دستاویزات لیک کیس: نیتن یاہو کا سابق ترجمان گرفتار
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کے ایک سابق ترجمان کو بغیر اجازت پریس کو خفیہ دستاویزات لیک کرنے کے شبے میں گرفتار کیا گیا ہے۔
جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ لیک ہونے والی دستاویزات کے غلط ہاتھوں میں جانے سے غزہ میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔
اس کیس میں اس سے قبل تین اور افراد کو بھی گرفتار کیا گیا تھا جن میں سکیورٹی سروسز کے ارکان بھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ اسرائیل کی اپوزیشن نے الزام عائد کیا ہے کہ نیتن یاہو خود ان لیکس میں ملوث ہیں تاہم وزیر اعظم کے دفتر سے اس بات کی تردید کی گئی ہے۔
نیتن یاہو نے اپنے دفتر کے عملے کی طرف سے کسی بھی غلط کام کی تردید کی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک بیان میں وزیراعظم آفس کا کہنا تھا کہ انھیں میڈیا کے ذریعے لیک ہونے والی دستاویزات کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔
اسرائیلی حکام نے ستمبر کے آواخر میں دستاویزات لیک ہونے کے معاملے کی تفتیش شروع کی تھی جب لندن کے جوئیش کرونیکل اور جرمن اخبار بِلد نے ایسی رپورٹس شائع کیں جن میں خفیہ فوجی دستاویزات کی معلومات موجود تھیں۔
ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایک دستاویز میں تحریر تھا کہ حماس کے رہنما یحیٰ سنوار اور غزہ میں یرغمالیوں کو غزہ، مصر سرحد پر فلاڈیلفی کوریڈور کے ذریعے مصر میں سمگل کیا جائے گا۔ یہ رپورٹ شائع ہونے کے چند روز بعد یحیٰ سنوار اسرائیلی حملے میں ہلاک کر دیے گئے تھے۔
دوسری رپورٹ میں ایک میمو کا ذکر تھا جس میں یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے یحیٰ سنوار کی حکمت عملی کے حوالے سے بات کی گئی تھی۔ تاہم رپورٹس کے شائع ہونے کے چند دنوں بعد ہی جرمن اخبار بلد اور برطانوی جوئیش کرونیکل دونوں کو سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔
ردعمل کے باعث جوئیش کرونیکل نے یہ کہہ کر اپنی رپورٹ واپس لے لی کہ زیر بحث دستاویز کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور مصنف کا نام بھی من گھڑت ہے۔
خبر رساں ایجنسی کے مطابق جب جرمن اخبار بلد سے ان کے ذرائع کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے ردعمل دینے سے انکار کر دیا تاہم انھوں نے کہا کہ ’اسرائیلی فوج نے اس دستاویز کی صداقت کی تصدیق کی ہے۔‘
ایک اور میڈیا آؤٹ لیٹ کے مطابق اسرائیلی میڈیا اور دیگر مبصرین نے ان رپورٹس کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق رپورٹس میں نیتن یاہو کی حمایت کی گئی ہے اور انھیں یرغمالیوں کو آزاد کروانے کے معاہدے میں ناکامی کی ذمہ داری سے بری الذمہ قرار دیا ہے۔
اسرائیلی اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق حالیہ گرفتار ہونے والا شخص نیتن یاہو کے قریبی لوگوں میں سے ہے اور ان کے ساتھ پچھلے ڈیڑھ سال سے بطور مشیر کام کر رہا تھا۔