کے بعد پاکستان میں عمران خان کیلئے فوری طور پر کوئی ریلیف حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ کے نئے صدر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو اڈیالہ جیل سے رہا کریں گے؟ یا رہا کروا سکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر امریکہ چاہے تو پاکستان میں کیا کچھ نہیں ہوسکتا؟ بلکہ وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ امریکہ کسی بھی ملک میں رجیم چینج لا سکتا ہے، وہ دنیا کے کئی ممالک میں ایسا کر چکا ہے اور ماضی میں یہ امریکہ کا مشغلہ رہا ہے۔ امریکہ ایک ایسی ریاست نہیں جو ایک جغرافیہ میں قید آبادی کی فلاح و بہبود کی ضامن ہے، وہ عالمی سیاست کی باگ بھی اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے۔ اب امریکہ پاکستانی سیاست میں عمران خان کی رہائی کیلئے سعودی عرب کے ولی عہد کے ذریعے پاکستانی حکام پر اثر ڈال سکتے ہیں۔ عمران خان کی حکومت ختم کرنے میں اسی امریکہ کا ہاتھ ملوث رہا ہے، جب عمران خان کی حکومت عدم اعتماد کے ذریعے ختم کرائی گئی تو اس وقت پی ڈی ایم کی حکومت کے وزیراعظم میاں شہباز شریف نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارک باد دی اور یہ بھی کہا کہ ہم نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ ملکر کام کرنے کیلئے تیار ہیں۔ لیکن امریکہ کے صدارتی الیکشن سے پہلے پہلے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی تشکیل اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں اضافے کو ایک احتیاطی بندوبست کے طور بھی دیکھا جارہا ہے۔ اس کا مقصد پاکستان کی سیاست میں غیرملکی مداخلت کو روکنا نظر آتا ہے۔ میرے خیال میں ویسے پاکستانی اسٹبلیشمنٹ اور امریکی پینٹاگان کے درمیان ہمیشہ رابطے رہے ہیں۔ اب اگر عمران خان کی رہائی کے بارے میں کچھ کریں گے تو وہ درپردہ ہوگا اور وہ حکومت کی سطح پر نہیں بلکہ اس سے بالا بالا ہوگا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کانگریس سے کوئی قرارداد پاس ہو جائے، کوئی مہم چلائی جاسکتی ہے لیکن پی ٹی آئی سربراہ یہ جو کہتے تھے کہ پاکستان کسی کے باپ کی جاگیر نہیں کہ مداخلت کرے، ہمیں امریکہ نے نکالا ہے، اب وہ کہتے ہیں ٹرمپ ہمیں آزادی دلائے گا۔ نہ نظریہ نہ سیاسی فہم؟ اگرچہ اس کے جواب میں پی ٹی آئی والے یہ کہتے ہیں عمران خان ہمیں امریکی غلامی سے روکتی ہیں دوستی سے نہیں روکتے۔ دوستی اور غلامی میں فرق ہوتا ہے۔ دوستی کی بنیاد پروہ تعلقات کے قائل ہیں جبکہ اسی عمران خان نے خود تو امریکہ کو ایبسلوٹلی ناٹ کہا تھا اور مزید یہ کہا تھا کہ میں اپنی قوم کو امریکی ناجائز خواہشات کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتا تھا اور میں نے امریکہ کی غلامی کا چغہ ایبسلوٹلی کہہ کر قبول کرنے اور پہننے سے انکار کیا تھا، اس لئے امریکہ نے میری حکومت گرائی تھی۔ میں مر سکتا ہوں لیکن امریکہ سے عزت کی بھیک نہیں مانگ سکتا، ہم کوئی غلام ہیں کہ امریکی حکمرانوں کی چغوں پر بیٹھے رہیں اور اپنی آزادی کو امریکہ کے قدموں پر گروی رکھ دیں۔ یہ باتیں پی ٹی آئی کے سربراہ 70سے زائد جلسوں میں پورے طمطراق کے ساتھ کرتے تھے اور پاکستان کے بچے بوڑھے جوان عورتیں اور ہر شعبہ زندگی کے لوگ امریکہ کی نفرت میں بانی پی ٹی آئی کے ساڑھے تین سال کی حکومت سے نفرت کو بھول گئی۔ ایک دفعہ انہوں پی ٹی آئی کی سینئر قیادت سے سرعام یہ کہنا شروع کر دیا کہ اب کسی نے اپنی میڈیا ٹاک یا پریس کانفرنس میں امریکن سائفر اور امریکہ کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنی ہے۔ سائفر اور میمو کے بارے میں امریکہ پر کوئی الزام تراشی نہیں کرنی ہے۔ عمران نے دو بار سکیورٹی کونسل کی میٹنگ کے اعلامیہ میں یہ بھی کہا تھا کہ امریکہ نے ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہے اور پھر اپنی حکومت ختم ہونے کے چار ماہ بعد ہی تحریک انصاف کے سربراہ نے اپنی امریکہ کی تنظیم اور یہودی لابنگ فرموں کے ذریعے امریکہ میں نئے چورن کو بیچنا شروع کر دیا اور وہ تھا امریکہ سے دوستی کا تعلق اور رواداری۔