بھوکی اشرافیہ اور بے بس عوام
تحریر: محمد ریاض ایڈووکیٹ
دنیا میں رائج جمہوری نظام حکومت میں ریاست کو تین حصوں، مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ مگر پاکستانی ریاست میں دو صرف حصے ہیں۔ ایک خون پسینے کی کمائی سے ریاست کا پیٹ پالنے والی عوام الناس دوسری ریاست پر حکمرانی کرنے والی اشرافیہ جس میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ سب شامل ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں میں پاکستانی اشرافیہ کی نوکریوں کو پکا کرنے، ان کی مراعات میں اضافے کے لئے حکومتی حکم نامے جاری کئے گئے بلکہ قانون سازی تک کی گئی۔ گزشتہ ہفتہ کی سب سے گرما گرم خبر جس نے ریاست پاکستان کی عوام کو شدید غم و غصہ میں مبتلا کیا وہ تھی پاکستانی اعلیٰ ترین عدلیہ کے معزز ترین ججز کی مراعات میں بے پناہ اضافہ کرنے کا وفاقی حکومت کا حکم نامہ۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق ججوں کو ہائوس رینٹ کی مد میں ملنے والے الائونس کو 68ہزار روپے سے بڑھا کر ساڑھے تین لاکھ روپے جبکہ جوڈیشل الائونس جو پہلے تقریبا ساڑھے تین لاکھ روپے تھا، اسے اب بڑھا کر دس لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے گزشتہ سال ماہ جولائی میں چیف جسٹس آف پاکستان کی ماہانہ تنخواہ میں تقریبا دو لاکھ پانچ ہزار اور دیگر ججوں میں تنخواہ میں تقریبا دو لاکھ روپے کا اضافہ کیا گیا تھا جس کی بدولت چیف جسٹس کی تنخواہ بارہ لاکھ تیس ہزار روپے ہوگئی اور ججوں کی تنخواہ گیارہ لاکھ ساٹھ روپے ہوگئی تھی۔ سب سے حیران و مضحکہ خیر بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے معزز ججوں کو انکم ٹیکس سے بھی استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔ بجلی، گیس، پانی اور پٹرول کے اخراجات بھی حکومتی خزانہ سے مہیا کئے جاتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سپریم کورٹ کے ایک معزز جج پر ماہانہ تنخواہ، مراعات، سیکورٹی اخراجات کا تخمینہ تقریبا ایک کروڑ روپے تک بنتا ہے۔ یاد رہے گزشتہ ماہ تک سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد سترہ تھی مگر اب بڑھ کر چونتیس ہوجائے گی۔
گاہے بگاہے انتظامی اُمور میں سرعام مداخلت، چھوٹی چھوٹی باتوں پر سوموٹو نوٹس لینے اور وزرائے اعظم و وزرائے اعلی، وزیروں کو سمن جاری کرنے والی عدلیہ کے معزز ججوں میں کسی ایک جج صاحب کی جانب سے ججوں کی تنخواہوں و مراعات کے نوٹیفیکیشن کے برخلاف عدالتی ریمارکس یا کارروائی کبھی نہ دیکھی اور شائد نہ کبھی دیکھنے کو ملے گی۔ کئی مواقع پر آپ نے کچھ معزز ججوں کی جانب سے مختلف ہائوسنگ سوسائٹیوں میں پلاٹس لینے کی خبریں بھی سن رکھی ہونگی۔ گزشتہ سال جب ججوں میں پلاٹوں کی تقسیم کی بازگشت جاری تھی تو جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا تھا کہ پلاٹ بانٹنے کی تاریخ بہت زیادہ پرانی نہیں ہے، سن 1960کی دہائی میں جج کو ریٹائرمنٹ کے وقت دو سے تین سو ایکڑ تک زرعی زمین دی جاتی تھی۔ اس وقت آبادی کم تھی اور بہت ساری زمین خالی پڑی تھی۔ یاد رہے ساٹھ کی دہائی کے غیر آئینی حکمران ججوں پر مہربان کیوں نہ ہوتے جبکہ وہ خود ملک پر قبضہ جمائے بیٹھے تھے۔ پاکستانی تاریخ گواہ ہے کہ آمروں کو حق حکمرانی عطا کرنے اور ان کے ہر غیر آئینی و غیر قانونی فیصلوں پر دستِ شفقت ہمیشہ اشرافیہ کے معزز ججوں اور نام نہاد سیاستدانوں نے مہیا کیا۔
جہاں تک ہائوسنگ سوسائٹیوں میں مہنگے ترین کمرشل پلاٹ ملنے کے سلسلے کا تعلق ہے تو یہ گزشتہ کچھ دہائیوں سے شروع ہوا ہے۔ ماضی میں کئی معزز ججوں کو قیمتی پلاٹوں پر ہاتھ صاف کرتے دیکھا گیا ہے۔ عوام کو کچہری میں کورٹ فیس سے لیکر عدالتی آرڈر کاپی بمعاوضہ لینی پڑتی ہے۔ حصول ِانصاف کے لئے بے بس عوام الناس کی جائیدادیں تک بِک جاتی ہیں مگر انصاف کا حصول کب ملے گا اسکی گارنٹی ہمارا عدالتی نظام دیتا دکھائی نہیں دیتا۔ جبکہ اس کے برعکس اشرافیہ کے لئے مراعات کے سلسلے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔
دوسری جانب بھوکی اشرافیہ کے دیگر اراکین پارلیمان میں حزب اقتدار و حزب اختلاف کی صورت میں ہر قانون سازی پر ایک دوسرے سے اختلاف کرتے نظر آئیں گے مگر جب بات ان کی تنخواہوں و مراعات کی آئے تو طرفین کے ممبران اسمبلی بانہوں میں بانہیں ڈالے قانون سازی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ قرضوں میں ڈوبی ریاست پاکستان کی ابتر معاشی حالت کو سامنے رکھتے ہوئے ججوں کی مراعات میں اضافے پر عوام سیخ پا نظر آتے ہیں اور حکومتی ترجیحات پر کھل تنقید کر رہے ہیں۔ عوام کا غصہ بھی حق بجانب ہے کہ جس برق رفتاری سے اشرافیہ کے فوائد کے لئے قانون سازی کی جاتی ہے، کاش اسی رفتار سے عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والی اشرافیہ عوام کے فائدے کے لئے بھی قانون سازی کر سکے۔ ایک طرف سپریم کورٹ میں ساٹھ ہزار کے قریب زیر التواء مقدمات جن کی شنوائی میں کئی سال درکار ہوں گے، دوسری جانب ورلڈ جسٹس پراجیکٹ قانون کی حکمرانی انڈیکس کی سالانہ ریکنگ میں دنیا کے 142ممالک میں پاکستان کا 129واں نمبر ہے۔ عوام کا غم و غصہ عین فطری عمل ہے کہ کس کارکردگی کی بنا پر قومی خزانے کی بوریوں کے منہ اشرافیہ کی مراعات کے کھولے جارہے ہیں؟ ایک سوچ یہ بھی ہے کہ ججوں کی تنخواہیں سب سے زیادہ ہونی چاہیے تاکہ وہ کرپشن سے پاک ڈیوٹی سرانجام دے سکیں۔ مگر کیا اتنی تنخواہوں اور مراعات کے باوجود ہم نے ججوں کے روپ میں بیٹھے مظاہر نقوی ایسے کئی ججوں کو رنگے ہاتھوں کرپشن کرتے نہیں دیکھا اور جن کی کرپشن سپریم جوڈیشل کونسل و دیگر فورمز پر ثابت شدہ ہے۔ بطور قانون و سیاست کے طالب علم میں یہ اُمید کرتا ہوں کہ عدلیہ کے معزز جج اپنی مراعات کے لئے جاری نوٹیفکیشن کو مسترد کریں اور مراعات لینے سے انکار کر دیں، جس سے پاکستانی عوام میں عدلیہ کے لئے احترام میں اضافہ ہوگا۔